• آن لائن اشتہاری ٹیرف
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • ہمارے لئے لکھیں
  • نیا دور انگریزی میں
پیر, فروری 6, 2023
نیا دور
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
نیا دور
No Result
View All Result

پشتون تحفظ تحریک پشتون نوجوانوں میں مقبول کیوں ہو رہی ہے؟

عبدالرؤف یوسفزئی by عبدالرؤف یوسفزئی
فروری 12, 2020
in تجزیہ, سیاست
5 0
0
پشتون تحفظ تحریک پشتون نوجوانوں میں مقبول کیوں ہو رہی ہے؟
26
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on Whatsapp

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ گاؤں کے ایک حجرے میں چھ ستمبر، 23 مارچ اور 14 اگست کو ٹیلی وژن کا بندوبست کیا جاتا تھا۔ چونکہ گھر میں ٹی وی نہیں تھا تو میں بھی اس دن ملٹری مارچ اور بعد میں محمد علی شہکی اور عالمگیر کے ’’شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے‘‘ جیسے ملی نغموں کی مدد سے خون کو گرمانے کے بعد پروگرامز سے یہی تاثر لیتا تھا کہ ہم دنیا کی بہترین اور ناقابلِ تسخیر قوم ہیں۔ مجھ سمیت گاؤں والے نور جہاں کی آواز میں ’’اے وطن کے سجیلے جوانو‘‘ سے لے کر ’’ہے جذبہ جنوں‘‘ تک کو انجوائے کرتے اور ایمان کی حد تک یقین تھا کہ ہم دنیا کی اعلیٰ ترین قوم اور ہماری فوج نمبر ون ہے اور مشرقی اور مغربی سرحدوں پر تو کمزور ایمان اور بغیر ایمان کے پڑوسی ہیں جن کو ہم کسی بھی وقت زیر کر سکتے ہیں۔

مجھے اپنے علاقے کا وہ ٹرک بھی یاد ہے جس کے پیچھے والے حصے پر جنرل ضیا کی تصویر تھی اور جب بھی ہم اس کو دیکھتے تو فوجی جوان کی طرح راستے میں کھڑے ہو کر اس ٹرک والی تصویر کو عزت اور بہادری کا سپوت تصور کر کے سلیوٹ کرتے۔ پھر ایک وقت میں الفا، براؤو چارلی اور عبدالرؤف خالد مرحوم کے ڈراموں نے تو یہ فیصلہ بھی کیا کہ حالات جیسے بھی ہوں مگر فوجی کپتان بننا ہے۔ مطالعہ پاکستان کے مطابق تو ویسے بھی ساری جنگیں ہم جیت ہی چکے ہیں۔ امام مسجد جمعہ کے روز یہی کہتے کہ کافر روس کو ہم نے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا تھا اور امریکہ سمیت دنیا کے کسی بھی ملک کو ہم تباہ و برباد کر سکتے ہیں۔ بلوچستان کے حوالے سے جب بھی ذکر آتا تو یہی سنتے کہ وہاں کے لوگ غدار ہیں اور ملک دشمن عناصر کے ہاتھوں میں کھیلنے والے ہیں مگر کسی نے نہیں بتایا کہ بلوچ قوم کے ساتھ دہائیوں سے سوتیلے بچوں جیسا سلوک کیا جاتا رہا ہے۔

RelatedPosts

‘دہشت گردی ختم کرنی ہے تو پی ٹی ایم کو آزاد کرنا پڑے گا’

جنرل باجوہ کی توسیع؟ کابینہ کمیٹی کی آرمی ایکٹ میں ترمیم، ‘دوبارہ تقرر’ کی جگہ ‘برقرار’ لکھنے کی تجویز

Load More

اُس عمر میں آئینی حقوق وغیرہ کا تو پتہ نہیں تھا۔ اسی طرح قوم پرست قیادت کو میں دشمنان اسلام و پاکستان تصور کرنے لگا۔ مجھے پرائمری اور ہائی سکول میں خود مختاری کا لفظ علیحدگی اور آزادی کے تناظرمیں سمجھایا گیا تھا اور اساتذہ نے یہی سمجھایا تھا کہ بے شک پانی خیبر پختونخوا سے نکلتا ہے مگر اس پر پورے ملک کے لوگوں کا حق ہے مگر کبھی یہ نہیں بتایا تھا کہ وفاق بجلی کی مد میں صوبے کا کتنا مقروض ہے اور دو روپے میں فی بجلی یونٹ یہی پشتون بیس روپے میں واپس خریدتے ہیں۔ بہرحال میں اپنا حق مانگنے والوں کو شک کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ اس کے ساتھ دوران کلاس جنگوں کا تذکرہ جذباتی انداز میں سنتے کہ 48 اور 65 کی جنگوں سمیت کارگل میں ہم نے دشمن کو سبق سکھایا ہے اور دنیا کو بھی ہماری طاقت کا درست اندازہ ہوا ہے۔ اس درمیان کمال مہارت سے مطالعہ پاکستان لکھنے والے سقوط ڈھاکہ بھلوانے کی ناکام کوشش بھی کرتے رہے، قوم کا اجتماعی حافظہ برباد کرنے والوں نے اپنے تیئں تو کوشش بھرپور کی ہے لیکن اس طرح تھوڑی ہوتا ہے کہ شترمرغ کی طرح سر کو ریت میں دبانے سے طوفان تھم جائے۔ تاریخ مسخ کرنے سے ختم نہیں ہوتی بلکہ سوالات اٹھانے والوں کے لئے ایک نئے اور واضح انداز میں سامنے آتی ہے۔

خیالات، واقعات، تاریخ اور کتابوں کا تصادم اس وقت شروع ہوا جب یونیورسٹی کے دنوں میں مختلف قسم کی کہانیاں سننے کو ملیں۔ جیسے کہ عالمی سطح پر پاکستان کو آئی ایم ایف، گلف ممالک سمیت چین کے قرضوں اور امریکہ کی امداد پر چلنے والی قوم کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ہمیں یہ تاریخ پڑھائی ہی نہیں گئی کہ کس طرح بنگالیوں کے ساتھ زیادتیاں روا رکھی گئیں اور نتیجتاً ہم اپنا آدھا ملک گنوا بیٹھے۔ اس کے بعد عائشہ صدیقہ کی کتاب اور آرٹیکلز نے مجھے اس ملک کے اصل طاقت کے مراکز کا بہتر ادراک دیا۔

افغانستان پر امریکی حملے کے بعد پاکستانی پشتون علاقوں میں شرپسندوں کے خلاف ملٹری آپریشنز شروع ہو گئے۔ سوات، باجوڑ، مومند سمیت دوسرے پشتون علاقوں سے لاکھوں کی تعداد میں لوگ اپنے ہی ملک میں نقل مکانی پر مجبور کر دیے گئے۔ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پشتونوں کے علاقوں کو دہشت گردوں کا گڑھ بنایا گیا۔ پہلے طالبان اور ملٹری آپریشنز کے بعد مقامی لوگوں کی ایک نہ ختم ہونے والی آزمائش شروع ہو گئی جو آج بھی جاری ہے، اگرچہ اس کی شدت میں بہت کمی آ گئی ہے مگر پھر بھی مومند، خیسوراور خڑقمر جیسے بدنما واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔

جب کراچی میں راؤ انوار نے نقیب اللہ محسود کو جعلی انکاؤنٹر میں قتل کیا تو وہ کسی حد تک پشتونوں کے صبر کا آخری درجہ تھا۔ تبھی پشتون تخفظ موومنٹ وجود میں آ گئی۔ منظور پشتین اور اس کے دوستوں نے جان ہتھیلی میں رکھ کر اسٹیبلشمنٹ کو للکارنا شروع کر دیا۔ اسلام آباد میں فروری 2018 میں دس روزہ دھرنا ہوا جس کو پاکستانی میڈیا نے کوریج نہیں دی بلکہ پشتون نوجوانوں کو ہندوستان اور افغانستان کے ایجنٹس کے طورپر پیش کیا مگر سوشل میڈیا اور بین الاقوامی میڈیا کے بہترین استعمال نے پاکستانی میڈیا کی کمی پوری کر دی۔ پی ٹی ایم میں پشتون تعلیم یافتہ کلاس نمائندگی کر رہی ہے جو بات دلیل کی بنیاد پر کرتی ہے۔ ریاست پاکستان نے چند مرتبہ مذاکرات کیے اور چند کمزور کمیٹیاں بھی بنائیں لیکن دور رس نتائج سامنے نہیں آئے۔ ایک غیر جانبدار تعلیم یافتہ پشتون نوجوان کے لئے اتنا ہی کافی تھا۔ یہیں سے سوالات نے جنم لینا شروع کر دیا اور پھر میرے لئے میڈم نور جہاں، محمد علی شہکی اور عالمگیر کے ملی ترانوں میں کوئی اثر نہیں رہا۔ مجھے ہر پشتون مظلوم لگنے لگا۔ ہر ایک کے پاس لکھنے کو داستانیں ہیں کہ کس طرح ان کی عزت نفس کو باربار مجروح کیا گیا، جب ان کو چیک پوسٹس پر لوگوں کے سامنے مرغا بنایا گیا اور جب اسی طرح کا واقعہ میرے ساتھ پشاور ائر پورٹ کے ساتھ والی چیک پوسٹ پر پیش آیا تو مجھے احساس ہو گیا کہ اس دیس میں اصل حکمران کون اور ہم جیسے تھرڈ کلاس شہری کیا چیز ہیں۔

نفسیاتی طور پر میں مضبوط وفاق اور ایک پاکستان قوم کے مؤقف کا حامی تھا اور یہ پشتون قوم پرست سیاسی جماعتیں مجھے ہندوستانی اور افغانستان فنڈڈ لگ رہی تھیں مگر باچاخان، ولی خان اور جنرل شاہد عزیز کی کتابیں پڑھنے کے بعد سچ اور جھوٹ کا صحیح اندازہ ہو گیا۔ اور جب جنرل مشرف نے امریکی ڈرون حملوں کی اجازت دی اور بعد میں پاکستانی چیک پوسٹ پر حملہ بھی ہوا جس میں کئی جانیں بھی گئیں تو اس دن مجھے درست اندازہ ہوا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ دل دل پاکستان کی جگہ آہستہ آہستہ ’’پختون تہ جوندون غواڑو‘‘ اور ’’دا سنگہ آزادی دہ‘‘ جیسے انقلابی قوم پرست ترانوں نے لے لی۔ صاحب شاہ صابر کی ایک نظم ’’دا ونی بوٹی واورے او گلونہ می وطن دے‘‘ بھی حال ہی میں پشتون گلوکاروں نے آئی ایس پی آر سپانسرڈ گائی ہے۔ مزے کی بات تو یہی ہے کہ یہ وہی شاعر ہے جس کو ریاست نے ملاکنڈ سازش کیس میں سنگین غداری میں نامزد بھی کیا تھا۔ شکر ہے کہ مرنے کے بعد تو صاحب شاہ صابر کو حب الوطنی کا سرٹیفیکیٹ مل گیا۔

دا ونے بوٹی واورے او گلونہ مے وطن دے
دا غرونہ مے ہڈوکی دی دا خاورہ مے بدن دے

ترجمہ: یہ درخت، برف، اور پھول میرا وطن ہے
یہ خوبصورت پہاڑ میرے ہڈیاں اور مٹی بھی میرا وطن ہے

یہ کہانی کسی ایک بندے کی نہیں ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کو گراس روٹس لیول پر معمولات کو جمہوری اداروں کے سپرد کرنا ہوگا اور اپنے آپ کو آئین کا تابع بنانا ہوگا۔ میری 2200 کلومیٹر لمبی سرحد محفوظ نہیں ہے، لہٰذا میری دلچسپی واہگہ بارڈر کی پریڈ میں بالکل بھی نہیں رہی۔ کرتارپور پر تو کافی خوش ہوں مگر طورخم اور چمن بارڈرز پر جب سکیورٹی اہلکار پشتونوں پر ڈنڈے برساتا ہے تو دل سے آہ بھی نکلتی ہے۔ غدار منظور پشتین، عالم زیب محسود، عالمگیر، ملا بہرام اور درجن اور جوان پشتون سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ معلوم نہیں کہ ریاست کو چلا کون رہا ہے؟ مراد سعید اور عبدالقادر پٹیل؟ نہیں تو۔

Tags: پشتون تحفظ تحریکپی ٹی ایمعبدالرؤف یوسفزئینیا دور
Previous Post

عمر ایوب صاحب، ریمنڈ ڈیوس عدالتی کارروائی کے بعد گیا تھا، احسان اللہ احسان کس عدالت میں پیش ہوا؟

Next Post

ایک لیٹر ڈیزل پر 46 روپے ٹیکس لیا جا رہا ہے، حکومتی اعداد و شمار

عبدالرؤف یوسفزئی

عبدالرؤف یوسفزئی

مصنف پشاور سے تعلق رکھتے ہیں اور صحافت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ ان سے رابطہ ٹوئٹر پر @theraufkhan کیا جا سکتا ہے۔

Related Posts

عمران خان مقتدر طاقتوں کا لگایا ہوا پودا ہے؛ اس کی اب تک حفاظت ہو رہی ہے

عمران خان مقتدر طاقتوں کا لگایا ہوا پودا ہے؛ اس کی اب تک حفاظت ہو رہی ہے

by زین سہیل وارثی
فروری 5, 2023
1

مورخہ 29 نومبر 2022ء بروز منگل ایک عظیم سپہ سالار نے پاکستان کی فوج کی کمان اپنے ہی ادارہ میں اپنے ماتحت...

‘عمران خان کو اس وقت اپنی گرفتاری کی سب سے زیادہ پریشانی ہے’

‘عمران خان کو اس وقت اپنی گرفتاری کی سب سے زیادہ پریشانی ہے’

by نیا دور
فروری 4, 2023
0

پاکستان میں سیاست اس وقت ٹھیک نہیں ہوگی جب تک تحریک انصاف باقی سیاسی جماعتوں کے ساتھ نہیں بیٹھتی، اور وہ اس...

Load More
Next Post
ایک لیٹر ڈیزل پر 46 روپے ٹیکس لیا جا رہا ہے، حکومتی اعداد و شمار

ایک لیٹر ڈیزل پر 46 روپے ٹیکس لیا جا رہا ہے، حکومتی اعداد و شمار

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

No Result
View All Result

ایڈیٹر کی پسند

عمران خان، اور ان کے ارد گرد بیٹھے سیاسی آوارہ گردوں کی اصل حقیقت!

عمران خان، اور ان کے ارد گرد بیٹھے سیاسی آوارہ گردوں کی اصل حقیقت!

by عاصم علی
فروری 2, 2023
1

...

فیض حمید صاحب، سب اچھا نہیں ہے!

فیض حمید صاحب، سب اچھا نہیں ہے!

by عاصم علی
فروری 3, 2023
0

...

Aamir Ghauri Nawaz Sharif

نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بن سکتے ہیں؟

by عامر غوری
جنوری 30, 2023
0

...

عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی ٹھکرائی ہوئی محبوبہ ہیں

عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی ٹھکرائی ہوئی محبوبہ ہیں

by عاصم علی
جنوری 18, 2023
0

...

جنرل یحییٰ خان اور جنرل قمر باجوہ ایک ہی سکے کے دو رخ ثابت ہوئے

جنرل یحییٰ خان اور جنرل قمر باجوہ ایک ہی سکے کے دو رخ ثابت ہوئے

by طارق بشیر
جنوری 18, 2023
0

...

Newsletter

ہماری مدد کریں

ٹویٹس - NayaDaur Urdu

نیا دور کے صفِ اوّل کے مصنفین

پیٹر جیکب
پیٹر جیکب
View Posts →
حسن مجتبیٰ
حسن مجتبیٰ
View Posts →
عرفان صدیقی
عرفان صدیقی
View Posts →
نجم سیٹھی
نجم سیٹھی
View Posts →
نبیلہ فیروز
نبیلہ فیروز
View Posts →
محمد شہزاد
محمد شہزاد
View Posts →
توصیف احمد خان
توصیف احمد خان
View Posts →
رفعت اللہ اورکزئی
رفعت اللہ اورکزئی
View Posts →
فوزیہ یزدانی
فوزیہ یزدانی
View Posts →
حسنین جمیل
حسنین جمیل
View Posts →
مرتضیٰ سولنگی
مرتضیٰ سولنگی
View Posts →
اسد علی طور
اسد علی طور
View Posts →
ادریس بابر
ادریس بابر
View Posts →
رضا رومی
رضا رومی
View Posts →
علی وارثی
علی وارثی
View Posts →

Cover for Naya Daur Urdu
64,514
Naya Daur Urdu

Naya Daur Urdu

پاکستان کی ثقافت اور تاریخ کو دیکھنے کا ایک نیا زاویہ

This message is only visible to admins.
Problem displaying Facebook posts.
Click to show error
Error: Server configuration issue

خبریں، تازہ خبریں

  • All
  • انٹرٹینمنٹ
  • سیاست
  • ثقافت
کم از کم اجرت 20 ہزار، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ: بجٹ 2021 پیش کر دیا گیا

اقتدار کے ایوانوں سے جلد کسی ‘بڑی چھٹی’ کا امکان ہے؟

اکتوبر 31, 2021
ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

اکتوبر 27, 2021
بد ترین کارکردگی پر الیکشن نہیں جیتا جاسکتا، صرف ای وی ایم کے ذریعے جیتا جاسکتا ہے

ای وی ایم اور انتخابات: ‘خان صاحب سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ لینے کے لیئے بے تاب ہیں’

اکتوبر 24, 2021

Naya Daur © All Rights Reserved

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English

Naya Daur © All Rights Reserved

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In