• آن لائن اشتہاری ٹیرف
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • ہمارے لئے لکھیں
  • نیا دور انگریزی میں
پیر, مارچ 27, 2023
نیا دور
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
نیا دور
No Result
View All Result

ایک تماشہ لگا ہے جس میں وزیراعظم کو ارطغرل اور حزبِ اختلاف کو ابلیس کے کردار سے نوازا جاتا ہے

بیرسٹر اویس بابر by بیرسٹر اویس بابر
مئی 21, 2020
in بلاگ, تجزیہ, کورونا وائرس
2 0
0
کل سے ایک کروڑ 20 لاکھ خاندانوں میں 12 ہزار روپے فی خاندان تقسیم کریں گے، وزیراعظم
10
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on Whatsapp

کتنے افسوس کی بات ہے۔ اپنی عیدی جمع کرنے کے لیے حکومت نے دکانیں کھلوا دیں۔ یہ فیصلہ غریب کے لیے نہیں ہوا۔ اور اب تو ٹرین بھی چلنا شروع ہو گئی ہیں۔ شیخ صاحب کہتے ہیں کہ تنخواہ دینے کے پیسے نہیں ہیں۔ یعنی جن کو ہم اپنے مسائل حل کرنے کے لیے حکمران بناتے ہیں وہ ہم سے اپنے مسائل درست کروا رہے ہیں۔

یہ سب اپنی جگہ لیکن یہ کہنا بھی غلط نہ ہو گا کہ دنیا کی کوئی بھی حکومت کرونا وائرس جیسی آفت کے لیے غلطی سے مبرا حکمت عملی نہیں بنا سکتی۔ اس کی سب سے بڑی مثال امریکہ ہے جو اس وبا پہ قابو پانےمیں سب سے زیادہ ناکام رہا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جہاں سائنس کے بہت سارے شعبوں میں انسان نے ترقی کی ہے وہیں کئی شعبہ جات میں غفلت بھی برتی ہے۔ کرونا پہ بنیادی طور پر قابو اس لیے نہیں پایا جا سکا کہ قوم پرستی کی آڑ میں ترقی یافتہ ممالک کا سارا زور ہتھیار بنانے اور معیشت کو مضبوط کرنے میں لگایا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ترقی پزیر ممالک کی بھی ترجیحات یہی ہیں۔ پاکستان، انڈیا، ایران اور نارتھ کوریا اس کی نمایاں مثالیں ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ چند ایک ممالک ایسے بھی ہیں جو ایٹمی طاقت بننے کی سکت رکھتے ہیں لیکن انہوں نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ اپنی توانائی ان کاموں میں نہیں لگائیں گے جیسا کہ جاپان، ساؤتھ افریقہ اور جرمنی۔

RelatedPosts

‘اظہر مشوانی جبری گمشدگی کا شکار ہیں، کوئی اگر مگر قابل قبول نہیں’

عوام قدم بڑھائیں تو عاصم منیر کا کنواں، پیچھے ہٹیں تو عمران خان کی کھائی ہے

Load More

اگر لاک ڈاؤن نام کی کوئی چیز تھی بھی تو یہ عام طور پہ لوگوں نے رضاکارانہ طور پہ خود سے اپنے آپ کو محدود کر رکھا تھا۔ حکومت نے محض دکانیں بند رکھیں۔ اس کے علاوہ حکومت نے کوئی خاص کام کاج نہیں کیا۔ حکومت محض حکم دیتی رہی یا تبصرہ کرتی رہی۔ پچھلے دن خود ریلوے منسٹر شیخ رشید، عبدالمالک سے کہہ رہے تھے کہ لاک ڈاؤن تھا کب؟ لوگ تو پولیس کو رشوت دے کر کام چلا رہے تھے۔

یہ بات جھوٹ سے کم نہیں ہے۔ حکومت کی چاہے جو بھی پالیسی ہو انتظامیہ اور پولیس نے مل کر کافی حد تک لوگوں کو ایک جگہ اکٹھا ہونے سے روکے رکھا تھا۔ ہوٹل عمومی طور پر بند تھے اور 4 بجے کے بعد خریداری تقریباً ناممکن تھی۔ یہ حقائق عیاں تب ہوئے جب حکومت نے عین عید سے پہلے لاک ڈاؤن ختم کر دیا اور عوام کا جمِ غفیر سڑکوں پہ نکل آیا۔ ساتھ ہی ساتھ سپریم کورٹ نے دو دن کے لیے چھٹی اور پانچ دن کام کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی۔ سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ کیا تو صحیح بنیادوں پر ہے لیکن یہ ان فیصلوں میں سے ایک فیصلہ ہے جس کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی اور چونکہ میڈیا فیصلے کا صرف ایک حصہ چن کے لوگوں کو سامنے دکھاتا ہے، اور وہ ہمیشہ بغیر سیاق و سباق سے لیا جاتا ہے۔

اب تحریک انصاف نے سارا ملبہ سپریم کورٹ پر ڈال دیا ہے کہ دیکھا! ہم تو شروع سے لاک ڈاؤن کے حق میں نہیں تھے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وزیراعظم پاکستان کچھ غلط نہیں کہتے کہ ان کو غریب کی فکر ہے اور چونکہ اس ملک کا ایک بہت بڑا حصہ غریب ہے اس لیے حکومت کے لیے مکمل لاک ڈاؤن کرنا ممکن نہیں تھا۔ تو پھر کیا کیا جائے؟

وہ غریب جس کی وزیراعظم بات کر رہے ہیں وہ تو کرونا کی آمد سے پہلے بھی غرق تھا اور اب بھی غرق ہے۔ اصل میں وزیراعظم اس طبقے کی بات کر رہے ہیں جو پرائیویٹ سیکٹر میں تنخواہ دار طبقہ ہے۔ اور وہ ٹھیک کہتے ہیں کہ اگر لاک ڈاؤن لمبا کیا گیا تو ان کو تنخواہیں نہیں ملیں گی اور شاید ان کو نوکری سے بھی نکال دیا جائے۔ تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ لوگوں کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا جائے؟ حکومت قدم جو بھی لے خطرے کی بات یہ ہے کہ یہ حکومت کسی بھی چیز کی مکلمل ذمہ داری نہیں لیتی بلکہ تاویلیں دینے لگتی ہے۔ اور جب کوئی شخص یا ادارہ کسی معاملے کی مکلمل ذمہ داری نہ لے تو ان کی فیصلہ سازی میں وہی الجھاؤ نظر آتا ہے جو تحریک انصاف کی فیصلہ سازی میں نظر آ رہا ہے۔

اس میں سب سے نمایاں مثال وہ دن ہے جب وزیراعظم نے کہا کہ انہیں تو ٹی وی سے پتا چلا کہ روپے کی قدر اس قدر کم ہو گئی ہے۔ ان حالات میں بھی حکومتِ وقت کی ساری توجہ زرداری اور نواز شریف اور اس نظام پہ مکمل طور پر قابض ہونے پر ہے۔ یعنی کوئی خاص پروا نہیں ہے کہ لوگ مر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ ڈاکٹر حضرات کے لیے بھی کوئی خاص انتظام نہیں کیا گیا جن کے بغیر اس وبا سے لڑنا ناممکن ہے۔

خیبر پختونخواہ میں صرف پشاور ہی ایسا شہر ہے جہاں بہترین ڈاکٹر اور اچھے ہسپتال ہیں۔ ان میں سے ایک ہسپتال بھی ایسا نہیں ہے جو تحریک انصاف نے بنایا حالانکہ وہ 7 سال سے یہاں حکومت کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ پورے صوبے کے ہسپتال چاہے وہ پرائیویٹ ہوں یا سرکاری، اتنہائی اوسط درجے کے ہیں۔ تو تحریک انصاف کا یہ کہنا کہ وہ باقیوں سے مختلف اور بہتر ہے محض ایک جملہ ہے، جس کا حقیقت سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ہے۔

اب تحریک انصاف کی توپوں کا رخ سندھ کی جانب ہے۔ صوبہ سندھ نے کرونا کی آمد پر اپنے تمام دستیاب ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے اقدام لیے اور چیف منسٹر کی ناصرف عالمی میڈیا نے تعریف کی بلکہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائیزیشن نے بھی تعریف کی۔ ان اقدامات کو جاری رکھنے کے لیے مزید ذرائع اور رقم درکار تھی جو کہ صرف مرکز مہیا کر سکتا ہے۔ اور چونکہ سندھ وہ واحد صوبہ ہے جہاں تحریک انصاف کی حکومت نہیں ہے اس لیے مرکزی حکومت پیسے دینے میں مسائل کھڑے کر رہی ہے۔ باقی صوبوں کو پیسے نہ بھی ملیں تو کوئی خاص مسئلہ نہیں ہو گا۔

کبھی کبھی مجھے ایسے لگتا ہے کہ آج جو پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نواز کھڈے لائن لگے ہوئے ہیں اس کے ذمہ دار بھی یہ خود ہی ہیں۔ جب نواز شریف اور بے نظیر بھٹو نے میثاق جمہوریت کیا کہ اب سے وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کے ایک دوسرے کی حکومت نہیں گرائیں گے تب سے خان صاحب کو تیار کرنا شروع کر دیا گیا۔ پھر آصف علی زرداری نے اگلا قدم اٹھایا اور اٹھارہویں ترمیم آئی جس کے تحت کئی شعبہ جات بشمول تعلیم اور صحت صوبوں کو دے دیے گئے اور صوبوں کو ملنے والی رقم زیادہ ہو گئی۔ یعنی نظام کو صوبائی خودمختاری کی جانب دھکیلا جا رہا تھا۔ اور جیسے جیسے صوبے خود مختار ہوتے جاتے ویسے ویسے اسٹیبلشمنٹ کے لیے سیاسی پارٹیوں کو کنٹرول میں رکھنا مشکل ہوتا جاتا اور ہو چکا تھا۔

اب تحریک انصاف بحکمِ سیاسی الہیٰ واپس نظام کو اس جانب لے کر جارہی ہے کہ جہاں ایک ریموٹ کنٹرول سے سب کچھ اوپر نیچے کیا جا سکے۔ چونکہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی ابھی بھی اچھی خاصی گرفت ہے اس لیے مرکز ان کے پیسے کم یا بند کر کے کسی طرح پیپلز پارٹی کو نیست ونابود کرنا چاہتا ہے۔ مگر کیا یہ ان چیزوں کا وقت ہے؟ ایسا کرنے سے نقصان کس کا ہو گا؟ سندھ میں رہنے والے لوگوں کا۔ کیا وہاں جہاں پسندیدہ لوگوں کی حکومت نہ ہو وہاں کے لوگوں کے ساتھ ریاست یہ برتاؤ کرے گی؟ سیاست کرنے کے لیے بہت وقت پڑا ہے لیکن حکومتِ وقت نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ کرونا وائرس کو لے کے کوئی واضح حکمت عملی نہیں بنائے گی سوائے چندہ مانگنے کے اور لوگوں کر مرنے کے لیے چھوڑنے کے۔

ایک تماشہ لگا ہوا ہے جس میں روزانہ وزیراعظم کو ارطغرل اور حزبِ اختلاف کو ابلیس کے کردار سے نوازا جاتا ہے۔ ڈرامے کی ہر قسط میں وہی کردار ہیں اور وہی کہانی جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ خان صاحب کے پاس بہترین موقع ہے کہ کرونا کے مسئلے کو بھرپور توجہ دے کر یہ ثابت کر دیں کہ ان میں بے پناہ صلاحیتیں ہیں۔ اگر وہ محض تاویلیں دیتے رہے کہ مجھے غریب کی فکر ہے وغیرہ وغیرہ، تو شاید پھر تاویلیں ہی دیتے رہ جائیں گے۔ اگر واقعی میں غریب کی فکر ہے تو ڈھونڈیں اس غریب کو اور اس تک روٹی پہنچائیں۔ اس کو بے یار و مدد گار نہ چھوڑیں۔

Tags: پاکستانتحریک انصافعمران خانکرونا وائرس
Previous Post

آصف علی زرداری کی موت کی افواہ: ‘میں خود کو قرنطینہ کیئے ہوں’

Next Post

وفاقی وزرا کے حکومت مخالف بیانات، کیا کھچڑی پک رہی ہے؟

بیرسٹر اویس بابر

بیرسٹر اویس بابر

Related Posts

پی ٹی آئی والوں کو تشدد اور ناانصافی تبھی نظر آتی ہے جب ان کے اپنے ساتھ ہو

پی ٹی آئی والوں کو تشدد اور ناانصافی تبھی نظر آتی ہے جب ان کے اپنے ساتھ ہو

by ایمان زینب مزاری
مارچ 25, 2023
0

یہ اُس کے لیے بھی جواب ہے جو ہر پارٹی سے ہو کر پی ٹی آئی میں شامل ہوا اور آج شاہ...

عوام قدم بڑھائیں تو عاصم منیر کا کنواں، پیچھے ہٹیں تو عمران خان کی کھائی ہے

عوام قدم بڑھائیں تو عاصم منیر کا کنواں، پیچھے ہٹیں تو عمران خان کی کھائی ہے

by عبید پاشا
مارچ 24, 2023
0

کئی برس پہلے عمران خان کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں وہ یہ دعویٰ کرتے سنائی دے رہے تھے کہ...

Load More
Next Post
وفاقی وزرا کے حکومت مخالف بیانات، کیا کھچڑی پک رہی ہے؟

وفاقی وزرا کے حکومت مخالف بیانات، کیا کھچڑی پک رہی ہے؟

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

No Result
View All Result

ایڈیٹر کی پسند

ہائبرڈ دور میں صحافت پر حملے؛ ذمہ دار عمران خان یا جنرل باجوہ؟ (پارٹ 1)

ہائبرڈ دور میں صحافت پر حملے؛ ذمہ دار عمران خان یا جنرل باجوہ؟ (پارٹ 1)

by شاہد میتلا
مارچ 22, 2023
1

...

معاشی لحاظ سے پاکستان کس طرح خود انحصاری حاصل کر سکتا ہے؟

معاشی لحاظ سے پاکستان کس طرح خود انحصاری حاصل کر سکتا ہے؟

by ہارون خواجہ
مارچ 18, 2023
1

...

عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین جاری کھیل آخری مرحلے میں داخل ہو چکا؟

عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین جاری کھیل آخری مرحلے میں داخل ہو چکا؟

by رضا رومی
مارچ 20, 2023
0

...

توشہ خانہ فہرست شریف خاندان میں دراڑ نہیں، شاہد خاقان کی علیحدگی کا اعلان ہے

توشہ خانہ فہرست شریف خاندان میں دراڑ نہیں، شاہد خاقان کی علیحدگی کا اعلان ہے

by مزمل سہروردی
مارچ 15, 2023
1

...

جنرل فیض حمید

نواز شریف کو نکالنے کے ‘پروجیکٹ’ میں باجوہ اور فیض کے علاوہ بھی جرنیل شامل تھے، اسد طور نے نام بتا دیے

by نیا دور
مارچ 14, 2023
0

...

Newsletter

ہماری مدد کریں

ٹویٹس - NayaDaur Urdu

نیا دور کے صفِ اوّل کے مصنفین

پیٹر جیکب
پیٹر جیکب
View Posts →
حسن مجتبیٰ
حسن مجتبیٰ
View Posts →
عرفان صدیقی
عرفان صدیقی
View Posts →
نجم سیٹھی
نجم سیٹھی
View Posts →
نبیلہ فیروز
نبیلہ فیروز
View Posts →
محمد شہزاد
محمد شہزاد
View Posts →
توصیف احمد خان
توصیف احمد خان
View Posts →
رفعت اللہ اورکزئی
رفعت اللہ اورکزئی
View Posts →
فوزیہ یزدانی
فوزیہ یزدانی
View Posts →
حسنین جمیل
حسنین جمیل
View Posts →
مرتضیٰ سولنگی
مرتضیٰ سولنگی
View Posts →
اسد علی طور
اسد علی طور
View Posts →
ادریس بابر
ادریس بابر
View Posts →
رضا رومی
رضا رومی
View Posts →
علی وارثی
علی وارثی
View Posts →

This message is only visible to admins.
Problem displaying Facebook posts.
Click to show error
Error: Server configuration issue

خبریں، تازہ خبریں

  • All
  • انٹرٹینمنٹ
  • سیاست
  • ثقافت
کم از کم اجرت 20 ہزار، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ: بجٹ 2021 پیش کر دیا گیا

اقتدار کے ایوانوں سے جلد کسی ‘بڑی چھٹی’ کا امکان ہے؟

اکتوبر 31, 2021
ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

اکتوبر 27, 2021
بد ترین کارکردگی پر الیکشن نہیں جیتا جاسکتا، صرف ای وی ایم کے ذریعے جیتا جاسکتا ہے

ای وی ایم اور انتخابات: ‘خان صاحب سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ لینے کے لیئے بے تاب ہیں’

اکتوبر 24, 2021

Naya Daur © All Rights Reserved

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English

Naya Daur © All Rights Reserved

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In