ٹھنڈے گوشت پر بھی نوخیز جوانیاں منڈلاتی ہیں اور تم کہتے ہو کہ راسپوٹین مر گیا

ٹھنڈے گوشت پر بھی نوخیز جوانیاں منڈلاتی ہیں اور تم کہتے ہو کہ راسپوٹین مر گیا
یسپوف بظاہر تو چال چل گیا مگر حقیقت میں راسپوٹین کو مارنے میں ناکام رہا ہے۔ کائنات ارضی کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جس کو مارا گیا وہ حیات جاوداں پا گیا ہے اور مارنے والا مر کھپ گیا ہے۔ کوئی یہ بتا سکتا ہے کہ راسپوٹین کو مارنے والے کے نام سے کتنے لوگ واقف ہیں مگر مرنے والے کو ہر کوئی جانتا ہے۔ پھر کوئی کیسے کہہ سکتا ہے کہ راسپوٹین مر گیا ہے۔

راسپوٹین کئی شکلوں میں زندہ ہے اور اس کا خون بےشمار رگوں میں دوڑ رہا ہے۔ اس کی خصلتیں، اس کی بد ہیتی کے مظاہر جا بجا دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس کی بدبو کے بھبھوکے دنیا کے کونے کونے سے اٹھ رہے ہیں، جس سے آج ان گنت راسپوٹین پیدا ہوچکے ہیں اور اس امر کی بین شہادت کے طور اپنی بداعمالیوں اور شیطانیت کا اظہار کرتے ہیں کہ راسپوٹین اپنی تمام تر شرمناکیوں کے ساتھ موجود ہے اور موجود رہے گا۔ مقدس باپ کو مارا نہیں جا سکتا ہے۔

پاک سرزمین میں ایسے راسپوٹینوں کا شمار نہیں ہے جن کی بدخصلتوں اور وحشت کو دیکھ کر حقیقی راسپوٹین کی روح بھی کانپ اٹھے کہ اور گندی بکائی لے کر چیخ پڑے کہ حرام زادوں باپ سے بھی بدخصلت نکلے ہو۔ کہا جاتا ہے کہ راسپوٹین عمل توجہ یعنی ہپناٹزم کے ماہر تھے اور عورتوں کو ہپناٹز کر لیتے اور عورتیں برضا ورغبت کھینچی چلی آتی تھیں، زبردستی نہیں کرتے تھے۔ راسپوٹین کے پیروکار تو وحشت و درندگی کی تمام تر حدیں عبور کر جاتے ہیں۔ راسپوٹین نے کبھی کسی عورت کو قتل نہیں کیا تھا مگر راسپوٹین کے مقدس بیٹے آج دو سال سے پانچ سال تک کی بچیوں سے ریپ کر کے جان سے مار دیتے ہیں۔ صرف پچھلے دوسال کا ڈیٹا نکال کر دیکھیں، کتنی معصوم بچیوں کو درندگی کے بعد موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے۔ کس وحشت اور بربریت سے پھول اور کلیوں کے جسم نوچے گئے ہیں۔

درندے اور وحشی سب بظاہر راہب تھے۔ قصور کی زینب کو مارنے والے حافظ عمران سے لے کر گولڑہ شریف کے سگے بھائیوں تک کے چہرے یاد کریں جنہوں نے بہن کے خونی رشتے کو بھی شیطانیت کی بھینٹ چڑھایا۔ کتنے کیس سامنے آئے کہ مقدس باپ کے ہاتھوں بیٹیوں کی عزتیں تار تار ہوئی ہیں۔ زار اور زارینہ کی طرح سادہ لوح والدین شان و شوکت بڑھانے کے لئے تعلیم و تربیت اور خدائی مدد کے لئے اپنے بچوں کو مندر، مسجد اور گرجے میں بھیجتے ہیں۔ منتوں مرادوں کے لئے آستانوں پر لے جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ بیڑا پار ہوجائے گا، مگر وہاں شیطان پھندے لگا کر بیٹھے ہوتے ہیں۔ مندر، مسجد گرجے تو زد میں تھے ہی درگاہیں آستانے بھی لپیٹ میں آگئے ہیں۔ مقدسات سے ہٹیں تو سرکار میں بیٹھے ہوس زادوں کی کہانیاں راسپوٹین کو شرمندہ کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ پاک سرزمین پر راسپوٹینائزیشن کا عمل دور کی بات نہیں ہے۔ عہد دوراں کی کہانی ہے، جس کے مظاہر کھلی آنکھوں نے دیکھے ہیں۔

تصور کر سکتے ہیں کہ جس کے آپ ہاتھ چومتے ہیں، جس کو دیوتا مانتے ہیں، جس کے قیصدے پڑھتے ہیں، جس کو سر آنکھوں پر بیٹھاتے ہیں، جو اپنی سچائی اور دیانت داری کی قسمیں کھاتا ہے، اللہ اللہ کی گردان کرتا ہے، سجدے کرتا، ننگے پاؤں چلتا ہے، آپ تصور کرسکتے ہیں۔ اس مقدس باپ کی شیطانی نظریں کسرتی جسموں کی متلاشی رہتی ہیں۔ جس کی فطرت میں ہے کہ جب بھی نظر ڈالی بری نظر ڈالی ہے۔ ہپناٹزم اور کیا ہوتا ہے کہ ٹھنڈے گوشت پر بھی نوخیز جوانیاں منڈلاتی ہیں ایک آتی اور ایک جاتی ہے۔ زلیخا ہش ہش کر اٹھتی ہے۔ اور تم کہتے ہو کہ راسپوٹین مر گیا ہے۔ راسپوٹین زندہ ہے۔

مصنف ایک لکھاری اور صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے کارکن بھی ہیں۔