شاہد خاقان عباسی اور مسلم لیگ کی مبینہ ڈیل

شاہد خاقان عباسی اور مسلم لیگ کی مبینہ ڈیل

گزشتہ چند روز سے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی سیاسی طور پر خاصے سرگرم نظر آ رہے ہیں۔ نیب کی حراست سے باہر آنے کے بعد سے لے کر اب تک وہ متعدد ٹی وی انٹرویوز میں اپنے خیالات کا اظہار کر چکے ہیں اور جمعہ کو انہوں نے مسلم لیگ نواز کے ایک وفد کی قیادت کرتے ہوئے کراچی کا دورہ بھی کیا جہاں انہوں نے ایم کیو ایم اور فاروق ستار سے ملاقاتیں کرنے کے علاوہ دیگر سیاسی سرگرمیوں میں بھی وقت صرف کیا۔ اس موقع پر انہوں نے واضح طور پر کہا کہ وہ حکومت گرانے کی کوئی خواہش نہیں رکھتے کیونکہ اگر انہی حالات میں موجودہ حکومت گرا کر اپنی حکومت بنانے میں انہیں کوئی فائدہ نظر نہیں آتا۔
کاشف عباسی کے ساتھ انٹرویو میں واضح اشارے
تاہم، اے آر وائے پر کاشف عباسی کے ساتھ انٹرویو کے دوران انہوں نے اس حوالے سے سیر حاصل گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہیں حکومت گرانے میں دلچسپی اس لئے نہیں ہے کہ جب تک یہ طے نہیں ہو جاتا کہ ملک چلانا کس نے ہے، اور کھیل کے قوانین اور اصول کیا ہوں گے، تب تک حکومتیں بنانے اور گرانے سے ملک کو کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں کل چھ ادارے ہیں، جنہیں مل کر بیٹھنا ہوگا، اور یہ سمجھنا ہوگا کہ ملک نہیں چل رہا اور یہ ماڈل ناکام ہو چکا ہے، لہٰذا ہمیں ایک نئے ماڈل کی ضرورت ہے۔
مسلم لیگ نواز ایک بار پھر سول ملٹری تعلقات پر بولنے لگی
انہوں نے کھل کر تو نہیں کہا لیکن یقیناً ان کی مراد سول ملٹری تعلقات کی سے تھی۔ مسلم لیگ نواز کا روزِ اوّل سے ماننا ہے کہ موجودہ حکومت اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد سے ہی وجود میں آئی ہے ورنہ وجود میں نہیں آ سکتی تھی۔ انہوں نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اب یہ سمجھ آ جانی چاہیے کہ اس طرح ملک نہیں چلے گا اور ایک ڈائیلاگ کے بعد ملک کو چلانے کا ایک ایسا طریقہ اپنانا ہوگا جس میں سویلین بالادستی کے اصول پر سب متعلقہ سٹیک ہولڈرز متفق ہوں۔
نیب کو بند کرنا اولین مطالبہ
اس حوالے سے انہوں نے جو گذارشات سامنے رکھی ہیں، ان میں اولین نیب کے ادارے کو بند کرنا ہے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ یہ ادارہ سیاستدانوں کی وفاداریاں تبدیل کروانے کے لئے بنایا گیا تھا۔ اس کا عالمی سطح پر متفقہ اصول کہ بارِ ثبوت الزام لگانے والے پر ہوتا ہے سے انحراف اسے حکومتِ وقت کے ہاتھ میں حزبِ اختلاف کے خلاف انتقامی کارروائیوں کے لئے ایک ہتھیار کا درجہ دے دیتا ہے۔
ان ہاؤس تبدیلی کا حصہ نہیں بنیں گے
دوسری جانب وہ بار بار یہ دہرا رہے ہیں کہ وہ کسی قسم کی ان ہاؤس تبدیلی کا حصہ بننا نہیں چاہتے، کوئی قومی حکومت ان کا مطمع نظر نہیں۔ ایک پروگرام میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ حکومت کو اس وقت تک نہیں گرائیں گے جب تک کہ تمام ادارے ملک کو چلانے کے ایک نئے اصول پر آمادہ نہیں ہو جاتے اور اس کے لئے وہ انتخابات ہی چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلے سڑکوں پر نہیں ہونے چاہئیں، لیکن سڑکوں پر بھی کیے جا سکتے ہیں، بہتر یہی ہے کہ بند کمرے میں بیٹھ کر ایک اصول طے کر لیا جائے۔
شہباز شریف فارمولہ ناکام ہو چکا
شاہد خاقان عباسی کا یوں اچانک دوبارہ سے سرگرم ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ شہباز شریف کا بیانیہ ناکام ہو چکا ہے، اور ان کی ڈیل کی کوششیں بارآور ثابت نہیں ہو سکیں۔ پچھلے کئی ماہ سے لندن میں گزارنے کے بعد اب اس حوالے سے کوئی شک کی گنجائش باقی نہیں رہی کہ مارچ میں کوئیک مارچ اور اباؤٹ ٹرن جیسی صورتحال جس کا کہ کئی ماہ سے دعویٰ کیا جا رہا تھا کے پیدا ہونے کا کوئی امکان باقی نہیں رہا۔
مریم نواز کی پارٹی پر گرفت مضبوط ہونے لگی
مسلم لیگ نواز میں اب ایک خلا کی صورتحال ہے۔ پارٹی صدر شہباز شریف اور پارلیمانی لیڈر خواجہ آصف کی کئی ماہ کی خاموشی کی پالیسی کا کوئی پھل نہ نکلنے کے بعد پارٹی میں طاقت کا توازن ایک بار پھر مریم نواز کی طرف شفٹ ہو رہا ہے اور شاہد خاقان عباسی کا سامنے آ کر حکومت پر تابڑ توڑ حملے کرنے کی وجہ بھی یہی ہے۔ وہ اس وقت کھل کر کھیلنے کے نہ صرف موڈ میں ہیں بلکہ کئی ماہ تک نیب کی حراست میں رہنے کے باوجود کرپشن کا کوئی ثبوت سامنے نہ آنے کے بعد ذہنی طور پر بڑی لڑائی کے لئے بھی تیار ہیں۔
مسلم لیگ نواز ایک بار پھر اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کر کے اقتدار میں آئے گی؟
لیکن پارٹی پر مریم نواز کی گرفت مضبوط ہونے کے ملکی سیاست اور خصوصاً مسلم لیگ نواز کی سیاست پر کیا اثرات مرتب ہوں گے، یہ شاہد خاقان عباسی کے بیانیے سے صاف واضح ہے۔ وہ کسی ایسی ڈیل کے خواہاں نہیں جس میں حکومت کی تبدیلی ہی واحد ہدف ہو۔ وہ حکومت چلانے کے طریقے کی بات کر رہے ہیں، ان کی گفتار میں فوج یا اسٹیبلشمنٹ کا لفظ کہیں موجود نہیں لیکن وہ مسلسل پیغام انہی کو دے رہے ہیں، اور وہ پیغام یہی ہے کہ مسلم لیگ نواز مکمل اختیار کی یقین دہانی کے بغیر اقتدار کے کھیل کا حصہ بننے کو تیار نہیں ہوگی۔ وہ سڑکوں پر فی الحال نہ آ سکتے ہیں، اور نہ ہی آنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ وہ اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت ہی کے ذریعے کھیل کے اصول طے کرنا چاہتے ہیں، لیکن وہ سمجھتے ہیں مسلم لیگ نواز کے لئے اس مقصد کی خاطر مزید رعائتیں دینا سیاسی طور پر خودکشی کے مترادف ہوگا۔