شاہد آفریدی کو ہلکا مت لیں۔ وہ 23 کی اوسط کے باوجود 400 میچ کھیلے ہیں

شاہد آفریدی کو ہلکا مت لیں۔ وہ 23 کی اوسط کے باوجود 400 میچ کھیلے ہیں
2018 کے الیکشن سے پہلے دنیا کے تقریباً ہر بڑے اخبار میں اس حوالے سے مضمون چھپتے رہے کہ پاکستان کا طاقتور طبقہ اور اس کے حواری اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے اپنے لاڈلے عمران خان کو وزیر اعظم بنانا چاہ رہے ہیں اور اس سلسلے میں مختلف طریقوں سے اس کے لئے راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ میں تقریباً ہرایسے مضمون کو اپنے فیسبک پر شیئر کرتا تھا تاکہ بہ وقت ضرورت سند رہے۔

میں سوچتا تھا اور اکثر اپنے دوستوں سے بھی ذکر کرتا تھا کہ اگر پوری دنیا یہ بات کر رہی ہے تو یہ طاقتور طبقہ بھی اتنا بے وقوف نہیں ہو سکتا کہ سب کے جاننے کے باوجود پھر بھی یہ عمران خان کو وزیراعظم بنا دے۔ ان دنوں چوہدری نثار سمیت بہت سارے آزاد امیدواروں کا چرچہ تھا جن کا انتخابی نشان جیپ تھا۔ سب لوگ ان جیپوں کو نامعلوم افراد والی جیپ قرار دیتے تھے۔ مجھے بھی لگتا تھا کہ سب لوگوں کی نظر تو ویسے بھی عمران خان پر ہے تو شاید چوہدری نثار کی قیادت میں آزاد امیدواروں اور چھوٹی موٹی سیاسی جماعتوں پر مشتمل کمزور مخلوط حکومت بن جائے۔ اس سے دگنا فائدہ ہوگا، ایک یہ کہ دنیا کو یہ تاثر ملے گا کہ پاکستان کے طاقتور طبقے کو ویسے ہی بدنام کیا جا رہا ہے اور دوسرا یہ کہ ایک کثیر الجماعتی کمزور مخلوط حکومت وجود میں آ جائے گی جس کو طاقتور حلقے آسانی سے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر سکیں گے۔

جب ساری دینا میں بدنام ہونے کے باوجود لاڈلے عمران خان کو وزیر اعظم بنایا گیا تو اس دن مجھے یقین ہو گیا کہ ان طاقتور حلقوں کو صرف اپنے مقاصد عزیز ہیں۔ یہ ساری بات کرنے کا مقصد نئے کپتان یعنی شاہد آفریدی کے بارے میں بات کرنا تھی جس کو آج کل وہی طاقتور حلقے اپنی شرٹ پہنا کر شہر شہر گھما رہے ہیں۔ کبھی معدنیات سے بھرے بلوچستان میں خیرات دینے تو کبھی کشمیر میں مودی کو دھمکیاں دینے لے جایا جاتا ہے۔ اکثر لوگ کہتے رہتے ہیں کہ عمران خان کے بعد یہ ایک اور پراجیکٹ ہے اور مستقبل کے وزیراعظم کے لئے ایک اور خان صاحب کو تیار کیا جا رہا ہے۔ میرے خیال میں یہ بالکل خارج از امکان نہیں ہے کیونکہ اقتدار اور دولت کا نشہ اتنا خطرناک ہوتا ہے کہ اس کے لئے لوگ کچھ بھی کر سکتے ہیں اور جو لوگ پاکستان میں اقتدار اور دولت کے نشے کے عادی ہیں، ان کی تو بات ہی کچھ اور ہے۔

یہ بالکل ممکن ہے کہ شاہد آفریدی کو وزیراعظم بنانے کے لئے تیار کیا جا رہا ہو کیونکہ انہوں نے اپنی ایک تقریر میں یہ بھی کہا ہے اگر میں وزیر اعظم بن گیا تو ملک سے بیروزگاری ختم کر دوں گا۔ بیروزگاری ختم کرنے جیسے کھوکھلے نعروں سے تو ویسے بھی موجودہ کپتان کے تجربے کے بعد ہوا نکل چکی ہے اور کوئی عقل والا بندہ اس نئے کپتان جیسے جذباتی بندے کے منہ سے نکلنے والی اس بات پر یقین نہیں کر سکتا۔

شاہد آفریدی کے اصلی سیاست کرنے سے کسی کو کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ سیاست ایک اہم اور ضروری چیز ہے اور ہر شہری کا حق ہے کہ وہ سیاست میں حصہ لے۔ میں تو یہاں تک کہوں گا کہ ہر شہری پر فرض ہے کہ سیاست میں حصہ لے کیونکہ ملک اور قوم کے مسائل کا حل سیاست کے علاوہ کسی چیز میں نہیں ہے۔ اکثر سیاست سے نابلد یا نالاں لوگوں کو سیاست میں دلچسپی پیدا کرنے کے لئے کہا جاتا ہے کہ شاید آپ کو سیاست میں دلچسپی نہ ہو لیکن سیاست کو آپ میں بہت دلچسپی ہے۔ اگر شاہد آفریدی واقعی اصلی سیاست کرنا چاہتے ہیں اور وزیر اعظم بننے کے خواب دیکھ رہے ہیں یا ان کو دکھائے جا رہے ہیں تو انہیں چاہیے کہ کسی سیاسی جماعت میں شامل ہو کر باقاعدہ سیاست کریں۔ اسی طرح کسی کے کندھوں پر بیٹھ کر کسی اور کے نعروں اور ترجیحات کو آگے لے کر سیاست کریں گے تو کرکٹ میں کمائی گئی عزت بھی کھو سکتے ہیں۔ اس بات کا ایک ثبوت یہ ہے کہ شاہد آفریدی کے بھارت کے خلاف بیانات کے بعد بھارتی کھلاڑی اور شاہد آفریدی کے پرانے دوست ہربھجن سنگھ نے کہا کہ ہم نے لوگوں سے اپیل کی تھی کہ کرونا وائرس کی وبا میں آفریدی فاؤنڈیشن کی مدد کریں لیکن بھارت کے خلاف بیانات کے بعد مجھے افسوس ہوا اور آج کے بعد میرا اور آفریدی کے درمیان کوئی تعلق نہیں۔ اس طرح کا بیان یوراج سنگھ کا بھی آیا تھا۔

اگر کرکٹ میں کارکردگی، شاہد آفریدی کی شخصیت اور اس کو سیاست میں لانے کی وجوہات کی بات کی جائے تو بقول پی سی بی کے امپائر ڈاکٹر سہیل ’’بہترین بیٹنگ اوسط پر عاصم کمال، فواد عالم ، قاسم عمر، وجاہت اللہ واسطی اور یاسر حمید کو بڑی بے اعتنائی کیساتھ باہر کر دیا گیا جب کہ موصوف 23 اور 18 کی ایوریج پر 400 میچ کھیل گئے۔ بات صرف کارکردگی کی نہیں تھی بلکہ کھیل کے نئے سٹائل کی بھی تھی جس سے مقصود صبر، برداشت سے کھیلنے کی بجائے مار دھاڑ کی عادت بھی لوگوں میں پیدا کرنا تھی۔ اسی مار دھاڑ کی کرکٹ نے نہ صرف کرکٹ کو برباد کیا بلکہ لوگوں کے رویوں پر بھی منفی نقوش چھوڑے۔ یہ کرکٹرز ہم پر اس لئے مسلط کر دیے جاتے ہیں کیونکہ ان کو اپنی قوم کی تاریخ، جغرافیہ، معاشرت، نفسیات، معاشیات اور پالیسی سازی بارے کچھ معلوم نہیں ہوتا۔ ان سے بات اور کام منوانا یا ان کی برین واشنگ کرنا سب سے آسان ہوتا ہے۔‘‘

مختصراً یہ کہ شاہد آفریدی کے بلؔے بازی کے انداز، بار بار ریٹائرمنٹ لے کر واپس آنے، مختلف سیاسی سرگرمیوں اور اس کی باقی طرز زندگی سے لگتا ہے کہ وہ ایک جذباتی انسان ہے اور اس کے فیصلوں میں زیادہ تر کردار جذبات کا ہوتا ہے، اس لئے ان سے درخواست ہے کہ جذبات میں کوئی بھی ایسا فیصلہ کرنے سے پہلے اس کو اچھی طرح سوچنا اور مشورہ کرنا چاہیے کیونکہ جس میدان میں وہ کود گئے ہیں تو اس میں جیت سے زیادہ بہت کچھ ہارنے کےامکانات ہے۔ باقی ان کی مرضی۔