امان اللہ تو کب کا مر چکا تھا

امان اللہ تو کب کا مر چکا تھا

یہ غالباً 1981،1982 کی بات ہے جب میں نے بطور ایک فری لانس صحافی اپنے پیشے کا آغاز کیا تو ابتدائی دنوں ہی میں تھیٹر کے مزاحیہ فنکار امان اللہ کا پہلا انٹرویو کیا۔ اس وقت لاہور کے تھیٹر میں امان اللہ کا طوطی بول رہا تھا، وہ ریگل سینما کے مال روڈ والے گیٹ کے برابر والی گلی میں واقع شیراز ہال میں سٹیج پلے "سکسر" میں پرفارم کر رہے تھے۔
اپنی بے پناہ مصروفیت کی وجہ سے انہوں نے مجھے تھیٹر ہی کا وقت دے دیا، امان اللہ پورے کھیل کے دوران بیک سٹیج پر ہی ٹکڑوں میں مجھے انٹرویو دیتے رہے، اپنی انٹری پر معذرت کرکے آٹھ جاتے اور واپس آکر پھر گفتگو شروع کردیتے، اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ کس قدر ڈاؤن ٹُو ارتھ انسان تھے اور شہرت و مقبولیت کی بلندیوں پر ہونے کے باوجود ان میں کوئی تکبر نہ آیا تھا۔


اس وقت تک شہر میں نجی شعبے میں تھیٹر ہال بننا ابھی شروع نہیں ہوئے تھے جبکہ واحد سرکاری تھیٹر "الحمرا" میں لاہور آرٹس کونسل کا تھا جو پیلے رنگ کی پرانی عمارت کا ایک چھوٹا سا ہال تھا اور یہی اس وقت کا "الحمرا" تھا جبکہ پنجاب آرٹس کونسل کے پاس لارنس گارڈن (باغ جناح) کی "پہاڑی" پر واقع اوپن ایئر تھیٹر تھا جو شاذ و نادر ہی آباد ہوتا تھا۔


اس وقت کے "الحمرا" یعنی سرکاری تھیٹر میں اس وقت کی خاتُون ریذیڈنٹ ڈائریکٹر (جو بعد میں ایگزیکٹو ڈائریکٹر کہلائیں) نے"ان پڑھ" فنکار ہونے کی بنیاد پر امان اللہ داخلے پر سختی سے پابندی لگا رکھی تھی جو بعد میں اداکار محمد قوی خان نے اٹھائی . لہذا امان اللہ کی مقبولیت کی وجہ سے سٹیج پروڈیوسر شیراز ہال جیسے ایک عرصے سے بند پڑے ہال ڈھونڈنے لگے تھے .


ابھی 6،5 سال پہلے لاہور پریس کلب کی پرانی کنٹین پر ایک ہی میز پر دوپہر کا کھانا کھاتے ہوئے میں نے امان اللہ سے پہلی بات یہی پوچھی کہ "جیو" پر جو کامیڈی شو شروع ہونے جا رہا ہے ، اس کے لئے اس کا کتنا معاوضہ طے پایا ھے ، اس نے جو شرمناک رقم بتائی وہ خود اس پر بھی خوش تھا لیکن مجھے اس قدر قلیل معاوضہ سن کر صدمہ ہوا تھا . میں نے بلا تامل اس شو اینکر کا نام لے کر اسے کہا "یہ بہت گھٹیا اور کمینہ شخص ہے" تو امان اللہ اس کے دفاع کے انداز میں بولا "یہ کون ہے بھلا ، آپ اسے جانتے ہیں؟" جب میں نے اسے اس کے ماضی اور فیملی بیک گراؤنڈ سمیت اس کا پورا تعارف بتایا تو وہ لاجواب ہو کر خاموش ہوگیا۔اور پھر پوری دنیا نے دیکھا کہ "دنیا" ٹی وی پر اداکار سہیل احمد کے شو سے "فارغ" ہوجانے کے بعد اس کے مقابلے میں "جیو" پر نیا شو شروع کرنے والے اس خود پسند اینکر نے امان اللہ کو کس طرح ضائع کرنا شروع کیا۔ تھیٹر کی دنیا کے "کامیڈی کنگ" کو اس نئے ٹی وی شو میں پچھلی صفوں میں پر بٹھایا جاتا رہا جس سے ایک "سپورٹنگ" رول سے بھی کم کام لیا جاتا اور 50 منٹ کے شو میں بمشکل پانچ دس منٹ کے لئے اس کی "انٹری" کروائی جاتی۔


پھر ایک دن امان اللہ نے اس کا شو چھوڑ کر "دنیا" ٹی وی پر نیا شروع ہونے والا شو "مذاق رات" جوائن کرلیا کہ اسے ٹی وی سکرین پر واپس لانے والا یہ بونا اینکر اپنی ذات ہی کو اپنے پورے شو پر حاوی رکھنے کا "مریض" ہے ، لہذا امان اللہ جیسے انتہائی قدآور فنکار سے اس کا عدم تحفظ محسوس کرنا قابل فہم تھا- اس بدنصیب جاہل اینکر نے اپنے فن کے بےتاج بادشاہ کو ایک عرصے بعد ٹی وی سکرین پر واپس لا کر بھی ضائع کر دیا تھا ، اور یہ "ارسطو" اس بے مثل آرٹسٹ اور اس کے بے پناہ فن کو محض اپنی کم ظرفی کی وجہ سے "کیش" نہ کروا پایا .


امان اللہ کو بے پناہ بے ساختگی اور جگت کرنے میں وہی ملکہ حاصل تھا جو سینما جگت میں منور ظریف کو ودیعت ہوا تھا مگر وہ حلیم الطبع اتنا تھا کہ بقول سہیل احمد ایک بار لوگوں کو مسلسل ڈیڑھ گھنٹہ ہنسانے کے بعد سٹیج سے اترا تو سہیل احمد نے اسے کہا "اج تے ون مین شو کرکے کمال کردتا" تو اپنے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا "نہ او بھائی ،رب توں ڈر، خالد عباس ڈار توں سوا کوئی ون مین شو نئیں کر سکدا" جبکہ خالد عباس ڈار پرنم آنکھوں میں آنسو سمیٹے کہہ رہے تھے"کوئی اس کی جگہ نہیں لے سکتا، دوسرا امان اللہ پیدا نہیں ہوگا"


ملک کے بدترین فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء دور میں جب وہ صدر مملکت کے عہدہ پر بھی قابض ہوچکے تھے ، انہیں لاہور میں تھیٹر دکھانے کا پروگرام بنایا گیا تو لاہور کے ڈپٹی کمشنر سے لے کر کور کمانڈر تک ہفتہ بھر روزانہ الحمرا کا دورہ کرتے رہے جہاں سیکورٹی انتظامات سے لے کر سٹیج پلے کے سکرپٹ اور ریہرسل تک کا جائزہ لیا جاتا تھا۔ اس کھیل میں امان اللہ کی پرفارمنس ہی سارے منورنجن کا محور تھی، جس کے لئے لاہور کی پوری سول و ملٹری بیورو کریسی کھیل کے ایک ایک "ڈائیلاگ" پر نظر رکھے ہوئے تھی ، امان اللہ کی طرف سے بھی درجن بھر آئٹمز کو "شارٹ لسٹ" کر کے چند لطیفوں کا حتمی انتخاب کرلیا گیا تھا- جب امان اللہ کی "انٹری" ہوئی تو اس بےباک فنکار  نے آتے ہی جب اپنے پہلے آئٹم کا آغاز ہی ان جملوں سے کیا "فوجی پتنگ کیسے اڑاتے ہیں۔ " تو ڈی سی سے لے کر کور کمانڈر تک "صاحب" کی ممکنہ ناراضگی کے خوف سے سکتے میں آگئے لیکن اس آئٹم سے جنرل ضیاء اتنے محظوظ ہوئے کہ اپنی نشست سے کھڑے ہوکر امان اللہ کو گلے لگانے کے لئے دونوں بازو کھول دیئے.


صحافت کو خود علانیہ اپنا بزنس کہنے والے میر شکیل الرحمن نے چند برس قبل حامد میر کو خصوصی طور پر لاہور بھیجا جو شوبز صحافی اور "جنگ" گروپ کے سابق کارکن طاہر سرور میر کے ساتھ گوجرانوالہ میں اداکار سہیل احمد کے گھر جاکر ان سے ملے اور انہیں "دنیا" ٹی وی کا "حسب حال" چھوڑ کر "کہیں بہتر" معاوضے پر "جیو" میں آجانے کی "آفر" دی لیکن جو آخری وقت تک "کنگ آف کامیڈی" مانا جاتا رہا۔ اس کی نہ کسی میڈیا ہاؤس نے اس کی زندگی میں قدر کی اور اسے مناسب مقام اور اہمیت دی (جو آج اپنے ٹی وی چینلز پر اسے مزاح کی دنیا کا بےتاج بادشاہ کہتے ہوئے ماتم کناں ہیں) ، نہ کسی سٹیج پروڈیوسر نے اور نہ ہی اس بے حس سماج نے۔


لاہور کے" سٹیج ڈراموں" کے پوسٹرز پر کبھی جب صرف ایک ہی نام جلی حروف میں لکھا ہوتا تھا ، اسی کو عملاً فن کے تمام تاجروں نے حسب توفیق بے توقیر کیا اور اسے اپنی زندگی کی آخری اننگ "بارہویں کھلاڑی" کی طرح کھیلنے پر مجبور کئے رکھا جبکہ وہ پچھلے دنوں شدید بیمار ہو کر ہسپتال میں داخل رہنے کے بعد موت کے پنجے سے دامن چھڑا کر نکلا تو پھر سکرین پر پرفارم کرتا دکھائی دیا کہ اظہار فن ہی اس کی آکسیجن تھی۔


میں نے اپنی آنکھوں سے لاہور کے مضافات میں جی ٹی روڈ پر "امامیہ کالونی" والے ریلوے پھاٹک کے ساتھ آباد ایک خستہ حال پسماندہ کچی بستی کے ایک چھوٹے سے گھر سے بے مثل گلوکارہ ریشماں کا جنازہ اٹھتے دیکھا ہے جہاں آخری لمحوں میں حکمران جماعت "نوُن لیگ" کے مقامی ایم پی اے ملک ریاض اور صوبائی پارلیمانی سیکرٹری خواجہ عمران پہنچے تھے، نہ کوئی اور سیاست دان وہاں آیا، نہ کوئی فلم ساز، فلم ڈائریکٹر، کوئی موسیقار، میوزک ڈائریکٹر، کوئی گلوکار یا کوئی یوسف صلاح الدین جیسا کوئی "سوشل ورکر"۔


معاشرے نے یہی سلوک "کامیڈی کنگ" امان اللہ کے ساتھ کیا جس کی تدفین تک میں اس وجہ سے تاخیر ہوئی کہ پیراگون ہاؤسنگ سوسائٹی کی انتظامیہ اس لیجنڈ آرٹسٹ کو اپنے قبرستان میں دفنانے کی اجازت نہیں دے رہی تھی۔ پنجاب کے وزیر ثقافت فیاض الحسن چوہان کو دوڑ کر وہاں پہنچنا پڑا جنہوں نے انتظامیہ کے باریش "مسلمان" عہدے دار سے سخت بحث و تکرار کے بعد تدفین کی اجازت پر آمادہ کرنا پڑا۔