• آن لائن اشتہاری ٹیرف
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • ہمارے لئے لکھیں
  • نیا دور انگریزی میں
بدھ, مارچ 29, 2023
نیا دور
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
نیا دور
No Result
View All Result

میں نے کل عورت مارچ میں کیا دیکھا

رضا ہاشمی by رضا ہاشمی
مارچ 9, 2020
in تجزیہ
6 0
0
میں نے کل عورت مارچ میں کیا دیکھا
36
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on Whatsapp

عورت مارچ شاید حالیہ تاریخ میں  پاکستان کا سب سے زیادہ زیر بحث رہنے والا موضوع ہے۔ اس حوالے سے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ پاکستان میں آپ عورت مارچ کی مخالفت کر سکتے ہیں یا حمایت مگر اسے نظر انداز نہیں کر سکتے۔ ایک طرف حمایتیوں کی صف بندی تو دوسری جانب کٹر مخالفین۔ جنہیں عورت مارچ کے تحت ہونے والی ہر سر گرمی اور اس سے جڑی ہر شخصیت سے نفرت ہے جس کا اظہار کرنے سے وہ قطعاً پیچھے نہیں رہتے۔ بہر حال میں بھی گذشتہ روز تاریخی عورت مارچ میں شامل ہونے اور اس تاریخی سرگرمی کا مشاہدہ کرنے کی ٹھانی۔

چائنہ چوک کے راستے مال روڈ پر پہنچا تو معلوم ہوا کہ احتجاج کے مقام کو جانے والے مال روڈ سے ملحقہ راستے مکمل طور پر کنٹینر رکھ کر بند کر دیئے گئے ہیں۔ پولیس کی بھاری نفری یہاں تعینات تھی۔ الحمرا میں سرکار کی زیر پرستی خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے”مینابازارٹائپ”تقریب جاری تھی جس تک آنے جانے کی کھلی اجازت تھی۔ پولیس سے پارکنگ کی جگہ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ جب ان سے استفسار کیا کہ آیا پیدل یہاں سے (ایجرٹن روڈ)  مارچ پر جانے کی اجازت ہوگی؟ جس پر وہاں موجود ہر پولیس ایلکار سے اثبات میں سر ہلایا۔ بہر حال الحمرا کی پارکنگ میں ہی ایک جگہ پر گاڑی”اڑائی”اور واپس آکر جب پارکنگ سے ملحقہ اسی اینٹری پوائنٹ پر واپس لوٹا تو پولیس اہلکار جنہوں نے کچھ دیر قبل وہاں سے پیدل گزرنے کے حوالے سے  اجازت دی تھی پوچھنے لگے ، کہ کہاں جائیں گے ؟ جواباً کہا کہ عورت مارچ ، سوال آیا کہ کوریج کرنی ہے؟ عرض کیا کہ نہیں،شرکت کروں گا۔  ساتھ ہی مجھے وہاں سے جانے کا کہہ دیا گیا۔ بحث کو فضول گردانتے ہوئے میں نے پیدل ہی گورنر ہاوس کے عقب سے ڈیویس روڈ سے ہوتے ہوئے پریس کلب کے مقام پر سے اندر جانے کی ٹھانی۔

RelatedPosts

صنعتی انقلاب نے برطانیہ میں خواتین کے بنیادی حقوق کی راہ ہموار کی

‘بنت حوا پنجرے میں’ پابند سلاسل رہنے والی خواتین کیسی زندگی گزارتی ہیں؟

Load More

 2 سے 3 کلومیٹر کے اس راستے میں کئی مرد و خواتین پلے کارڈز اٹھائے  مارچ میں شمولیت کے لئے رواں دواں تھے۔  ایک فیملی کے قریب سے گزرا تو میں نے 14،15 سال کی  بیٹی اور اسکی ماں ک سوشل کنسٹرکشن آف جینڈر پر بحثتے ہوئے سنا۔ آگے نکلا تو ایک نوجوان جوڑا شرعی حقوق اور مارچ کے مطالبات میں مطابقت پر مصروف بحث تھے۔ گرمی کی شدت میں اضافہ ہو رہا تھا ساتھ ہی سگریٹ کی طلب بھی تھی۔ ڈیویس روڈ مکمل طور پر بلاک تھی ۔ دور دور تک گاڑیاں ہی گاڑیاں تھیں۔ جنگ کے دفتر کے پاس پرانی پان شاپ سے سگریٹ اور کولڈ ڈرنک لینے رکا۔ اتنے میں وہاں کھڑے دو مزدور سگریٹ کے کش لگاتے ہوئے عورت مارچ پر ہی تبصرہ کرتے سنائی دیئے۔ دونوں میں ادھیڑ عمر مذاق کرتے ہوئے کہنے لگا ” بیبیاں شڑکاں تے نکل آئیاں نے۔ سب پھڑے جان گے، سب پھڑے جان گے” جوابا بھاری سی گالی نے بحث کو جیتنے یا کم از کم ختم کرنے کی کوشش کی۔ 

میں آگے بڑھا۔ مارچ کے وقت کو آدھا وقت گزر چکا تھا اور اکا دکا فیمیلز واپس بھی آرہی تھیں، چھوٹی بچیوں کو میں نے بے حد پرجوش دیکھا۔ انکے چہروں پر اک چمک تھی جو انکی معصومیت اور خوبصورتی میں مزید اضافہ کئے ہوئے تھی۔ اچھی بات یہ تھی کہ انکے ساتھ انکے بھائی بھی اتنے ہی خوش اور پر جوش تھے۔

مارچ میں پہنچا تو اکثر میڈیا نمائندے مارچ سے دور بیٹھے مارچ کے ہر نعرے میں سے قابل اعتراض زاویئوں کو اکھٹا کرنے میں مصروف تھے۔ ایک معروف میڈیا ہاوس کے نمائندے جو کہ میرے ساتھ کام کر چکے ہیں مجھے دیکھ کر فرمانے لگے ، یار وہ میرا سٹیٹس نہ دیکھنا!میں نے کہا کیوں ؟ کہنے لگے وہ اس سب اسکے خلاف ہے تم پر گراں گزرے گا” میں نے ہنس کر جواب دیا کہ حضور کوئی رپورٹنگ کی ہے یا پھر بس اپنی نفرت کا ہی اظہار کیا ہے؟ وہ اس پر مصر رہے کہ انکی رپورٹنگ اور رائے الگ ہے۔ اتنے میں ایک دوست خاتون صحافی سےملاقات ہوئی۔ پوچھنے لگیں تمہاری اس سب کے بارے میں کیا رائے ہے ؟ میں نے کہا کس کے بارے میں ۔ جھنجھلا کر کہنے لگیں یہی عورت مارچ ۔ میں نے کہا کہ ہونا چاہئے مکمل حمایت ہے اس کے ساتھ ۔ کہنے لگیں لیکن میرا جسم میری مرضی؟ میں نے جھٹ کہا تو کیا آپ کے جسم پر میری مرضی چلے گی؟ وہ بے دھڑک اور کڑک انداز میں بولیں نہیں! میں نے کہا پھر کس کی؟ کہنے لگیں میری! انہیں عرض کی کہ وہ نعرہ آپکے اسی قول و فعل کا مظہر ہے۔

ابھی بات جاری تھی کہ سٹیج پر ڈاکٹر عالیہ حیدر کا خطاب شروع ہوا۔ انہوں نے جب جبری گمشدہ کردی جانے والی خواتین پر بات شروع کی تو وہاں موجود مارچ کے مخالفین بھی ان سے متفق تھے۔ ابھی تقریر جاری تھی کہ عقب سے کسی نے پکارا مڑ کر دیکھا تو یونیورسٹی کے دو جونئیرز تھے جن سے 5 سال بعد ملاقات ہو رہی تھی۔ مجھ سے مارچ میں آنے کی وجہ دریافت کی تو عرض کی کہ حضور خواتین کے حق میں انکے ساتھ ہیں اس لئے۔ کہنے لگے ہم اس لئے آئے کہ ایک دوست سے بحث ہوئی تھی۔  اس وقت تو ہم مارچ کے مخالف جواب نہیں دے سکے تاہم اب دیکھنے آئے ہیں کہ اصل میں مارچ میں ہوتا کیاہے۔

کئی اور دوستوں سے ملاقات کے دوران ہی  زبرد ست پرفارمنسز دیکھیں۔ اور پھر فیض کی لازوال نظم “ہم دیکھیں گے” پڑھی گئی۔ مارچ میں شریک ہر عور اور مرد اس نظم کے ساتھ یوں جڑا کہ ہر طرف سے ہم دیکھیں گے کی گونج سنائی دینے لگی،  ناقابل بیان تجرنے کے ساتھ ہی  مارچ اختتام پذیر ہوا۔

دن ڈھل رہا تھا اور شرکا پنڈال سے واپس نکل رہے تھے۔ لیکن یہ سب اختتام پذیر نہیں ہوا تھا۔ وہاں سے نکلنے والے ہر فرد کا موضوع بحث صنفی تفریق تھا۔  خاص کر نواجوان نسل، جو کسی گروپ میں تو عورت مارچ کے انعقاد اور اس میں ہونے والی سرگرمیوں کو ریٹ کر رہے تھے تو دوسری جانب وہ صنف کے معاشرتی پہلووں پر بات کر رہے تھے جبکہ دیگر مارچ کے ساتھ نچلے طبقات کی ہم آہنگی اور تعلق پر اظہار خیال کر رہے تھے۔

واپسی پر جیل روڈ کے پٹرول پمپ پر پٹرول بھروانےرکا تو میری گاڑی کے برابر آکر گاڑی سے پیچھے کھڑے رکشے کا ڈرائیور اور پمپ کا کیشئیر بھی معاشی پہلو سے “مائیاں دے احتجاج” یعنی عورت مارچ پر بات کرنے میں مصروف دیکھے۔ رکشے والے کا اصرار تھا کہ پیٹرول جلدی ڈال دیا جائے  کیونکہ “مائیاں دا مارچ مک گیا اے تے سواریاں لینیاں نے”۔ اور اسکے بعد ایک بے زار سا تبصرہ تھا۔ اتوار کے روز لاہور کی سڑکوں سے بہتر اور پرسکون وقت گزاری کہیں اور نہیں ہوسکتی۔ پیٹرول پمپ سے نکل کر جب نہر پر آیا تو یہی سوچ رہا تھا کہ عورت مارچ کے مخالفین نے جو بن پڑا کر لیا۔ مگر عورت مارچ اور عورتوں کے حقوق کی بحث ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کو اپنی لپیٹ میں لیئے ہوئے۔ اور جب معاشرے میں اتنے بڑے پیمانے پر کسی معاملے پر بحث شروع ہوجائے تو اس معاشرے میں  بڑھوتی، نکھار اور ترقی لازم ہوجاتی ہے۔ 

Tags: پاکستان میں عورت مارچحقوقخواتینعورت مارچ
Previous Post

جی میں سلیم مسیح! وہی جس کے بیہمانہ قتل کی خبر چند انگریزی اخبارات کی زینت بنی

Next Post

عورت مارچ، حقوق کی جنگ کی تاریخ، اور ’باوضو ہو کر‘ ڈائیلاگ چرانے والا لکھاری

رضا ہاشمی

رضا ہاشمی

مصنف نیا دور سٹاف کا حصہ ہیں۔

Related Posts

ہئیت مقتدرہ ‘پروجیکٹ 1985’ کے ذریعے اب کپتان کا راستہ روک رہی ہے

ہئیت مقتدرہ ‘پروجیکٹ 1985’ کے ذریعے اب کپتان کا راستہ روک رہی ہے

by حسنین جمیل
مارچ 28, 2023
0

جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء زوروں پر پہنچ چکا تھا۔ سماج میں جنرل ضیاء الحق کے خلاف نفرت عروج پر تھی...

طاقت کے عالمی سنگھاسن پہ پھر سے کمیونسٹ بلاک براجمان ہو رہا ہے؟

طاقت کے عالمی سنگھاسن پہ پھر سے کمیونسٹ بلاک براجمان ہو رہا ہے؟

by یوسف بلوچ
مارچ 27, 2023
0

ایک بات تو ہمیں برسوں کی طرح اس بار بھی پلے باندھ لینی چاہئیے کہ بین الاقوامی طور پر دو ممالک کی...

Load More
Next Post
عورت مارچ، حقوق کی جنگ کی تاریخ، اور ’باوضو ہو کر‘ ڈائیلاگ چرانے والا لکھاری

عورت مارچ، حقوق کی جنگ کی تاریخ، اور ’باوضو ہو کر‘ ڈائیلاگ چرانے والا لکھاری

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

No Result
View All Result

ایڈیٹر کی پسند

ہائبرڈ دور میں صحافت پر حملے؛ ذمہ دار عمران خان یا جنرل باجوہ؟ (پارٹ 1)

ہائبرڈ دور میں صحافت پر حملے؛ ذمہ دار عمران خان یا جنرل باجوہ؟ (پارٹ 1)

by شاہد میتلا
مارچ 22, 2023
1

...

معاشی لحاظ سے پاکستان کس طرح خود انحصاری حاصل کر سکتا ہے؟

معاشی لحاظ سے پاکستان کس طرح خود انحصاری حاصل کر سکتا ہے؟

by ہارون خواجہ
مارچ 18, 2023
1

...

عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین جاری کھیل آخری مرحلے میں داخل ہو چکا؟

عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین جاری کھیل آخری مرحلے میں داخل ہو چکا؟

by رضا رومی
مارچ 20, 2023
0

...

توشہ خانہ فہرست شریف خاندان میں دراڑ نہیں، شاہد خاقان کی علیحدگی کا اعلان ہے

توشہ خانہ فہرست شریف خاندان میں دراڑ نہیں، شاہد خاقان کی علیحدگی کا اعلان ہے

by مزمل سہروردی
مارچ 15, 2023
1

...

جنرل فیض حمید

نواز شریف کو نکالنے کے ‘پروجیکٹ’ میں باجوہ اور فیض کے علاوہ بھی جرنیل شامل تھے، اسد طور نے نام بتا دیے

by نیا دور
مارچ 14, 2023
0

...

Newsletter

ہماری مدد کریں

ٹویٹس - NayaDaur Urdu

نیا دور کے صفِ اوّل کے مصنفین

پیٹر جیکب
پیٹر جیکب
View Posts →
حسن مجتبیٰ
حسن مجتبیٰ
View Posts →
عرفان صدیقی
عرفان صدیقی
View Posts →
نجم سیٹھی
نجم سیٹھی
View Posts →
نبیلہ فیروز
نبیلہ فیروز
View Posts →
محمد شہزاد
محمد شہزاد
View Posts →
توصیف احمد خان
توصیف احمد خان
View Posts →
رفعت اللہ اورکزئی
رفعت اللہ اورکزئی
View Posts →
فوزیہ یزدانی
فوزیہ یزدانی
View Posts →
حسنین جمیل
حسنین جمیل
View Posts →
مرتضیٰ سولنگی
مرتضیٰ سولنگی
View Posts →
اسد علی طور
اسد علی طور
View Posts →
ادریس بابر
ادریس بابر
View Posts →
رضا رومی
رضا رومی
View Posts →
علی وارثی
علی وارثی
View Posts →

This message is only visible to admins.
Problem displaying Facebook posts.
Click to show error
Error: Server configuration issue

خبریں، تازہ خبریں

  • All
  • انٹرٹینمنٹ
  • سیاست
  • ثقافت
کم از کم اجرت 20 ہزار، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ: بجٹ 2021 پیش کر دیا گیا

اقتدار کے ایوانوں سے جلد کسی ‘بڑی چھٹی’ کا امکان ہے؟

اکتوبر 31, 2021
ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

اکتوبر 27, 2021
بد ترین کارکردگی پر الیکشن نہیں جیتا جاسکتا، صرف ای وی ایم کے ذریعے جیتا جاسکتا ہے

ای وی ایم اور انتخابات: ‘خان صاحب سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ لینے کے لیئے بے تاب ہیں’

اکتوبر 24, 2021

Naya Daur © All Rights Reserved

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English

Naya Daur © All Rights Reserved

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In