سیاہ فام امریکی اور ہم دیسی سیاہ فام : ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے

سیاہ فام امریکی اور ہم دیسی سیاہ فام : ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے
پاکستان میں ایک عجیب المیہ یہ ہے کہ ہر اچھا یا بُرا کام فیشن کہ طور پہ کیا جاتا ہے۔ آسان الفاظ میں یہ کہ بابوُ! جیسی ہوا چل رہی ہے بس ویسا ہی کر ڈالو۔ امریکا میں جیسے ہی ایک سیاہ فام امریکی جارج فلائڈ کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت پر امریکا اور دُنیا بھر میں احتجاج شروع ہوئے تو مظلوموں کی ہمدرد پاکستانی قوم بھی لرز اُٹھی۔ اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ پاکستانی قوم کا جوش قابلِ رشک اور دیدنی ہے۔ اس زندہ قوم کہ سپوتوں نے دھڑا دھڑ فیسبُک پہ اس سانحے کی مذمّت کی تو کسی نے ٹویٹ پہ ٹویٹ دے ماری اور ہاں انسٹاگرام پر بھی سب کی تصویریں اچانک ہی سیاہ ہو گئیں۔ ڈر تو اس بات کا تھا کہ کہیں یہ فیسبُک کو ہی آگ نہ لگا ڈالیں۔ شوبز سے تعلق رکھنے والے جعلی افلاطونوں کی تو میں بات ہی نہیں کر رہا کیونکہ انکی کاپی پیسٹ بیانات سے اس ملک پر ویسے ہی کوئی فرق نہیں پڑنا۔
مگر اپنے اُن تمام دوستوں کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ جو تعلیم یا امیگریشن کی غرض سے امریکا میں مقیم ہیں اور آج کل حد سے زیادہ انسانی حقوق کہ علمبردار بنے بیٹھیں ہیں۔

افسوس اس بات کا ہے کہ پاکستانی اپنے مُلک میں ہوں یا کہیں بیرونِ ملک، ان میں سے زیادہ تر اُس وقت بے حِسی کا مُظاہرہ کرتے رہے جب انکے اپنے مُلک میں ہزاروں نہتے جارج فلائیڈ مارے جا رہے ہوتے ہیں اور ستم ظریفی یہ ہے کے اُس وقت یہ تمام لوگ ظالم کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں۔ تب زیادہ تر تو یہی فرماتے ہیں کہ کچھ تو کیا ہے جو پولیس نے مارا ہوگا۔
صرف راوؤ انوار نے ہی چار سو سے زائد جارج فلائڈ دے مارے، پچھلے سال ساہیوال میں جارج فلائیڈ کو اسکے خاندان سمیت مارا گیا جبکہ اُسکے ننھے بچے پولیس کی اس بربریت کا مظاہرہ دیکھتے رہے۔ اس سے زیادہ بولوں تو بلوچستان کہ کئی نوجوان سیاسی رہنما اس سے بھی ذیادہ بربریت سے مارے گئے۔
اگر کراچی کے جارج فلائیڈوں کا ذکر کروں تو ایک لمبی فہرست ہے، حالانکہ کراچی میں مارے جانے والے جارج فلائیڈوں کا ذکر تو اسکے اپنے لوگ نہیں کرنا پسند کرتے تو آپ جیسے ممی ڈیڈیوں سے مجھے کوئی اُمید بھی نہیں۔ یہاں تو لوگوں نے PhD بھی کیا تو ایسے جارج فلائیڈوں پر جن پر ریسرچ کرنے سے وہ خود کو “کوُل” ثابت کر سکیں وگرنہ حیدراآباد کہ پکا قلعہ کی خون ریزی ہو یا قصبہ کالونی میں مارے جانے والے سینکڑوں، ظلم کی ایک کھُلی کتاب ہے۔
اس شہر میں تو وقاص نامی جارج فلائیڈ ہزاروں میں تھے اور انھیں مجمعے کہ آگے مارا گیا مگر نہ اُسکے اپنے بولے نہ آپ جیسے گھروں پہ اے سی کی ہوا میں بیٹھے ہوئے برگر لوگ۔ اپنے ضمیر کو مُطمئن کرنے کہ لئے یہی جُملہ تھا آپ کہ پاس کہ کچھ تو کیا ہے جو قانون نافظ کرنے واکے اداروں نے مارا ہے۔ اور ہاں کراچی بوٹ بیسن پر مارے جانے والا وہ بلوچ نوجوان یاد ہے؟؟ سابق صدر ممنون حسین نے اپنے خُصوصی اختیار کہ تحت اُسکے قاتل کی سزا بھی معاف کر چُکے ہیں۔
پاکستان کہ تمام علاقوں کا ذکر ہو ہی رہا ہے تو خیبر پختون خواہ کہ قبائیلی علاقوں سے اُٹھنے والی تحریک پشتون تحفظ موومنٹ کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے۔۔ اُن کے حوالے سے لاکھ غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹیں مگر یہ ضرور جاننے کی کوشش کیجیے گا کہ یہ پشتون نوجوان کیوں اپنے گھروں سے نکلے ہیں؟ انکے چاہنے والوں اور قوم پر کس نے ظلم کیا ہے اور پھر یہ غدّار صحیح مگر کن غداروں نے ووٹ دے کر انکے رہنماوں کو اسمبلی تک پہنچایا۔ میرا ذاتی اختلاف اپنی جگہ مگر اس تحریک کی جدوجہد میں کچھ تو سچائی ہے۔

گزارش بس یہ ہے کہ اپنے ارد گرد نظر رکھیں۔  جو آنکھیں اپنے اپنے ہم وطن جارج فلائیڈ کہ لئیے بند کی ہوئی ہیں اُنھیں کھولنے کا وقت ہوا جاتا ہے۔ امریکی جارج فلائیڈ کے ماورائے عدالت قتل پر ضرور مذمت کریں مگر ساتھ ساتھ اپنے گھر کے مظلوموں کا دکھ بھی سمجھیں۔ بات دور تک جا چکی ہے۔ سینکڑوں لوگوں کو ہتھ کڑی لگا کر قتل کرنے والا پاکستان میں مرتے دم تک مطمئن زندگی گزارتا ہے۔ نہ عدالت انصاف کرتی ہے اور نہ آپ لوگوں کی زبانیں، میرا مطلب سوشل میڈیا پر لگائی جانے والی مذمتی پوسٹیں۔
آخر میں ایک گالی بلکہ دعا اُن تمام “کول” صحافیوں پر جو جارج فلائیڈ اور ہماری منافقت پر محض توجہ دِلانے پر ایک بہتریں کالم نگار پر “خوامخوا” تنقید کر رہے ہیں۔
واٹس ایپ پر موجود بزرگ بھی سن لیں امریکا کی تباہی اُنکی زنگی میں مُمکن نہیں۔
موضوع کہ اعتبار سے انقلابی شاعر فیض احمد فیض کے اشعار لکھنا بھی لازمی سمجھتا ہوں :

قتل گاہوں سے چن کر ہمارے علم
اور نکلیں گے عشاق کے قافلے
جن کی راہ طلب سے ہمارے قدم
مختصر کر چلے درد کے فاصلے
کر چلے جن کی خاطر جہانگیر ہم
جاں گنوا کر تری دلبری کا بھرم
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے