• آن لائن اشتہاری ٹیرف
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • ہمارے لئے لکھیں
  • نیا دور انگریزی میں
ہفتہ, فروری 4, 2023
نیا دور
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
نیا دور
No Result
View All Result

شوگر مافیا کا بیچاری عوام کی جیب پر ڈاکا ڈالنے کا طریقہ کیا ہے؟

عصمت الله نیازی by عصمت الله نیازی
اپریل 10, 2020
in تجزیہ, معیشت
7 0
1
چینی بحران میں صارفین کی جیبوں پر ہر ماہ 6 ارب روپے سے زائد کا ڈاکہ ڈلا
41
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on Whatsapp

RelatedPosts

قانون کی گرفت سے بچنے کے لیئے مافیا پی ڈی ایم جیسے اتحاد بناتا ہے: وزیر اعظم

چینی بحران میں صارفین کی جیبوں پر ہر ماہ 6 ارب روپے سے زائد کا ڈاکہ ڈلا

Load More
پوری دنیا آج صرف ایک مسئلے پر فوکس کیئے ہوئے ہے اور وہ کرونا وائرس کی وبا ہے۔ جس نے پوری دنیا کو اس وقت لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ شاید اس وبا کی وجہ سے دنیا بھر میں لوگوں کی زندگی کا رہن سہن ، اٹھنا بیٹھنا ، ملنا ملانا سب رہتی دنیا تک کر بدل جائے۔ جس وقت اس وبا سے پوری دنیا لڑنے کے لئے سوچ بچار میں مصروف ہے ، ہماری حکومت بھی کسی حد تک اس وبا سے نمٹنے میں مصروف ہے لیکن ساتھ ہی شوگر اور گندم مافیا کے بارے میں ایک رپورٹ یا جاری ہوئی یا پھر کسی نادیدہ قوت کے اشاروں پر یہ رپورٹ لیک کر دی گئی ہے۔ کیوں کہ اس میں جو بڑی  شخصیات  سامنے آئیں ان میں سے پہلا نام جہانگیر ترین کا ہے جبکہ دوسرا بڑا نام خسرو بختیار کا ہے جو وفاقی وزیر نیشنل فوڈ سیکیورٹی تھے .چوہدری پرویز الہی کے بیٹے مونس الہی اور شہباز شریف کے صاحب ذادے سلمان شہباز نے بھی خوب فائیدہ اٹھایا۔ اس کے علاوہ چاہے وہ زرداری خاندان ہو یا صنعت کار رزاق داؤد ، سب نے اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے اور شاید آیندہ بھی یہی گھناونہ کھیل کھیلتے رہیں گے . ملک میں اس وقت نواسی شگر ملیں کام کر رہی ہیں ، جن میں سے چالیس فیصد  ملیں سیاسی خاندانوں کی ہیں . اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر سیاستدان شوگر انڈسٹری یا گندم کی درآمد یا برآمد میں کیوں ملوث نظرآتے ہیں ؟ کیا شوگر انڈسٹری اتنی منافع بخش ہے بھی یا اسکے پیچھے کچھ معاملات ہیں اور گنے کی کاشت اس ملک کے کسانوں اور کاشتکاروں کے لئے کتنی فائدہ مند ہیں ؟ 
سب سے پہلے شوگر انڈسٹری کے منفعت بخش ہونے کا جائزہ لیتے ہیں . پاکستان میں بیشتر کارخانے گنے  سے چینی بناتے ہیں جب کہ خیبر پختون خواہ میں چقندر سی بھی چینی بنائی جاتی ہے تاہم ایک آدھ کارخانہ ہے۔رپورٹ لیک ہونے کے بعد میں نے اپنے ایک دوست سے رابطہ کیا جو سندھ شوگر کارپوریشن کے چیئرمین رہے اور سیکرٹری خوراک بھی رہے اور شوگر انڈسٹری پر انہیں انسائکلوپیڈیا کہا جا سکتا ہے. اس کے علاوہ ماہرین سے بھی بات کی تو پتہ چلا کہ پاکستان میں چینی کی صنعت نہ منفعت بخش اور نہ قابل عمل یعنی viable ہی نہیں اور اسکا تمام تر انحصار ناپ تول میل ہیر پھیر اور سبسڈی لیکر برآمد کرنے کی آڑ میں اربوں کھربوں روپے کمانے پر ہے. یہ مل مالکان ذخیرہ اندازی ، بنکوں کے قرضے لیکر معاف کرانے، سبسڈی کی مد اب تک کھربوں کمانے اور حکومتوں کو بلیک میل اور عوام کو لوٹنے کے علاوہ کچھ نہیں کرتے. تحقیق کے مطابق سندھ کے وہ علاقے جو سمندر کے قریب ہیں یعنی ٹھٹہ بدین سجاول، یہاں کیوں کہ ہوا میں نمی ہوتی ہے گنے کی کاشت کے لئے موافق ہیں.
اسکے باوجود گنے سے چینی بنانے کی مقدار فی ٹن دس فیصد سےکچھ  زیادہ ہے. اسی طرح  پاکستان شوگر ملز ایسوسیشن کے مطابق پنجاب اور خیبر پختون خواہ میں نو فیصد سے زائد جب کہ کل پاکستان میں فی ٹن ریکوری کی شرح دس فیصد ہے. جسے ماہرین تسلیم نہیں کرتے کیوں خشک موسم  کی وجہ سے گنے سی چینی کی فی ٹن شرح سات فیصد سے زیادہ نہیں ہو سکتی. جب پیداوار کی اتنی کم  شرح ہے تو پھر یہ فیکٹری ملکان دن دگنی رات چگنی ترقی کیسے کرتے ہیں اور ارب اور کھرب پتی کیسے بنتے رہتے ہیں یہاں تک پرائیوٹ جیٹ جہاز رکھتے ہیں اور دنیا بھر میں عیاشیاں کرتے پھرتے ہیں۔ اسکا جواب ماہرین یہ دیتے ہیں کہ جب کسان گنا فیکٹری لاتے ہیں تو ہفتوں کے حساب سے انکا گنا ٹریکٹروں پر ہی سوکھتا رہتا ہے تا کہ رس سوکھے اور اسکا وزن کم ہو . پھر جب گنے کا وزن  ہوتاہے تو ایک من گنے کا وزن تیس کلو لکھا جاتا ہے اور دس کلو کے ہیرا پھیری میں  مل مالکان ، اہلکار ، سرکاری افسر سب  شامل ہوتے ہیں اور حصہ لیکر  مستفید ہوتے ہیں .
اب چینی کی درآمد برآمد اور سبسڈی کے دھندے کی طرف آتے ہیں، تو وزیر ریلوے شیخ رشید کی بیان سے پہلے ہی ہمارے دوست نے  بتا دیا تھا کہ چینی ملک سے باہر جاتی ہی نہیں نہ ایکسپورٹ ہوتی ہے، کیوں کہ سبسڈی مل جانے کے بعد ایکسپورٹ کی جانے والی چینی سستی اور ملک میں قیمت زیادہ ہوتی ہے سو وہ چینی ملک میں ہے بیچ دی جاتی ہے ۔ کارخانے  دار کیوں کہ با اثر سیاسی لوگ ہوتے ہیں اور فیصلہ سازی کے عمل کا حصہ ہوتے ہیں اندر کی صورتحال سے واقف ہوتے ہیں گیا فیصلہ سازیاں اہنے مفاد میں کرتے ہیں۔ وہ جعلی  سٹیٹ بنک رپورٹ جس میں صرف یہ لکھا ہوتا ہے کہ اس شخص نے ایکسپورٹ کی ہے، یہ نہیں درج ہوتا کہ  کیا چیز برآمد کی گئی اور کہاں کی گئی۔ کلیم داخل کرنے کے لئے چودہ مختلف کاغذات کی ضررت ہوتی ہے ، لیکن تین چار کاغذ جمع کرا کر ہی کلیم حاصل کر لیا جاتا ہے . اور اربوں  کا دھندہ گھر بیٹھے کر لیا جاتا ہے . مثال کی طور پر ملک میں چینی ستر روپے ہے اور اس پر دس روپے ایکسپورٹ سبسڈی مل جائے تو ایکسپورٹ والی چینی ساٹھ روپے فی کلو ہو جاتی ہے اسطرح دس روپے کا منافع کما کر چینی ملک میں ہی بیچ دی جاتی ہے . یوں عوام کو لوٹنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے . 
ماہرین کا دعویٰ ہے کہ چینی کی عالمی منڈی میں چینی کی قیمت انتہائی کم ہوتی ہے اور اگرچینی در آمد کی جائے تو عوام کو سستی چینی فراہم کی جاسکتی ہے . میں  نے جب آج بروز جمعرات چینی کی عالمی منڈی میں فی کلو چینی قیمت چیک کی تو پتا چلا کہ عالمی مارکیٹ میں  فی کلو چینی کی قیمت چھتیس روپے فی کلو کے قریب ہے اگر اس پر پچاس فیصد  ٹیکس بھی لگ جائے تو درآمد کی گئی چینی  کی قیمت چون پچپن روپے سے زیادہ نہیں رہے گی جس سے نہ صرف عوام کو سستی چینی میسر ہوگی بلکہ حکومت کی آمدن میں بھی اضافہ ہوگا  تاہم اسکا انحصار ڈالر کی کی قیمت کے اتار چڑھاؤ پر رہے گا . ہاں یہ ضرور ہے کہ کوئی بھی صنعت روزگار کی فراہمی کا سبب ہوتی ہے لیکن اسکا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ سیاستدان کارخانے دار لوٹ مار کا بازار گرم رکھیں اور لوگوں کا خون نچوڑتے رہیں۔ اب آتے ہیں گنے کی کاشت کی  طرف تو جنوبی پنجاب جو دنیا بھر میں بہترین کپاس کی کاشت کے لئے جانا اور مانا جاتا تھا اب وہاں کا بیشتر حصہ گنے کی کاشت کی طرف لگا دیا گیا ہے اور پورے  علاقے کے زرعی  پیٹرن کو تبدیل کر کے لئے ہمیشہ کے لئے تباہی کا سامان کر لیا گیا ہے . گنے کی فصل تیار ہونے کے لئے اسے پورا سال پانی درکار ہوتا ہے اور کس بھی فصل کے مقابلے میں اسے پانی کی بہت بڑی مقدار کی ضرورت ہوتی ہے . کاشتکار سال بھر میں صرف ایک فصل اٹھا سکتا ہے . ان کرپٹ سیاست دانوں اور کاروباری چینی مافیا اور پالیسی سازوں نے نہ صرف کپاس کی پیداوار کو نقصان  پہنچایا بلکہ پانی کے کم ہوتے وسائل پر مزید دباؤ ڈالا جسے ہماری آیندہ کی نسلیں بھگتیں گی .
وزیراعظم عمران خان کو ابتدائی رپورٹ کے آتے ہی ذمہ دار افراد کے عہدوں کی تبدیلیوں کے بجائے انکو گھر  بھیج دینا چاہے اور فرانزک رپورٹ کے بعد انہیں عبرت کا نشان بنا دینا ہوگا ورنہ یہ مافیا لوٹ مار کے نت نئے طریقے ڈھونڈتے رہیں گے اور عوام کا خون چوستے رہیں گے. ہاں یہاں یہ کہنا ضروری ہے کہ وفاقی حکومت اس ذمہ داری سے بری الزمہ نہیں ہو سکتی کہ اس نے ہی چینی کی ایکسپورٹ کی اجازت دی. کیوں کہ درآمد برآمد ابھی تک صرف وفاق کا ہی استحقاق اور اختیارہے۔
Tags: شوگر مافیا اور حکومت کا گٹھ جوڑشوگر مافیا اور سبسڈیشوگر مافیا نے عوام کو لوٹ لیا
Previous Post

کرونا وائرس سے ہلاک ہونے والے ہزاروں افراد کی عارضی طور پر اجتماعی تدفین

Next Post

احساس کفالت پروگرام کے تحت امدادی رقوم کی تقسیم میں بدنظمی، بھگدڑ سے خاتون جاں بحق

عصمت الله نیازی

عصمت الله نیازی

مصنف سینئر صحافی ہیں اور ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

Related Posts

‘عمران خان کو اس وقت اپنی گرفتاری کی سب سے زیادہ پریشانی ہے’

‘عمران خان کو اس وقت اپنی گرفتاری کی سب سے زیادہ پریشانی ہے’

by نیا دور
فروری 4, 2023
0

پاکستان میں سیاست اس وقت ٹھیک نہیں ہوگی جب تک تحریک انصاف باقی سیاسی جماعتوں کے ساتھ نہیں بیٹھتی، اور وہ اس...

عمران خان، اور ان کے ارد گرد بیٹھے سیاسی آوارہ گردوں کی اصل حقیقت!

عمران خان، اور ان کے ارد گرد بیٹھے سیاسی آوارہ گردوں کی اصل حقیقت!

by عاصم علی
فروری 2, 2023
1

مارچ 2022 کی تحریک عدم اعتماد کے ساتھ پاکستان کی سیاست میں ایک تاریخی موڑ آ گیا۔ عمران خان کو لانے اور...

Load More
Next Post
احساس کفالت پروگرام کے تحت امدادی رقوم کی تقسیم میں بدنظمی، بھگدڑ سے خاتون جاں بحق

احساس کفالت پروگرام کے تحت امدادی رقوم کی تقسیم میں بدنظمی، بھگدڑ سے خاتون جاں بحق

Comments 1

  1. Dr. M. Tauqir Alam says:
    3 سال ago

    An excellent, informative and divulging column,unveiling the faces and conspiracies and politics of Sugar Don’s in Pakistan. It appears that these sugar milks owners have been plunging poor AWAM like crushing materials in their machines.

    جواب دیں

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

No Result
View All Result

ایڈیٹر کی پسند

عمران خان، اور ان کے ارد گرد بیٹھے سیاسی آوارہ گردوں کی اصل حقیقت!

عمران خان، اور ان کے ارد گرد بیٹھے سیاسی آوارہ گردوں کی اصل حقیقت!

by عاصم علی
فروری 2, 2023
1

...

فیض حمید صاحب، سب اچھا نہیں ہے!

فیض حمید صاحب، سب اچھا نہیں ہے!

by عاصم علی
فروری 3, 2023
0

...

Aamir Ghauri Nawaz Sharif

نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بن سکتے ہیں؟

by عامر غوری
جنوری 30, 2023
0

...

عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی ٹھکرائی ہوئی محبوبہ ہیں

عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی ٹھکرائی ہوئی محبوبہ ہیں

by عاصم علی
جنوری 18, 2023
0

...

جنرل یحییٰ خان اور جنرل قمر باجوہ ایک ہی سکے کے دو رخ ثابت ہوئے

جنرل یحییٰ خان اور جنرل قمر باجوہ ایک ہی سکے کے دو رخ ثابت ہوئے

by طارق بشیر
جنوری 18, 2023
0

...

Newsletter

ہماری مدد کریں

ٹویٹس - NayaDaur Urdu

نیا دور کے صفِ اوّل کے مصنفین

پیٹر جیکب
پیٹر جیکب
View Posts →
حسن مجتبیٰ
حسن مجتبیٰ
View Posts →
عرفان صدیقی
عرفان صدیقی
View Posts →
نجم سیٹھی
نجم سیٹھی
View Posts →
نبیلہ فیروز
نبیلہ فیروز
View Posts →
محمد شہزاد
محمد شہزاد
View Posts →
توصیف احمد خان
توصیف احمد خان
View Posts →
رفعت اللہ اورکزئی
رفعت اللہ اورکزئی
View Posts →
فوزیہ یزدانی
فوزیہ یزدانی
View Posts →
حسنین جمیل
حسنین جمیل
View Posts →
مرتضیٰ سولنگی
مرتضیٰ سولنگی
View Posts →
اسد علی طور
اسد علی طور
View Posts →
ادریس بابر
ادریس بابر
View Posts →
رضا رومی
رضا رومی
View Posts →
علی وارثی
علی وارثی
View Posts →

Cover for Naya Daur Urdu
64,514
Naya Daur Urdu

Naya Daur Urdu

پاکستان کی ثقافت اور تاریخ کو دیکھنے کا ایک نیا زاویہ

This message is only visible to admins.
Problem displaying Facebook posts.
Click to show error
Error: Server configuration issue

خبریں، تازہ خبریں

  • All
  • انٹرٹینمنٹ
  • سیاست
  • ثقافت
کم از کم اجرت 20 ہزار، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ: بجٹ 2021 پیش کر دیا گیا

اقتدار کے ایوانوں سے جلد کسی ‘بڑی چھٹی’ کا امکان ہے؟

اکتوبر 31, 2021
ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

اکتوبر 27, 2021
بد ترین کارکردگی پر الیکشن نہیں جیتا جاسکتا، صرف ای وی ایم کے ذریعے جیتا جاسکتا ہے

ای وی ایم اور انتخابات: ‘خان صاحب سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ لینے کے لیئے بے تاب ہیں’

اکتوبر 24, 2021

Naya Daur © All Rights Reserved

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English

Naya Daur © All Rights Reserved

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In