عورتوں کی معاشرے میں حیثیت دیکھنی ہے تو قبرستان جاؤ اور کتبے پڑھ لو

عورتوں کی معاشرے میں حیثیت دیکھنی ہے تو قبرستان جاؤ اور کتبے پڑھ لو
ڈاکٹر پرویز ہودبھائی کا یہ کالم ڈان اخبار میں ہفتہ 14 مارچ کو انگریزی زبان میں شائع ہوا جسے نیا دور اردو کے قارئین کے لئے علی وارثی نے ترجمہ کیا ہے۔




میرے محلے کے طاقتور لاؤڈ سپیکر سے ابھی ابھی ایک صاحب کی وفات کا اعلان کیا گیا ہے۔ ان اعلانات کا ابتدائیہ کبھی تبدیل نہیں ہوتا: ’حضرات، ایک ضروری اعلان سنیے‘۔ یہ لفظ ’حضرات‘ مجھے کبھی حیران نہیں کرتا کیونکہ میں ایسے اعلانات بچپن سے سنتا آ رہا ہوں۔ یہ ہمیشہ مردوں، اور صرف مردوں، کا ہی استحقاق سمجھا جاتا ہے کہ ان کو کسی بھی معاملے کی اطلاع دی جائے۔ ’حیا‘ اور ’شرم‘ کو ملحوظ رکھتے ہوئے کبھی بھی خواتین کو براہِ راست مخاطب نہیں کیا جاتا۔

اس کے بعد کا اعلان ایک ہی طرز پر گذشتہ کئی دہائیوں سے سن رہا ہوں۔ اگر مرنے والا کوئی مرد ہو تو اس کا نام پتہ چل جاتا ہے۔ لیکن اس مرتبہ یہ ایک خاتون تھی اور ’حیا‘ کا تقاضہ ہے کہ اس کا نام نہ لیا جائے۔ ظاہر ہے، اعلان کے بقیہ حصے میں اسے کسی مرد کی بیوی کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ اگر عورت شادی شدہ نہ ہو، تو بھی کوئی زیادہ فرق نہیں پڑتا کیونکہ پھر اس کا نام اس کے باپ یا بھائی کے نام کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے۔ مائیں اور بہنیں کسی کھاتے میں نہیں۔

معاشرے میں عورتوں کا کیا مقام ہے، یہ جاننے کے لئے آپ کسی قبرستان چلے جائیں۔ آپ سینکڑوں، بلکہ ہزاروں ایسی کہانیاں دیکھیں گے جو اب خاموش ہو چکی ہیں۔ ان خاموش فضاؤں میں، ہر قبر پر ایک کتبہ لگا دکھائی دے گا جو کسی شخص کی شناخت کا ذریعہ ہوگا۔ ان کتبوں پر لکھی تحاریر میں ان لوگوں کی زندگی کی مختصر داستانیں پڑھی جا سکتی ہیں۔

زمین کے چھ فٹ نیچے بھی مردوں کے نام وہی رہتے ہیں جن ناموں سے وہ زندگی میں پکارے جاتے تھے۔ ان مردوں کی شناخت حقیقی معنوں میں پتھر پر لکیر بن چکی جاتی ہے، ایک ایسے پتھر پر جسے کوئی ہلا نہیں سکتا۔ کبھی کبھار باپ کا نام بھی ہوتا ہے لیکن کبھی بھی ماں کا نام نہیں لکھا جاتا۔



اور خواتین؟ کچھ کتبوں پر ان کے نام ہوتے ہیں لیکن زیادہ تر پر نہیں ہوتے۔ ایک عورت کی زندگی کا سفر ختم ہونے پر اس کا کوئی نام و نشان رہے گا یا نہیں، یہ فیصلہ اس کا اپنا نہیں ہوتا۔ اس کا نام لکھ بھی دیا جائے تو اس کے ساتھ اس کے شوہر یا والد کی شناخت لازمی لکھی جاتی ہے۔

تمام خواتین اپنے بچھڑے ہوئے طبقے سے تعلق رکھنے یا اپنے جسم پر کوئی حق نہ ہونے پر نالاں نہیں ہیں۔ الٹا، بہت سی تو اسے سماج کے بنائے ہوئے رواجوں کے طور پر یا پھر بخوشی قبول بھی کر لیتی ہیں۔ لیکن کچھ، جیسے کہ لال مسجد کی ڈنڈا بردار ’باحیا‘ طالبات ہیں، معاشرے میں اپنی کم تر حیثیت پر باقاعدہ نازاں ہیں۔

گذشتہ اتوار عورت مارچ کے دوران، ہم اسلام آباد پریس کلب کی دوسری جانب کھڑے تھے، جہاں سے میں ان کی تقاریر بغور سن رہا تھا۔ ان کے مطابق مردوں اور عورتوں کی ذمہ داریاں مکمل طور پر مختلف ہیں اور ان میں کسی طرح بھی کوئی قدرِ مشترک نہیں۔ انہوں نے معاشرے کے اہم ترین معاملات میں اپنے کمتر درجے کو دل سے قبول کرتے ہوئے تمام آزادیوں کو تیاگ دیا ہے۔ خواہ وہ نقل و حمل کی آزادی ہو، لباس پہننے کی آزادی ہو، اپنا شریکِ حیات چننے کی آزادی ہو یا کوئی پیشہ اختیار کرنے کی۔

یہ پابندیاں معاشرے کے ہر طبقے میں آپ کو اپنی طرف گھورتی دکھائی دیں گی لیکن خاص طور پر غریب طبقے میں یہ بدرجہ اتم موجود ہیں۔ پاکستان کی زیادہ تر خواتین اپنی مرضی سے اپنا شریکِ حیات نہیں چن سکتیں، انہیں والدین کی جانب سے کسی کو دے دیا جاتا ہے۔ طلاق اور بچے کی تحویل بڑی حد تک مرد حضرات کے حق میں رہتی ہے۔ شادی کے بعد rape کو جرم ہی نہیں سمجھا جاتا۔ وراثت کے قوانین خواتین کے بالکل خلاف جاتے ہیں۔ یہی معاملہ ملازمت کے مواقع کے سلسلے میں ہے۔ تاہم، حیا برگیڈ اور اس کے ہمنواؤں کے نزدیک عورت کی آزادی کو سلب کرنا نہ صرف قدرتی ہے بلکہ حکمِ الٰہی ہے، جس کی پابندی لازمی ہے۔

وہ لوگ جو آزادیوں کو مقدم جانتے ہیں، حیا برگیڈ کے خیالات کو ناقابلِ قبول سمجھتے ہیں، لیکن یہ بہرحال منطقی ہیں۔ ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں جہاں افراد نے اپنی شخصی آزادیوں کو بخوشی جان و مال کے تحفظ کے بدلے میں تیاگ دیا ہے۔ خاص طور پر، جیلوں سے آزاد کیے گئے قیدی کئی بار یہ درخواست کرتے ہیں کہ انہیں واپس جیل میں بھیج دیا جائے۔ ایک اور مثال سیاہ فام غلاموں کی بھی ہے کہ جب امریکہ میں غلامی کو غیر قانونی قرار دیا گیا، تو ان میں سے بہت سوں نے اپنے گورے مالکان سے درخواست کی کہ انہیں انہی جگہوں پر رہنے دیا جائے۔ لہٰذا، اگر جیلر یا غلاموں کے مالک انہیں حفاظت فراہم کر سکتے ہیں تو پھر یہاں کیا مسئلہ ہے؟ مزید واضح انداز میں بات کی جائے تو جب ایک عورت پدر شاہی معاشرے کی دی گئی کمتر آزادیوں کو اپنے اور اپنی اولاد کے تحفظ کے لئے تیاگ دینے پر تیار ہے، تو مسئلہ کیا ہے؟



یوال نوح ہراری اپنی کتاب Sapiens میں سوال اٹھاتے ہیں کہ آخر پدرشاہی نے ہر طرح کے سیاسی طوفانوں، انقلابوں اور معاشی تبدیلیوں کا سامنا کیسے کر لیا؟ آخر گذشتہ ہزاروں سال میں alpha خواتین جیسے قلوپطرہ، اندرا گاندھی یا گولڈا میئر اتنی کم تعداد میں کیوں ہیں؟ کیا اس کی وجہ جسمانی کمزوری ہے، مردوں جیسے جارحانہ genes کی کمی ہے، یا سماجی رابطوں کی صلاحیتوں کا فقدان؟ اس پر تفصیلی بحث کے بعد ہراری اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ، ہمیں نہیں پتہ۔

لیکن رکیے! ہمیں ایک انتہائی اہم حقیقت کا ادراک ہے، اور وہ یہ ہے کہ جدیدیت پدرشاہی کے قدم اکھاڑ چکی ہے۔ قدیم قوانین آہستہ آہستہ غیر متعلق ہوتے جا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر، Book of Deutronomy مسیحیوں کو تاکید کرتی ہے کہ اگر جنگی قیدیوں میں کوئی خوبصورت خاتون ملے تو ’اگر تم اسے چاہتے ہو تو اسے لے سکتے ہو‘۔ اس اجازت کے باوجود، آج کے دور میں کٹر یہودی اور مسیحی بھی جنسی غلامی کو ناقابلِ برداشت حد تک ناپسند کرتے ہیں۔ بلکہ صنفی برابری تو مغرب کا نیا منترا ہے۔ اداروں کے سربراہ اور صدور بھی صنفی امتیاز برتنے کے الزامات سے ڈرتے ہیں۔

مسلم ممالک بھی تیزی سے ان خیالات کو اپنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ باوجود اس کے کہ کچھ لوگ ہیں جو صنفی برابری کو ایک مغربی تصور خیال کرتے ہیں، ایسی خواتین کی تعداد بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے جو اپنے گھروں سے باہر نکل کر کاروبارِ زندگی میں حصہ لے رہی ہیں۔ طالبان جیسی قوتوں کی بھرپور مزاحمت کے باوجود، افغانستان اور پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم تیزی سے پھیل رہی ہے۔ اگرچہ پاکستانی حکومت مذہبی اقدار کو مدِ نظر رکھنے کا عہد کرتی ہے، یہ اس وقت تک خاتون کو پاسپورٹ جاری نہیں کرتی جب تک کہ وہ اپنا برقعہ ہٹانے پر راضی نہ ہو جائے۔ اسی طرح، گو کہ انہیں قبرستان میں جانے کی اجازت عمومی طور پر نہیں ہوتی، آپ کو آئے روز قبروں پر بھی خواتین اپنے پیاروں کے لئے روتی نظر آتی ہیں۔

پدرشاہی کی تمام قوتیں اپنی پرانے زمانے کی فرسودہ بندوق سے ایک جنگی ٹینک کو روکنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اس کوشش میں وہ ناکام ہیں، اور اسی لئے غصے سے لال پیلے ہو رہے ہیں۔ لیکن ٹیکنالوجی انہیں ان کی پوزیشن سے پیچھے دھکیل رہی ہے۔ ذرا ان بھاری بھرکم عالموں کو دیکھیے جو 20 سال قبل انسان کی تصویر کھینچنے کو بت تراشنے کے برابر تصور کرتے تھے۔ آج وہ ٹی وی پر آنے کے لئے ایک دوسرے سے لڑتے ہیں اور خوشی خوشی سمارٹ فونز کے آگے سیلفیوں کے لئے پوز کرتے ہیں۔

جیسے جیسے پرانا نظام تباہ ہو رہا ہے اور روایتی دلائل کا بے تکا پن واضح ہو رہا ہے، عورت دشمن گالیوں اور دشنام ترازی کو ہی عورت کے خلاف اپنا واحد ہتھیار سمجھنے لگا ہے۔ حال ہی میں آپ نے مصنف خلیل الرحمان قمر کا ماروی سرمد پر بدتہذیب ذاتی حملہ تو دیکھا ہی ہوگا۔ اور ’میرا جسم میری مرضی‘ کے نعرے کے خلاف کیسی کیسی بیہودہ باتیں کی گئیں کہ عورتیں صرف اپنے جسم کو جنسِ بازار بنانے کی آزادی کا مطالبہ کر رہی ہیں۔

خواہ قبرستان ہو یا جیتے جاگتے انسانوں کی یہ دنیا، یہ لوگ جو خدا کی منشا جاننے کا دعویٰ رکھتے ہیں، پاکستانی عورت کو احترام اور برابری دینے کو تیار نہیں۔ ان خواتین کے لئے انصاف کے حصول کی جدوجہد بہت طویل ہوگی، دیگر ممالک کے مقابلے میں خاصی طویل۔ لیکن وقت اب عورت کے ساتھ ہے۔ ہم مردوں کو ان کے شانہ بشانہ چلنا ہوگا۔