• آن لائن اشتہاری ٹیرف
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • ہمارے لئے لکھیں
  • نیا دور انگریزی میں
پیر, فروری 6, 2023
نیا دور
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
نیا دور
No Result
View All Result

عورتوں کی معاشرے میں حیثیت دیکھنی ہے تو قبرستان جاؤ اور کتبے پڑھ لو

نیا دور by نیا دور
مارچ 14, 2020
in انسانی حقوق, تجزیہ, حقوقِ نسواں, خواتین, عورت مارچ
7 1
0
عورتوں کی معاشرے میں حیثیت دیکھنی ہے تو قبرستان جاؤ اور کتبے پڑھ لو
42
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on Whatsapp

ڈاکٹر پرویز ہودبھائی کا یہ کالم ڈان اخبار میں ہفتہ 14 مارچ کو انگریزی زبان میں شائع ہوا جسے نیا دور اردو کے قارئین کے لئے علی وارثی نے ترجمہ کیا ہے۔


میرے محلے کے طاقتور لاؤڈ سپیکر سے ابھی ابھی ایک صاحب کی وفات کا اعلان کیا گیا ہے۔ ان اعلانات کا ابتدائیہ کبھی تبدیل نہیں ہوتا: ’حضرات، ایک ضروری اعلان سنیے‘۔ یہ لفظ ’حضرات‘ مجھے کبھی حیران نہیں کرتا کیونکہ میں ایسے اعلانات بچپن سے سنتا آ رہا ہوں۔ یہ ہمیشہ مردوں، اور صرف مردوں، کا ہی استحقاق سمجھا جاتا ہے کہ ان کو کسی بھی معاملے کی اطلاع دی جائے۔ ’حیا‘ اور ’شرم‘ کو ملحوظ رکھتے ہوئے کبھی بھی خواتین کو براہِ راست مخاطب نہیں کیا جاتا۔

RelatedPosts

No Content Available
Load More

اس کے بعد کا اعلان ایک ہی طرز پر گذشتہ کئی دہائیوں سے سن رہا ہوں۔ اگر مرنے والا کوئی مرد ہو تو اس کا نام پتہ چل جاتا ہے۔ لیکن اس مرتبہ یہ ایک خاتون تھی اور ’حیا‘ کا تقاضہ ہے کہ اس کا نام نہ لیا جائے۔ ظاہر ہے، اعلان کے بقیہ حصے میں اسے کسی مرد کی بیوی کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ اگر عورت شادی شدہ نہ ہو، تو بھی کوئی زیادہ فرق نہیں پڑتا کیونکہ پھر اس کا نام اس کے باپ یا بھائی کے نام کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے۔ مائیں اور بہنیں کسی کھاتے میں نہیں۔

معاشرے میں عورتوں کا کیا مقام ہے، یہ جاننے کے لئے آپ کسی قبرستان چلے جائیں۔ آپ سینکڑوں، بلکہ ہزاروں ایسی کہانیاں دیکھیں گے جو اب خاموش ہو چکی ہیں۔ ان خاموش فضاؤں میں، ہر قبر پر ایک کتبہ لگا دکھائی دے گا جو کسی شخص کی شناخت کا ذریعہ ہوگا۔ ان کتبوں پر لکھی تحاریر میں ان لوگوں کی زندگی کی مختصر داستانیں پڑھی جا سکتی ہیں۔

زمین کے چھ فٹ نیچے بھی مردوں کے نام وہی رہتے ہیں جن ناموں سے وہ زندگی میں پکارے جاتے تھے۔ ان مردوں کی شناخت حقیقی معنوں میں پتھر پر لکیر بن چکی جاتی ہے، ایک ایسے پتھر پر جسے کوئی ہلا نہیں سکتا۔ کبھی کبھار باپ کا نام بھی ہوتا ہے لیکن کبھی بھی ماں کا نام نہیں لکھا جاتا۔

اور خواتین؟ کچھ کتبوں پر ان کے نام ہوتے ہیں لیکن زیادہ تر پر نہیں ہوتے۔ ایک عورت کی زندگی کا سفر ختم ہونے پر اس کا کوئی نام و نشان رہے گا یا نہیں، یہ فیصلہ اس کا اپنا نہیں ہوتا۔ اس کا نام لکھ بھی دیا جائے تو اس کے ساتھ اس کے شوہر یا والد کی شناخت لازمی لکھی جاتی ہے۔

تمام خواتین اپنے بچھڑے ہوئے طبقے سے تعلق رکھنے یا اپنے جسم پر کوئی حق نہ ہونے پر نالاں نہیں ہیں۔ الٹا، بہت سی تو اسے سماج کے بنائے ہوئے رواجوں کے طور پر یا پھر بخوشی قبول بھی کر لیتی ہیں۔ لیکن کچھ، جیسے کہ لال مسجد کی ڈنڈا بردار ’باحیا‘ طالبات ہیں، معاشرے میں اپنی کم تر حیثیت پر باقاعدہ نازاں ہیں۔

گذشتہ اتوار عورت مارچ کے دوران، ہم اسلام آباد پریس کلب کی دوسری جانب کھڑے تھے، جہاں سے میں ان کی تقاریر بغور سن رہا تھا۔ ان کے مطابق مردوں اور عورتوں کی ذمہ داریاں مکمل طور پر مختلف ہیں اور ان میں کسی طرح بھی کوئی قدرِ مشترک نہیں۔ انہوں نے معاشرے کے اہم ترین معاملات میں اپنے کمتر درجے کو دل سے قبول کرتے ہوئے تمام آزادیوں کو تیاگ دیا ہے۔ خواہ وہ نقل و حمل کی آزادی ہو، لباس پہننے کی آزادی ہو، اپنا شریکِ حیات چننے کی آزادی ہو یا کوئی پیشہ اختیار کرنے کی۔

یہ پابندیاں معاشرے کے ہر طبقے میں آپ کو اپنی طرف گھورتی دکھائی دیں گی لیکن خاص طور پر غریب طبقے میں یہ بدرجہ اتم موجود ہیں۔ پاکستان کی زیادہ تر خواتین اپنی مرضی سے اپنا شریکِ حیات نہیں چن سکتیں، انہیں والدین کی جانب سے کسی کو دے دیا جاتا ہے۔ طلاق اور بچے کی تحویل بڑی حد تک مرد حضرات کے حق میں رہتی ہے۔ شادی کے بعد rape کو جرم ہی نہیں سمجھا جاتا۔ وراثت کے قوانین خواتین کے بالکل خلاف جاتے ہیں۔ یہی معاملہ ملازمت کے مواقع کے سلسلے میں ہے۔ تاہم، حیا برگیڈ اور اس کے ہمنواؤں کے نزدیک عورت کی آزادی کو سلب کرنا نہ صرف قدرتی ہے بلکہ حکمِ الٰہی ہے، جس کی پابندی لازمی ہے۔

وہ لوگ جو آزادیوں کو مقدم جانتے ہیں، حیا برگیڈ کے خیالات کو ناقابلِ قبول سمجھتے ہیں، لیکن یہ بہرحال منطقی ہیں۔ ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں جہاں افراد نے اپنی شخصی آزادیوں کو بخوشی جان و مال کے تحفظ کے بدلے میں تیاگ دیا ہے۔ خاص طور پر، جیلوں سے آزاد کیے گئے قیدی کئی بار یہ درخواست کرتے ہیں کہ انہیں واپس جیل میں بھیج دیا جائے۔ ایک اور مثال سیاہ فام غلاموں کی بھی ہے کہ جب امریکہ میں غلامی کو غیر قانونی قرار دیا گیا، تو ان میں سے بہت سوں نے اپنے گورے مالکان سے درخواست کی کہ انہیں انہی جگہوں پر رہنے دیا جائے۔ لہٰذا، اگر جیلر یا غلاموں کے مالک انہیں حفاظت فراہم کر سکتے ہیں تو پھر یہاں کیا مسئلہ ہے؟ مزید واضح انداز میں بات کی جائے تو جب ایک عورت پدر شاہی معاشرے کی دی گئی کمتر آزادیوں کو اپنے اور اپنی اولاد کے تحفظ کے لئے تیاگ دینے پر تیار ہے، تو مسئلہ کیا ہے؟

یوال نوح ہراری اپنی کتاب Sapiens میں سوال اٹھاتے ہیں کہ آخر پدرشاہی نے ہر طرح کے سیاسی طوفانوں، انقلابوں اور معاشی تبدیلیوں کا سامنا کیسے کر لیا؟ آخر گذشتہ ہزاروں سال میں alpha خواتین جیسے قلوپطرہ، اندرا گاندھی یا گولڈا میئر اتنی کم تعداد میں کیوں ہیں؟ کیا اس کی وجہ جسمانی کمزوری ہے، مردوں جیسے جارحانہ genes کی کمی ہے، یا سماجی رابطوں کی صلاحیتوں کا فقدان؟ اس پر تفصیلی بحث کے بعد ہراری اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ، ہمیں نہیں پتہ۔

لیکن رکیے! ہمیں ایک انتہائی اہم حقیقت کا ادراک ہے، اور وہ یہ ہے کہ جدیدیت پدرشاہی کے قدم اکھاڑ چکی ہے۔ قدیم قوانین آہستہ آہستہ غیر متعلق ہوتے جا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر، Book of Deutronomy مسیحیوں کو تاکید کرتی ہے کہ اگر جنگی قیدیوں میں کوئی خوبصورت خاتون ملے تو ’اگر تم اسے چاہتے ہو تو اسے لے سکتے ہو‘۔ اس اجازت کے باوجود، آج کے دور میں کٹر یہودی اور مسیحی بھی جنسی غلامی کو ناقابلِ برداشت حد تک ناپسند کرتے ہیں۔ بلکہ صنفی برابری تو مغرب کا نیا منترا ہے۔ اداروں کے سربراہ اور صدور بھی صنفی امتیاز برتنے کے الزامات سے ڈرتے ہیں۔

مسلم ممالک بھی تیزی سے ان خیالات کو اپنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ باوجود اس کے کہ کچھ لوگ ہیں جو صنفی برابری کو ایک مغربی تصور خیال کرتے ہیں، ایسی خواتین کی تعداد بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے جو اپنے گھروں سے باہر نکل کر کاروبارِ زندگی میں حصہ لے رہی ہیں۔ طالبان جیسی قوتوں کی بھرپور مزاحمت کے باوجود، افغانستان اور پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم تیزی سے پھیل رہی ہے۔ اگرچہ پاکستانی حکومت مذہبی اقدار کو مدِ نظر رکھنے کا عہد کرتی ہے، یہ اس وقت تک خاتون کو پاسپورٹ جاری نہیں کرتی جب تک کہ وہ اپنا برقعہ ہٹانے پر راضی نہ ہو جائے۔ اسی طرح، گو کہ انہیں قبرستان میں جانے کی اجازت عمومی طور پر نہیں ہوتی، آپ کو آئے روز قبروں پر بھی خواتین اپنے پیاروں کے لئے روتی نظر آتی ہیں۔

پدرشاہی کی تمام قوتیں اپنی پرانے زمانے کی فرسودہ بندوق سے ایک جنگی ٹینک کو روکنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اس کوشش میں وہ ناکام ہیں، اور اسی لئے غصے سے لال پیلے ہو رہے ہیں۔ لیکن ٹیکنالوجی انہیں ان کی پوزیشن سے پیچھے دھکیل رہی ہے۔ ذرا ان بھاری بھرکم عالموں کو دیکھیے جو 20 سال قبل انسان کی تصویر کھینچنے کو بت تراشنے کے برابر تصور کرتے تھے۔ آج وہ ٹی وی پر آنے کے لئے ایک دوسرے سے لڑتے ہیں اور خوشی خوشی سمارٹ فونز کے آگے سیلفیوں کے لئے پوز کرتے ہیں۔

جیسے جیسے پرانا نظام تباہ ہو رہا ہے اور روایتی دلائل کا بے تکا پن واضح ہو رہا ہے، عورت دشمن گالیوں اور دشنام ترازی کو ہی عورت کے خلاف اپنا واحد ہتھیار سمجھنے لگا ہے۔ حال ہی میں آپ نے مصنف خلیل الرحمان قمر کا ماروی سرمد پر بدتہذیب ذاتی حملہ تو دیکھا ہی ہوگا۔ اور ’میرا جسم میری مرضی‘ کے نعرے کے خلاف کیسی کیسی بیہودہ باتیں کی گئیں کہ عورتیں صرف اپنے جسم کو جنسِ بازار بنانے کی آزادی کا مطالبہ کر رہی ہیں۔

خواہ قبرستان ہو یا جیتے جاگتے انسانوں کی یہ دنیا، یہ لوگ جو خدا کی منشا جاننے کا دعویٰ رکھتے ہیں، پاکستانی عورت کو احترام اور برابری دینے کو تیار نہیں۔ ان خواتین کے لئے انصاف کے حصول کی جدوجہد بہت طویل ہوگی، دیگر ممالک کے مقابلے میں خاصی طویل۔ لیکن وقت اب عورت کے ساتھ ہے۔ ہم مردوں کو ان کے شانہ بشانہ چلنا ہوگا۔

Tags: Pervez Hoodbhoy articleڈاکٹر پرویز ہودبھائی مضمونڈاکٹر ہودبھائی
Previous Post

منظر بدلنے کو ہے یارو، تیار رہو

Next Post

ادی کے بچوں کو ان کا تعلیمی حق دو

نیا دور

نیا دور

Related Posts

عمران خان مقتدر طاقتوں کا لگایا ہوا پودا ہے؛ اس کی اب تک حفاظت ہو رہی ہے

عمران خان مقتدر طاقتوں کا لگایا ہوا پودا ہے؛ اس کی اب تک حفاظت ہو رہی ہے

by زین سہیل وارثی
فروری 5, 2023
1

مورخہ 29 نومبر 2022ء بروز منگل ایک عظیم سپہ سالار نے پاکستان کی فوج کی کمان اپنے ہی ادارہ میں اپنے ماتحت...

‘عمران خان کو اس وقت اپنی گرفتاری کی سب سے زیادہ پریشانی ہے’

‘عمران خان کو اس وقت اپنی گرفتاری کی سب سے زیادہ پریشانی ہے’

by نیا دور
فروری 4, 2023
0

پاکستان میں سیاست اس وقت ٹھیک نہیں ہوگی جب تک تحریک انصاف باقی سیاسی جماعتوں کے ساتھ نہیں بیٹھتی، اور وہ اس...

Load More
Next Post
ادی کے بچوں کو ان کا تعلیمی حق دو

ادی کے بچوں کو ان کا تعلیمی حق دو

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

No Result
View All Result

ایڈیٹر کی پسند

عمران خان، اور ان کے ارد گرد بیٹھے سیاسی آوارہ گردوں کی اصل حقیقت!

عمران خان، اور ان کے ارد گرد بیٹھے سیاسی آوارہ گردوں کی اصل حقیقت!

by عاصم علی
فروری 2, 2023
1

...

فیض حمید صاحب، سب اچھا نہیں ہے!

فیض حمید صاحب، سب اچھا نہیں ہے!

by عاصم علی
فروری 3, 2023
0

...

Aamir Ghauri Nawaz Sharif

نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بن سکتے ہیں؟

by عامر غوری
جنوری 30, 2023
0

...

عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی ٹھکرائی ہوئی محبوبہ ہیں

عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی ٹھکرائی ہوئی محبوبہ ہیں

by عاصم علی
جنوری 18, 2023
0

...

جنرل یحییٰ خان اور جنرل قمر باجوہ ایک ہی سکے کے دو رخ ثابت ہوئے

جنرل یحییٰ خان اور جنرل قمر باجوہ ایک ہی سکے کے دو رخ ثابت ہوئے

by طارق بشیر
جنوری 18, 2023
0

...

Newsletter

ہماری مدد کریں

ٹویٹس - NayaDaur Urdu

نیا دور کے صفِ اوّل کے مصنفین

پیٹر جیکب
پیٹر جیکب
View Posts →
حسن مجتبیٰ
حسن مجتبیٰ
View Posts →
عرفان صدیقی
عرفان صدیقی
View Posts →
نجم سیٹھی
نجم سیٹھی
View Posts →
نبیلہ فیروز
نبیلہ فیروز
View Posts →
محمد شہزاد
محمد شہزاد
View Posts →
توصیف احمد خان
توصیف احمد خان
View Posts →
رفعت اللہ اورکزئی
رفعت اللہ اورکزئی
View Posts →
فوزیہ یزدانی
فوزیہ یزدانی
View Posts →
حسنین جمیل
حسنین جمیل
View Posts →
مرتضیٰ سولنگی
مرتضیٰ سولنگی
View Posts →
اسد علی طور
اسد علی طور
View Posts →
ادریس بابر
ادریس بابر
View Posts →
رضا رومی
رضا رومی
View Posts →
علی وارثی
علی وارثی
View Posts →

Cover for Naya Daur Urdu
64,514
Naya Daur Urdu

Naya Daur Urdu

پاکستان کی ثقافت اور تاریخ کو دیکھنے کا ایک نیا زاویہ

This message is only visible to admins.
Problem displaying Facebook posts.
Click to show error
Error: Server configuration issue

خبریں، تازہ خبریں

  • All
  • انٹرٹینمنٹ
  • سیاست
  • ثقافت
کم از کم اجرت 20 ہزار، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ: بجٹ 2021 پیش کر دیا گیا

اقتدار کے ایوانوں سے جلد کسی ‘بڑی چھٹی’ کا امکان ہے؟

اکتوبر 31, 2021
ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

اکتوبر 27, 2021
بد ترین کارکردگی پر الیکشن نہیں جیتا جاسکتا، صرف ای وی ایم کے ذریعے جیتا جاسکتا ہے

ای وی ایم اور انتخابات: ‘خان صاحب سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ لینے کے لیئے بے تاب ہیں’

اکتوبر 24, 2021

Naya Daur © All Rights Reserved

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English

Naya Daur © All Rights Reserved

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In