اوریا مقبول جان داعش کے بعد ایک اور عالمی دہشتگرد ہٹلر کی توصیف میں کالم لکھنے لگے۔ کالم کا جواب

اوریا مقبول جان داعش کے بعد ایک اور عالمی دہشتگرد ہٹلر کی توصیف میں کالم لکھنے لگے۔ کالم کا جواب
معروف کالم نگار اور سابق بیوروکریٹ اوریا مقبول جان داعش کے بعد ایک نئے عالمی دہشتگرد کی حمایت میں آگے آئے ہیں۔ جی ہاں، اس مرتبہ انہوں نے جرمنی کے سابق چانسلر اور لاکھوں انسانوں کے قاتل اڈولف ہٹلر کی 75ویں برسی پر اس کی ستائش میں ایک تفصیلی کالم لکھا ہے اور اسے یورپ کی تاریخ کا ایک عظیم ہیرو، استعمار کا دشمن، سودی نظام کے خلاف آہنی دیوار اور ’عریانی، فحاشی اور بے حیائی‘ کے خلاف جہاد کرنے والا مجاہد بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کالم میں کہیں ایسے حقائق کو بیان کرنے سے گریز کیا گیا ہے جو ہٹلر کے خلاف جاتے ہوں، اور کہیں اس کے انسانیت کے خلاف جرائم کو اس سے قبل دوسروں کی جانب سے ڈھائے گئے مظالم کے بیان کے ذریعے ان پر لیپا پوتی کی گئی ہے۔

بلکہ یوں کہا جائے کہ یہ کالم لیپا پوتی اور پردہ پوشی، مبالغے اور جھوٹ کا ایک بہترین امتزاج تھا تو بے جا نہ ہوگا۔

ہٹلر کے جرائم کی لیپا پوتی

سب سے پہلے آتے ہیں لیپا پوتی پر۔ اوریا صاحب نے لکھا کہ ہٹلر نے یہودیوں کا قتلِ عام کیا لیکن یہ تو اس سے پہلے اور بھی بہت لوگوں نے کر رکھا تھا۔ اس حوالے سے انہوں نے سپین پر فرڈیننڈ کے قبضے کی مثال کے علاوہ اور بھی بہت سی مثالیں دیں جب یورپ میں یہودیوں کا قتلِ عام کیا گیا۔ قرونِ وسطیٰ کے ادوار میں یہودی دنیا کی واحد قوم تھے جو الوہیت کے پرچارک تھے اور ان کے ارد گرد ہر طرف paganism یا مظاہر پرستی کا دور دورہ تھا۔ یہ لوگ بار بار ان مظاہر پرستوں کے خلاف مذہب کی بنیاد پر بغاوت کرتے اور بار بار یہ بغاوتیں کچلی گئیں۔ حضرت عیسیٰؑ کو مصلوب کرنے کی وجہ بھی یہی تھی کہ ان کی تحریک کو ایک یہودی بغاوت خیال کرتے ہوئے رومی سلطنت کے کرتا دھرتاؤں نے اپنی کئی سالوں سے چلی آ رہی پالیسی کے تحت اسے کچلنے کی کوشش کی۔ اسی تناظر میں رومی سلطنت کے دور میں یہودیوں کے خلاف ایک نفرت پائی جاتی تھی، کیونکہ یہ لوگ ان کے مظاہر کو اپنے ایک خدا کے تابع بتاتے تھے اور اسی بنیاد پر ان کے خلاف پراپیگنڈا کیا جاتا تھا۔ یورپ میں عیسائیت نے مظاہر پرستی کو تو ختم کر دیا لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام جو کہ خود ایک یہودی تھے کے پیروکاروں میں یہ پراپیگنڈا پھیلایا گیا کہ رومیوں اور یہودیوں نے مل کر حضرت مسیحؑ کی جان لی۔ یہ حقیقت بھی ہے لیکن جن یہودیوں نے رومیوں کا ساتھ دیا، مسیحؑ انہی کے خلاف انقلاب لا کر یہودیت کو غلط تصورات سے پاک کرنے کا مشن رکھتے تھے۔ ہر مرض، ہر آفت، ہر طاعون کو یہودیوں کی سازش قرار دیا جاتا اور یہ سوچ مسیحیت کے پورے یورپ پر غالب آ جانے کے باوجود تبدیل نہیں ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ یہودیوں پر تاریخ میں بار بار ایسے مظالم ڈھائے جاتے رہے اور یہ کوئی قابلِ فخر کارنامہ نہیں تھا۔



ہٹلر کی پوری آپ بیتی میری جنگ جو اس نے اقتدار میں آنے سے دس سال قبل لکھی تھی میں اس نے رومیوں کا پڑھایا ہوا وہی پاٹ دہرایا کہ جرمنی جنگ جیت رہا تھا لیکن یہودی میڈیا اور بولشویکیوں کے ایما پر مل مزدوروں نے ہڑتالیں کر کے  جرمنی کو شکست دلوا دی۔ پورے یورپ میں فوجی جنگ ہارنے کے بعد ہٹلر نے اس سب کا الزام حکومت پر ڈالا اور نئی جمہوری حکومت Weimar Republic پر الزام لگایا کہ اس نے جنگ ہارنے کے بعد فاتحین کی تمام شرائط مان لیں بجائے دوبارہ سے جنگ کا خطرہ مول لینے کے۔ یہ ایک ایسی دلیل ہے جسے فوجی حکمرانوں نے ہمیشہ سے اقتدار ہتھیانے کے لئے استعمال کیا ہے۔ کارگل اور جنرل مشرف کے کو میں بھی اس کی مماثلت دیکھی جا سکتی ہے۔ گو ہٹلر ایک جمہوری طریقے سے منتخب شدہ حکمران تھا، اس کی اور یورپ کے اس وقت کے دیگر فسطائی رہنماؤں کی سیاست انہی نکات کے ارد گرد گھومتی تھی۔

اسی طرح انہوں نے ہٹلر کے خلاف جنگ کی وجہ یہ قرار دی کہ تمام یورپ عریانی اور فحاشی پھیلانا چاہتا تھا، سودی نظام برقرار رکھنا چاہتا تھا جب کہ ہٹلر اس کے خلاف تھا۔ یہاں وہ یہ بیان کرنا بھول گئے کہ یہ جنگ اتحادی قوتوں نے نہیں، ہٹلر نے شروع کی تھی۔ مشرقی یورپ کے کئی ممالک میں بغاوت کروا کر وہاں کی جرمن نسل آبادیوں کے ذریعے بغاوتیں کروائی گئیں، ان ملکوں پر قبضے کیے گئے اور یہ ایسے ممالک تھے جن کے برطانیہ اور فرانس کے ساتھ دفاعی معاہدے موجود تھے اور ان دونوں ممالک پر لازم تھا کہ وہ ان کی حفاظت کے لئے جرمنی کے خلاف مزاحمت کریں، لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا اور ہٹلر سے جنگ کو avoid کرنے کی کوشش میں اس کے ناجائز اور جارحیت پر مبنی اقدامات کو برداشت کیا۔ تاہم، جب ہٹلر نے پولینڈ پر قبضہ کیا، تب تک برطانیہ اور فرانس میں رائے عامہ بن چکی تھی کہ اگر ہم اپنے اتحادیوں کی مدد کو نہیں جائیں گے تو مستقبل میں ہم سے اتحاد کون کرے گا؟ پولینڈ پر قبضے کے بعد ہی ہٹلر کے ساتھ جنگ کا فیصلہ کیا گیا۔ لہٰذا اس جنگ کو اتحادی افواج نے شروع ہی نہیں کیا۔ یہ جنگ ہٹلر نے شروع کی تھی۔ اور اس کے ساتھ ہی اوریا مقبول جان کے لیپا پوتی پر مبنی بیانیے کی قلعی کھل جاتی ہے۔ ہولوکاسٹ میں مرنے والے یہودیوں کی تعداد کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار بھی لیپا پوتی ہی کی ایک کوشش تھا۔

ہٹلر کے جرائم کی پردہ پوشی

اوریا مقبول جان صاحب نے ہٹلر کے دیگر جرائم کی پردہ پوشی بھی خوب کی ہے۔ مثلاً انہوں نے کہیں یہ نہیں لکھا کہ بوڑھے اور ضعیف افراد جو قومی معیشت پر ’بوجھ‘ قرار دیے گئے، ان کو قتل کیا گیا۔ خانہ بدوشوں کو جادوگر قرار دے کر ان کا ہولوکاسٹ ہی کی سطح پر قتلِ عام کیا گیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ کالم میں کہیں بتایا ہی نہیں گیا کہ اس جنگلی سوچ کی اصل وجہ تھی کیا۔ اوریا مقبول جان اور اس قسم کے دیگر لوگ کبھی یہ سچ نہیں بولیں گے کہ ہٹلر کی جنگ کی اصل وجہ صرف یہ تھی کہ وہ آریائی قوم کو دیگر تمام نسلوں پر برتر سمجھتا تھا۔ اس کا ماننا تھا کہ دیگر تمام اقوام نسلی طور پر کمتر ہیں اور آریائی قوم ہی دنیا پر حکمرانی کا حق رکھتی ہے کیونکہ یہی دنیا کو ٹھیک انداز میں چلا سکتی ہے۔ اس کے لئے جھوٹی سائنسی تحقیقات بھی پیش کی جاتی تھیں اور ہٹلر اس سوچ کا قائل تھا۔ یہی وجہ تھی کہ پورے مشرقِ وسطیٰ میں نازی پراپیگنڈا ایران میں سب سے زیادہ تیزی سے کام کر رہا تھا کیونکہ ایرانی مستند طور پر آریائی نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور ہٹلر انہیں اپنے ساتھ ملانا چاہتا تھا۔ یہ قتال نسل پرستی پر مبنی تھا۔ اس حقیقت کو چھپانا فکری بددیانتی نہیں تو کیا ہے؟

ہٹلر کے حق میں مبالغہ آرائی

اوریا مقبول جان نے ہٹلر کو مظلوم ثابت کرنے کے لئے لفظ ’فاشسٹ‘ کو بھی مظلوم ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ فاشزم دراصل ایک سیاسی جماعت ہی کا نام نہیں، ایک سوچ کا بھی نام ہے۔ دنیا کی جدید جمہوری تاریخ میں کہیں اور نسل پرستی اور اقلیت دشمنی کی ایسی مثال نہیں ملتی جس کو مسولینی کی فاشسٹ پارٹی نے اٹلی میں پروان چڑھایا۔ ہٹلر نے بھی اسی سوچ کو اپنایا۔ برطانیہ، امریکہ سمیت یورپ کے کئی ملکوں میں علاقائی فاشسٹ جماعتیں وجود میں آئیں۔ ان کا بنیادی نکتہ یہی تھا کہ دوسرے رنگ و نسل کے لوگ ان کی نسل کے لوگوں کی کامیابیوں کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ مثلاً برطانیہ کی فاشسٹ پارٹی کا کہنا تھا کہ ہندوستان میں پیدا ہونے والی کپاس پر پہلا حق برطانویوں کا ہے کیونکہ یہ برطانویوں نے لگانا سکھائی تھی یا کلکتہ اور فیصل آباد کی فیکٹریوں میں بننے والا کپڑا برطانیہ آتا ہے تو اسے ایکسپورٹ کیوں کہا جاتا ہے، جب کہ یہ صنعتی انقلاب تو ہندوستان میں برطانیہ کی دین تھا۔



اب بات یہودیوں سے آپ پر آئی ہے تو ذرا بتائیے کہ کیا یہ نظریہ درست ہے کہ ہماری زمین سے اگنے والے اجناس اور ہمارے مزدوروں کے خون پسینے سے بننے والی ٹیکسٹائل سے ملنے والے زر مبادلہ پر حق کسی دور دراز جزیرے پر واقع قوم کا ہو؟ وہ بھی اس لئے کہ وہ مل ایک گورے نے لگائی ہے؟ یہی سرمایہ دارانہ نظام ہے جس کے خلاف اوریا مقبول جان صاحب پورا کالم لکھ بیٹھے ہیں لیکن ہٹلر کو مظلوم بھی ثابت کرنے پر تلے ہیں جب کہ وہ بھی جنگ اسی نیت سے کر رہا تھا کہ افریقہ اور ایشیا میں جرمنی کو بھی نوآبادیاں واپس کی جائیں کیونکہ جرمن قوم ایک superior race ہے اور ان پر حاکمیت کا حق رکھتی ہے۔ یہی سرمایہ دارانہ اور تعفن زدہ نوآبادیاتی نظام جس کے خلاف اوریا مقبول جان پچھلے کئی برسوں میں سینکڑوں کالم لکھ چکے ہیں، وہ ہٹلر کے لئے درست کیسے ہو جاتا ہے؟ اور اگر ہٹلر کے لئے درست ہے تو دیگر فسطائیوں کے لئے درست کیوں نہیں؟ سچ بولیں، اوریا صاحب۔ ہٹلر آپ کا ہیرو محض اس لئے ہے کہ وہ یہودیوں کا قتلِ عام کرتا تھا، اور یہی کام داعش بھی کرنا چاہتی تھی جس کی مدح سرائی میں آپ نے ماضی میں بھی کالم لکھے۔ آپ ایک anti-semite ہیں، اور اس کے ارد گرد سارا تانا بانا اسی ایک نکتے کو چھپانے کے لئے ہے۔

ہٹلر کے حق میں جھوٹ

آخر میں ایک ایسا مسئلہ جس پر پاکستان میں بہت زیادہ غلط معلومات پھیلائی گئی ہیں، وہ ہے ہولوکاسٹ پر بات کرنے کی پابندی کے حوالے سے۔ ہٹلر کے حق میں دلائل دیتے ہوئے موصوف نے کہا کہ ’’امریکہ، کینیڈا کے علاوہ یورپ کے تمام ممالک میں ہولوکاسٹ پر بات کرنا، اس کے بارے میں ازسرنو تحقیق کرنا یااس کی حقیقت کا کھوج لگانا، سب کے سب قابل تعزیر جرائم ہیں، جن کی باقاعدہ سزائیں مقرر ہیں‘‘۔

یہ سراسر جھوٹ ہے۔ جن دو ممالک امریکہ اور کینیڈا کے نام اوریا مقبول جان نے لکھے ہیں، ان میں ایسا کوئی قانون موجود نہیں۔ یورپ میں برطانیہ کے اندر یہ قانون موجود نہیں۔ ان تینوں ممالک میں آپ کچھ بھی کہہ دیں، جب تک آپ تشدد نہیں کر رہے یا لوگوں کو تشدد پر اکسا نہیں رہے، آزادی اظہار آپ کا حق ہے اور آپ بغیر جھجھک کے یہودیوں کے قتلِ عام کو جھٹلا سکتے ہیں۔ لوگوں کو برا لگے گا، لیکن قانون آپ کے آزادی اظہار کے حق کی حفاظت کرے گا۔

دنیا کے کل 15 ممالک ہیں جہاں ہولوکاسٹ کو جھٹلانے پر پابندی ہے، اس پر بات کرنے، تحقیق کرنے یا کھوج لگانے وغیرہ پر کوئی پابندی نہیں۔ ان میں سے ایک ملک تو خود اسرائیل ہے۔ دیگر 14 ممالک میں سے ایک آسٹریلیا ہے اور باقی 13 یورپی ممالک ہیں اور یہاں یہ پابندی اس لئے ہے کہ یہود دشمنی تاریخی طور پر ان ممالک میں سب سے زیادہ رہی ہے۔ ہولوکاسٹ بھی سب سے زیادہ انہی ممالک میں پیش آیا۔ لہٰذا ایک مذہبی اقلیت کے خلاف پراپیگنڈے کو روکنے کے لئے ان ممالک نے نسل پرست اور نسل کشی کی ترغیب دینے والے سیاسی نظریات کی ترویج پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر ممالک نے ہولوکاسٹ کو نہیں بلکہ نسل کشی کی ترغیب دینے والے سیاسی نظریات کی ترویج پر پابندی عائد کی ہے جو صرف یہودیوں کو نہیں، مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ دیگر ممالک میں ایسا کوئی قانون نہیں۔ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے، کاش کہ hate speech پر ہمارے ملک میں بھی ایسے قوانین ہوتے تو سب سے پہلے تو اوریا مقبول جان صاحب کا اپنا کالم اور ٹی وی پروگرام بند ہوتے جن میں آئے روز اقلیتوں کے بارے میں متعصبانہ نظریات پیش کیے جاتے ہیں۔ تاہم، ان پابندیوں سے پاکستان کی اقلیتوں کو ایک تحفظ ضرور مل جاتا، جو ہٹلر کے جرمنی ہی کی طرح، آج بھی پاکستان، ہندوستان اور دنیا کے بیشتر ممالک میں معتوب و محکوم ہیں۔

ویب ایڈیٹر

علی وارثی نیا دور میڈیا کے ویب ایڈیٹر ہیں.