گرفتاری، احتجاج، احتجاجی گرفتار، احتجاجیوں کی گرفتاری پر احتجاج، وہ بھی گرفتار، آخر کب تک؟

گرفتاری، احتجاج، احتجاجی گرفتار، احتجاجیوں کی گرفتاری پر احتجاج، وہ بھی گرفتار، آخر کب تک؟
’’میں انگلستان کی یوروپین یونین سے نکلنے کے حق میں نہیں، مگر کیا میں بریگزٹ کو تسلیم کرتی ہوں‘‘؟ اینا نے خود ہی سوال کیا اور پھر خود ہی جواب دیا۔ ’’جی ہاں میں کرتی ہوں، مگر میں لڑتی رہوں گی اس چیز کے لئے جس کو میں درست سمجھتی ہوں۔ احتجاج کرنا میرا حق ہے اور یہ مجھے میرے آئین اور میرے ملک کی جمہوریت نے دیا ہے‘‘۔ اینا کی بات سنتے ہوئے، میں محسن ابدالی کا سوچ رہی تھی، جو یہاں سے ہزاروں میل دُور اپنے جمہوری حق کے لئے لڑ رہا ہے۔ اینا کی طرح وہ بھی ایک طالب علم ہے۔ اس کا کسی سیاسی پارٹی سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کا جرم یہ ہے کہ وہ اپنے ملک پاکستان میں ہونے والے ظلم کے خلاف آواز اُٹھاتا ہے۔ وہ ان کے حق میں آواز اُٹھانے کے لئے نکلا تھا، جو اپنے ایک ہم وطن کے لئے آواز اُٹھا رہے ہیں۔ اب سے نہیں، تب سے جب ریاستی اہل کار راؤ انوار نے ایک بے گناہ شہری نقیب اللہ کو بے دردی سے شہید کر دیا تھا۔ بلکہ اس سے بھی پہلے سے۔



کیا یزیدیت کے خلاف آواز اٹھانا آج بھی جرم ٹھہرا؟ خبر کے مطابق لاہور میں گذشتہ جمعرات کی صبح چار بجے، کچھ افراد طلبہ یکجہتی مارچ کے ایک منتظم محسن ابدالی کے گھر میں گھسے، ان کے گھر والوں کے ساتھ بد تہذیبی سے پیش آئے، ان کے لیپ ٹاپ اور موبائل فون لیے اور بغیر کوئی وجہ بتائے محسن ابدالی کو زبردستی اٹھا کر ساتھ لے گئے۔ محسن ابدالی اس سے قبل مختلف ایشوز پر آواز اٹھاتے رہے ہیں۔ طلبہ یکجہتی مارچ کے علاوہ انہوں نے climate march میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ منگل کی شام انہوں نے Women Democratic Front کے زیرِ اہتمام ایک مظاہرے میں حصہ لیا، جو کہ پشتون تحفظ تحریک رہنما منظور پشتین کی رہائی کے لئے مظاہرہ کرنے والے عوامی ورکرز پارٹی کے رہ نماؤں کی گرفتاری کے خلاف لاہور میں منعقد کیا گیا تھا۔

کہنے کو آئین چادر اور چار دیواری کا تحفظ فراہم کرتا ہے۔ لیکن پاکستانی آئین کاغذ کے ایک بے وقعت ٹکڑے سے بڑھ کے کیا ہے؟ رات کے چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کرتے، محسن ابدالی کے گھر پر دھاوا بول دیا؟ کہنے کو آئین و قانون سے ماورا کوئی نہیں، لیکن یہ کہنے ہی کو ہے۔ سچ تو یہ ہے، کہ آئین و قانون کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ آئین و قانون کسی سے سوال نہیں کر سکتا، کیوں کہ سوال کرنے سے پاکستان کی سالمیت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔

یہاں انگلستان میں، اس جمہوری ملک کے ایک ایسے احتجاج میں، جو حکومتِ وقت کے خلاف ہے، میں اس احتجاجی مظاہرے میں کھڑی یہ سوچ رہی ہوں، کیا تیسری دُنیا کی اقوام یہ جانتی ہیں، کہ جمہوریت کس نعمت کا نام ہے؟ اپنے حق کے لئے آواز اٹھانا، ریاست کی ناروا پالیسیوں پر صدائے احتجاج بلند کرنے کے حق سے واقف ہیں؟



یہ ممالک جو باقی دُنیا کے لئے ایک مثال ہیں، ان کے شہریوں اور پاکستانیوں میں ایک بنیادی فرق ہے۔ وہ فرق یہ ہے کہ یہ تہذیب یافتہ شہری، جبر کے خلاف ایک آواز بن کے کھڑے ہوتے ہیں۔ خواہ یہ جبر فرد کی جانب سے ہو، یا ان کی ریاست ہی کی طرف سے کیوں نہ ہو۔ ریاست کہیں کی بھی ہو، اچھی نہیں ہوتی، جب تک کہ شہری اپنے حقوق سے واقف نہ ہوں۔ پاکستانی شہریوں کا یہ احوال ہے، کہ سانحہ ساہیوال ہو، 12 مئی 2007 کا ریاستی فساد، نقیب اللہ کی شہادت ہو، یا کوئی اور سانحہ، جبر کرنے والوں کو شہریوں ہی کی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے۔

منظور پشتین کی آواز کو ایک قوم کا احتجاج سمجھ کے باقی لوگ چپ سادھے بیٹھے ہیں، اور سانحہ ساہیوال کو گویا پنجابیوں کا مسئلہ سمجھ لیا گیا ہے۔ ایسے ہی ہزارہ قوم کا قتل عام ہو، ایک دور دراز علاقے کا مسئلہ سمجھ کے نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ پاکستانی قوم بننے میں جانے کتنے برس لگیں گے، تب تک ٹکڑوں میں بٹی قوم کے افراد کا مقدر نامعلوم کر دیے جانا ہے۔




پسِ تحریر: محسن ابدالی جمعرات کی شام گھر واپس آ چکے ہیں۔