ٹائیگر فورس اور 'جرنیلی' چیک

ٹائیگر فورس اور 'جرنیلی' چیک
وہاڑی کے نواحی قصبے لُڈن سے تعلق رکھنے والے جاگیر دار سیاست دان میاں ممتاز دولتانہ قومی اسمبلی کے جس آبائی حلقے سے پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوتے چلے آرہے تھے، اس میں وہاڑی شہر پر مشتمل صوبائی حلقے سے ارائیں برادری کے ایک مڈل کلاس گھرانے کے میاں خورشید انور ایم پی اے منتخب ہوتے رہے جو بھٹو دور میں پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے تھے اور ایک وقت میں پنجاب اسمبلی میں ڈپٹی اپوزیشن لیڈر بھی رہے۔ ایک دفعہ ایک نجی محفل میں ایک واقعہ سناتے ہوئے انہوں نے کہا " کل میں ڈی سی سے ملا تو ڈی سی کہتا ہے میاں صاحب ، میں جب صبح آفس آتا ہوں تو میرے آفس کے باہر ایک میلا کچیلا آدمی ہاتھ میں پنسل اور ایک ڈائری سی پکڑے کھڑا ہوتا ہے جو میرے یہاں پہنچنے پر اس میں کچھ لکھنے لگ جاتا ہے"۔

میاں خورشید انور کے بقول انہوں نے قہقہہ لگاتے ہوئے ڈپٹی کمشنر سے کہا " اوہ اچھا ، وہ  . . .  " اور (ایک گالی دیتے ہوئے) کہا " یہ پیپلزپارٹی والے بڑے ... ہیں ، انہوں نے پورے ملک میں اپنے ورکروں کی ڈیُوٹی لگائی ہے کہ وہ اپنے اپنے شہر میں روزانہ سرکاری دفتروں پہ جا کر افسروں کے دفتر آنے کا ٹائم نوٹ کیا کریں۔ یہ پیپلزپارٹی نے بیوروکریسی پر چیک رکھا ہے یہ جو بندہ آپ کا ٹائم نوٹ کرتا ہے یہ پی پی پی کا ورکر جرنیل مراثی ہے"۔

" جرنیل مراثی " کا اصل نام تو شائد کچھ اور تھا لیکن وہ شہر کے چند مثالی" جیالوں " میں سے ایک تھا۔ لیکن فیوڈل کلچر کی وجہ سے اس کا یہی نام مشہور ہوگیا تھا۔ کیونکہ ایک انتہائی" عاجزی " والی کمیونٹی اور سماج کے سب سے زیادہ پسے ہوئے طبقے سے ہونے کے باوجُود پیپلزپارٹی کی عطا کردہ قوت کی بناء پر اس کے منہ پھٹ ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی دلیری کا یہ عالم تھا کہ اس نے ایک بار مقامی ڈی سی کو تھپڑ جڑ دیا تھا جس پر وہ " جرنیل مراثی " کے نام سے مشہور ہوگیا۔  ایسا نام جو اسے اس کی برادری اور اس کی "جرنیلی" جرات کے بظاہر متضاد امتزاج والی شخصیت کے حوالے سے دیا گیا۔

جس شدت کے ساتھ 1969 / 70 میں ملک گیر عوامی مقبولیت کے ساتھ پیپلزپارٹی ایک تحریک بن کے ابھری تھی اتنی ہی سرعت کے ساتھ جرنیل مراثی کی شہرت بھی شہر اور گردونواح میں پھیل چکی تھی۔ البتہ شہر کی راجپوت برادری کے ایک مقامی لیڈر راؤ وارث علی نے اس وقت بھری محفل میں " جرنیل مراثی " کو زور کا تھپڑ جڑ دیا تھا جب مقامی غلہ منڈی میں اپنی آڑھت کی دکان اور رہائش گاہ پر اس نے شہر کی سیٹ سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ایم پی اے تاج لنگاہ کو لنچ پر بلایا تھا۔ میزبان " ٹھاکر " نے مہمان لیڈر کے ساتھ آنے والے پارٹی کارکنوں میں جب جرنیل مراثی کو کھانے کے لئے آلتی پالتی مارے بیٹھا دیکھا تو غصے میں لپک کے اس کی طرف بڑھا اور ایک زوردار چماٹے سے اس کی "تواضع" کر ڈالی ۔ 

اپنے سکول کے زمانے کا یہ یادگار واقعہ اور یہ منظر مجھے ٹائیگر فورس کی لانچنگ پر بتائے گئے اس کے مینڈیٹ سے یاد آیا جس کے مطابق سرکاری جماعت کے ٹائیگرز محض کرونا کی وجہ سے جاری لاک ڈاؤن کے دوران نادار اور ضرورت مندوں کے گھر راشن پہنچانے ہی کے ذمہ دار نہ ہوں گے بلکہ ملک بھر میں یوٹیلیٹی سٹورز پر اشیائے ضرورت کی فراہمی ، صارفین سے وصول کی جانے والی قیمتوں ، ہسپتالوں میں علاج معالجے کی صورتحال اور وہاں مریضو‍ں کے ساتھ کئے جانے والے سلوک پر نظر اور انتظامیہ و عملے کی زیادتیوں پر چیک بھی رکھیں گے۔ جبکہ اس کے علاوہ مقامی ڈی سی کے ساتھ liaison میں رہتے ہوئے ضلعی انتظامیہ کے اور دیگر سرکاری افسران کا پبلک کے ساتھ کنڈکٹ " مانیٹر " کریں گے۔

مگر، بیوروکریسی پر کون چیک رکھ سکتا ہے؟ نہ بھٹو دور میں بیوروکریسی نے خود پر چیک رکھے جانے کے حکومتی تجربے کو کامیاب ہونے دیا نہ اب ہونے دینا تھا۔ جب بھٹو جیسا ملکی تاریخ کا طاقتورترین وزیراعظم بھرپور اور بے مثال عوامی حمایت کے باوجود بیوروکریٹس پر عوامی نگران بٹھانے میں کامیاب نہیں ہو سکا تو کوئی کمزور وزیراعظم کیا کر لیتا؟ شائد اسی لئے اس حوالے سے تنقید کے پیش نظر بیوروکریسی نے" کپتان " کی " ٹائیگر فورس " کے " سیاسی رضاکاروں " کو اپنی ماتحتی میں ڈیوٹی کرنے کے سرکاری نوٹیفکیشن کروانے شروع کر دیئے ہیں جیسا کہ پشاور کی ضلعی انتظامیہ نے ٹائیگر فورس کے رضاکاروں کے لئے حلف نامہ جاری کیا ہے تاکہ سیاسی کارکن اس نوآبادیاتی نظام کو چیلنج کرنے کی بجائے "بندے دے پُتّر" بن کے رہیں.