تفتان بارڈر، ذلفی بخاری اور اہل تشیع کمیونٹی کے خلاف مذہبی پراپیگنڈا

تفتان بارڈر، ذلفی بخاری اور اہل تشیع کمیونٹی کے خلاف مذہبی پراپیگنڈا
تفتان بارڈر کا معاملہ ایک بار پھر خبروں میں ہے۔ لیکن اس بار اس کی وجہ انتظامی سے زیادہ سیاسی ہے۔ معاملہ کچھ یوں ہے کہ سابق وزیر داخلہ اور مسلم لیگ نواز کے سینیئر رہنما خواجہ آصف نے چند روز قبل ٹوئٹر پر وزیر اعظم عمران خان، ان کے معاونِ خصوصی برائے Overseas Pakistanis ذوالفقار بخاری، معاونِ خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا  اور وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو پاکستان میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ حکومت کو بارڈر سے آنے والے تمام افراد کا ٹیسٹ کرنا چاہیے تھا، جن لوگوں میں تشخیص ہوتی، انہیں قرنطینہ کر کے جن کے ٹیسٹ منفی آتے انہیں جانے دینا چاہیے تھا۔ الٹا حکومت نے سب کو اکٹھا رکھا، کوئی ٹیسٹ نہیں کیے گئے اور پھر سب کو جانے دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ان چار افراد کے ہاتھ خون میں رنگے ہیں۔

اس کے جواب میں سوموار 30 مارچ کو ذوالفقار بخاری عرف ذلفی بخاری نے خواجہ آصف کو ایک قانونی نوٹس بھجوایا جس میں ان سے اس الزام پر معافی مانگنے کا مطالبہ کیا گیا تھا اور بصورتِ دیگر ان کو ایک ارب روپے کے ہرجانے کے دعوے کا سامنا کرنے کی آپشن دی گئی۔

تفتان بارڈر پر ہوا کیا تھا؟

تفتان بلوچستان کا ایران اور پاکستان کے بارڈر پر واقع 14 ہزار آبادی کا ایک چھوٹا سا شہر ہے۔ ہر سال لاکھوں پاکستانی اسی رستے سے ایران کا سفر کرتے ہیں اور ان میں سے زیادہ تر شیعہ زائرین ہوتے ہیں۔ تاہم، فروری کے تیسرے ہفتے میں یہ واضح ہونے لگا تھا کہ ایران میں کورونا وائرس انتہائی تیزی سے پھیل رہا ہے جس کے باعث 23 فروری کو پاکستان نے ایران کے ساتھ بارڈر کو بند کر دیا۔ نتیجتاً ہزاروں پاکستانی سرحد کی دوسری جانب پھنسے رہ گئے۔ ان کے لئے 28 فروری کو پاکستان کو یہ بارڈر دوبارہ کھولنا پڑا۔

زائرین کے علاوہ تمام لوگوں کو ان کے گھر جانے کی اجازت دے دی گئی

بارڈر کھلنے کے بعد بلوچستان اور وفاقی حکومت نے فیصلہ کیا کہ زائرین کے علاوہ تمام لوگ جو ایران ہی سے پاکستان آ رہے تھے، جن میں تاجر، سیاح اور طلبہ شامل تھے، ان سب کو ان کے گھروں کو جانے کی اجازت دے دی گئی۔ رخشاں ڈویژن کے کمشنر کے مطابق ان لوگوں کی تعداد 1704 تھی۔ مگر ایران ہی سے واپس آنے والے زائرین کو تفتان میں قرنطینہ کر دیا گیا۔ یہ ایک عجیب و غریب فیصلہ تھا۔ یہ درست ہے کہ زائرین مزارات کی زیارتیں کر کے آ رہے تھے جہاں بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوتے ہیں، لیکن تاجر، سیاح یا طلبہ بھی انہی لوگوں سے روزانہ ملتے جلتے ہوں گے یقیناً جو ان زیارتوں پر جاتے ہیں۔ حکومتِ پاکستان کی پہلی غلطی ان لوگوں کو نہ روکنا تھا۔

تفتان قرنطینہ کے حالات

5 مارچ 2020 کو نیا دور پر ایک ویڈیو شائع کی گئی تھی جس میں اس قرنطینہ کی حالتِ زار دکھائی گئی تھی جہاں ایران سے واپس آنے والے زائرین کو رکھا گیا تھا۔ برطانوی اخبار گارڈین میں 19 مارچ کو چھپنے والی ایک رپورٹ کے مطابق اس قرنطینہ میں لوگوں کو isolation میں رکھنا تو درکنار، کسی شخص کا ٹیسٹ تک نہیں کیا جا رہا تھا۔ بغیر سکریننگ کے کئی دن تک ان افراد کو ایک چھت تلے، ایک ایک کمبل میں تین تین لوگوں کو سونے پر مجبور کیا گیا۔ ان میں کورونا متاثرین بھی ہوں گے اور صحتمند افراد بھی۔ لیکن ان صحتمند افراد کو بھی کورونا وائرس کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ اس وائرس سے لڑنے کے لئے صابن ایک اہم ہتھیار ہے۔ یہاں صابن نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ دن میں لوگ بازار چلے جاتے تھے، رات میں واپس آ کر سو جاتے تھے اور کسی کو ہوش نہیں تھا کہ ان میں سے متاثرین باہر بازاروں میں بھی کورونا وائرس پھیلا سکتے ہیں۔ یہاں علاج کی غرض سے جانے والے ایک ڈاکٹر نے گارڈین ہی کو بتایا کہ یہاں ٹیسٹنگ کی سہولت موجود نہیں تھی۔ ایک بچی میں کورونا کی تمام علامات دیکھتے ہوئے اسے کوئٹہ اسپتال بھیجا گیا لیکن بغیر میڈیکل کٹس کے وہاں کے ڈاکٹروں اور نرسوں نے اسے دیکھنے سے انکار کر دیا جس کے بعد وہ بچی بغیر ٹیسٹ کے وہیں اللہ کو پیاری ہو گئی۔ حیرت انگیز طور پر ڈاکٹر ظفر مرزا نے 28 فروری کو تفتان قرنطینہ کا دورہ کر کے حالات کو تسلی بخش قرار دیا تھا۔ یعنی ایک ایسے قرنطینہ کو تسلی بخش قرار دے دیا گیا جہاں صابن اور پانی تک موجود نہیں تھے۔

تفتان قرنطینہ میں احتجاج: زائرین قرنطینہ توڑ کر مارچ پر

انہی حالات سے تنگ آ کر 9 مارچ کو قرنطینہ میں موجود افراد ان خیموں کو پھاڑ کر احتجاج کرتے ہوئے کوئٹہ کی طرف نکل کھڑے ہوئے۔ بعد ازاں انتظامیہ سے بات چیت کے بعد یہ واپس چلے گئے لیکن ان میں سے کئی لوگ غائب ہو گئے اور تاحال پتہ نہیں چل سکا کہ وہ کہاں ہیں۔ 13 مارچ کو قرنطینہ کے 14 دن مکمل ہونے کے بعد ان 1928 افراد کو ان کے شہروں کو واپس بھیج دیا گیا جہاں انہیں دوبارہ سے قرنطینہ کر کے ٹیسٹ کیے گئے اور ان میں سے کئی لوگوں کے ٹیسٹ مثبت آئے۔

حکومت کی بے حسی اور نااہلی

تفتان بارڈر پر پیدا ہونے والے حالات کی ذمہ داری نااہل حکومتی عہدیداران کے علاوہ کسی پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ بلوچستان پاکستان کا پسماندہ ترین صوبہ ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو کئی ہفتوں سے ایران اور اس سے قبل چین کی صورتحال کا علم تھا۔ 23 فروری کو بارڈر بند کرنے سے لے کر 28 فروری کو دوبارہ کھولنے تک 5 روز میں حکومت کورونا وائرس کی ٹیسٹنگ کا کوئی انتظام نہیں کر سکی، نہ ہی وہاں قرنطینہ کیے گئے افراد کے لئے بہتر سہولیات کا انتظام کیا گیا۔

دوسرا سوال یہ اٹھتا ہے کہ وہ 1704 ایران پلٹ پاکستانی جو زائرین نہیں تھے، ان میں اور زائرین میں ایسا کیا فرق تھا کہ انہیں ان کے شہروں میں واپس جا کر کورونا پھیلانے کی اجازت دے دی گئی؟

ذلفی بخاری الزامات کی زد میں کیوں؟

ذلفی بخاری پر دو الزامات ہیں۔ ایک تو یہ کہ انہوں نے ذاتی تعلقات کی بنا پر بہت سے لوگوں کو اس قرنطینہ سے غیر قانونی طور پر نکلوایا۔ یہ الزام تاحال محض الزام ہی ہے اور جب تک اس کے ثبوت سامنے نہیں آ جاتے، اسے اس سے زیادہ اہمیت نہیں دی جا سکتی۔

دوسرا الزام اس سے زیادہ اہم ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ بطور وزیر اعظم کے معاونِ خصوصی برائے اوورسیز پاکستانیز کے ذلفی بخاری نے اپنے فرائض درست طریقے سے انجام نہیں دیے۔ اور یہ ایک حقیقت ہے۔ ذلفی بخاری اور ڈاکٹر ظفر مرزا دونوں نے اس سلسلے میں نالائقی کا ثبوت دیا ہے اور ان کا احتساب لازمی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کو چاہیے کہ ان دونوں افراد کو ان کے عہدوں سے برطرف کر کے ان کے خلاف انکوائری کی جائے اور اگر یہ اپنا دفاع کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں، تو ہی ان کو ان کے عہدوں پر بحال کیا جائے۔

صرف ایران پلٹ پاکستانی ہی کورونا پھیلانے کا باعث نہیں

وزیر اعظم صاحب اپنے ایک حالیہ خطاب میں کہہ چکے ہیں کہ گذشتہ چند ہفتوں کے دوران قریب 9 لاکھ پاکستانی وطن واپس لوٹے ہیں۔ ان میں سے کئی لوگ یورپ اور مشرقِ وسطیٰ سے واپس آ رہے تھے اور ان ممالک میں بھی کورونا وائرس اس وقت تیزی سے پھیل رہا تھا۔ لیکن حکومتِ پاکستان نے کئی ہفتے تک تو کسی قسم کی کوئی ٹیسٹنگ نہیں کی، اور بعد میں درجہ حرارت چیک کرنے والے آلہ جات پکڑا کر بغیر حفاظتی ساز و سامان اہلکاروں کو کھڑا کر کے وطن واپس آنے والے افراد کے بخار چیک کرنے کے لئے کھڑا کر دیا گیا۔ ان میں سے کئی کو ممکن ہے بخار کی علامت ظاہر ہی نہ ہوئی ہو، بہت سے ایسے بھی ہوں گے جنہوں نے ایک پیرا سیٹا مول لی ہو گی اور ان کے بخار عارضی طور پر اتر گئے ہوں گے، کئی نے بتایا ہی نہیں ہوگا کہ انہیں بخار کی شکایت ہے کیونکہ یہ بخار چیک کروانا لازمی نہیں تھا بلکہ اعلان کیا جا رہا تھا کہ اگر آپ کو بخار کی شکایت ہے تو یہاں آ کر چیک کروا لیں۔ یہ لوگ اپنے اپنے علاقوں میں پہنچ کر اپنے گھر والوں، رشتہ داروں، دوستوں اور برادریوں میں کورونا وائرس پھیلنے کا باعث بنے ہوں گے۔ اور اس میں کوتاہی کسی اور کی نہیں حکومتِ وقت ہی کی ہے۔

تفتان بارڈر اور اہل تشیع کے خلاف پراپیگنڈا

اس تمام صورتحال کو کچھ گروہ اپنے مذموم مقاصڈ کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ ان میں سب سے آگے وہ دہشتگرد تنظیمیں ہیں جو اس آفت کو بھی اپنے تخریبی مقاصر کے لئے استعمال کرتے ہوئے شیعہ مخالف پراپیگنڈا میں مصروف ہیں۔ ایران سے آنے والے زائرین میں سے اب تک کسی ایک کے بھی مرنے کی اطلاعات نہیں ہیں۔ دوسری جانب پاکستان میں کورونا وائرس سے ہونے والی پہلی ہلاکت مردان میں ہوئی۔ یہ صاحب سعودی عرب سے عمرہ کر کے واپس آئے تھے۔ سعودی عرب کئی روز قبل کورونا وائرس کے ہی پھیلنے کی وجہ سے مسجد الحرام کو بند کر چکا ہے۔ تبلیغی اجتماع سے واپسی پر بھی کئی افراد میں کورونا کی تشخیص ہو چکی ہے۔ ابھی سوموار ہی کو حیدر آباد میں بڑی تعداد میں ایسے افراد میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی ہے جو رائیونڈ میں تبلیغی اجتماع میں شرکت کر کے واپس گئے تھے۔

تمام تر الزام اہل تشیع پر ڈال کر یہ لوگ ملک میں فرقہ واریت پھیلانا چاہتے ہیں۔ لیکن یاد رکھیے کہ یہ زائرین صرف زیارتوں کی غرض سے ایران گئے تھے اور ان کے نزدیک یہ ایک مذہبی معاملہ ہے۔ پاکستان کا آئین تمام شہریوں کو ان کے مذہبی عقائد کے مطابق زندگی گزارنے کی اجازت دیتا ہے۔ یہ لوگ تو خود حکومتی نااہلی کے شکار ہیں۔ پاکستان میں کورونا وائرس پھیلنے کی وجہ ایران سے واپس آنے والے زائرین نہیں بلکہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں ہیں جنہوں نے نہ صرف ان کا کوئی خیال نہیں رکھا بلکہ ایئر پورٹس پر وطن واپس آنے والے افراد کے ٹیسٹ نہ کرنے، قرنطینہ میں موجود افراد کو بنیادی سہولیات سے محروم رکھنے، ٹیسٹنگ کی سہولت ہوتے ہوئے ٹیسٹنگ نہ کرنے اور بروقت لاک ڈاؤن نہ کرنے جیسے پے درپے کئی غلط فیصلے کر چکے ہیں۔ اور اب بھی حالات کی سنجیدگی کا انہیں ادراک نہیں جس کا ثبوت وزیر اعظم کا قوم سے حالیہ خطاب ہے۔ اس خطاب پر تبصرے کے لئے سکرین پر موجود ویڈیو پر کلک کیجئے۔