امریکی عہدیداران ہم سے صلاح لیں، یہاں عوامی تحریکوں کو دبانے کا کام تسلی بخش کیا جاتا ہے

امریکی عہدیداران ہم سے صلاح لیں، یہاں عوامی تحریکوں کو دبانے کا کام تسلی بخش کیا جاتا ہے
امریکہ کے شہر منی ایپلس میں ایک سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کی پولیس والے کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد احتجاجی مظاہروں کا تسلسل اور پھر ملک کے فوجی سربراہ کا فقط ایک جاری کردہ تصویر پر قوم سے معافی مانگنا،’آمری جمہوریت‘ کی چھاؤں تلے ہم جیسے پروان چڑھنے والوں کے منہ حیرت سے کھل چکے ہیں۔

حیرانگی اس بات پہ کہ آخر کیوں یہ لاکھوں لوگ ایک ’کالے‘ کی موت کے بعد پولیس سے آنسو گیس اور ربڑ کی گولیاں کھانے کے لئے اتاؤلے ہو رہے ہیں؟ اگر مرحوم جارج فلائیڈ کسی سیاسی خاندان کے چشم و چراغ ہوتے تو بھی سمجھ میں آتی کہ مقصد سیاست چمکانا ہے، تعلق کسی مذہبی گروہ سے ہوتا تو گمان کرتے کہ ہمدردی بٹورنے کا کوئی چکر وکر ہے، کسی طاقتور ادارے کی نوکری کر رہے ہوتے تو خیال کیا جاتا کہ رفقا ادارے کی قربانیوں کو لازوال کرنے کے مشن پر نکلے ہیں۔ پر یہاں تو 46 سال کے اس سیاہ فام کی موت پر ہنگامہ برپا ہے جس کا گزر بسر ایک ہوٹل میں سکیورٹی گارڈ کی نوکری پر تھا۔

اگر ہمارے ملک میں اس قسم کا مجرم پولیس اہلکار کے گھٹنے تلے دبا ہوتا تو پولیس والے کو اس کی فرض شناسی پر داد دینے کا جی چاہتا جب کہ سانس بند ہونے کی وجہ کو قدرت کا فیصلہ گردانا جاتا۔

پر جانے یہ کون لوگ ہیں جو سیاہ فام امریکیوں اور فلائیڈ کو انصاف کی فراہمی کے لئے سڑکوں پر ہلکان ہوتے پھر رہے ہیں۔ شکر ہے اس قسم کا 'عوامی شعور‘ ہمارے ملک نہیں پایا جاتا ورنہ یہاں پر بھی سڑکوں پر ’بلوچ لائیوز میٹر‘ یا ’پختون لائیوز میٹر‘ کے نعرے بلند کرنے کے لئے نہ تو ظالموں کی کمی ہے اور نہ ہی مظلوموں کی۔

مظاہرین سے نمٹنے کی صدر ٹرمپ کی حکمت عملی پر بات کی جائے تو جانے کیوں صدر ٹرمپ اس واقعے سے صدمے میں جانے کے بعد بھی مظاہرین کو گولیاں مارنے یا ان پر خونخوار کتے چھوڑنے کے متمنی نظر آئے۔ کیا ہی بہتر ہوتا اگر وہ اس معاملے میں ہمارے خان صاحب سے صلاح کرتے۔ پولیس اہلکار کا فلائڈ کی گردن کو اپنے گھٹنے سے دبائے رکھنے کا منظر ہر گز اتنا دہشت ناک نہیں تھا جتنی درندگی ساہیوال میں کم سن بچوں کے سامنے ان کے والدین کو گولیوں سے چھلنی کر کے دکھائی گئی۔ پر خان صاحب کی فطانت دیکھیں، انہوں نے عوام کے منہ میں ملزمان کو عبرت ناک انجام تک پہنچانے کی ایسی چوسنی ڈالی کہ عوام ابھی تک اس کی ’چاشنی‘ کو یاد کرتے ہیں۔

ریاست کو اس کا یہ فائدہ ہوا کہ وہ پولیس کے محکمے میں اصلاح کے وعدے کو گول مول کر گئی اور واقعے میں ملوث سکیورٹی اہلکار بھی بری ہو کر امید ہے مزید ’شکار‘ کی نیت باندھتے پھرتے ہوں گے۔

خیر اب بات کرتے ہیں جائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل مارک مائیلی کی معافی کی۔ ہوا کچھ یوں کہ یکم جون کو وائٹ ہاؤس کے باہر ایک پرُامن مظاہرہ کیا جا رہا تھا۔ مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے شیلنگ کی گئی، جس کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے وہاں کا دورہ کیا۔ اس موقع پر ان کے ساتھ جنرل مائیلی موجود تھے۔ دورے کی تصاویر جاری ہوئیں جن سے جنرل صاحب کو لگا کہ وہ فوج کے داخلی سیاست میں ملوث ہونے کا منفی تاثر ابھارنے کے مرتکب ہوئے ہیں۔ بس پھر کیا تھا، جنرل صاحب کیمرے کے سامنے آن کھڑے ہوئے اور معافی طلب کرنا شروع کر دی۔

ایسے مناظر دیکھ کر سب سے پہلے تو خدا کا یہ شکر ادا کرنا چاہا کہ ہمارے یہاں کبھی کوئی جرنیل معافی مانگنے کی بدعت و خرافات میں نہیں پڑا ورنہ دشمنان کے سامنے ہمارا کیا بھرم رہ جاتا؟ کاش مارک صاحب بھی معافی مانگنے سے پہلے سوچ پاتے کہ ان کی اس حرکت سے ان کے ادارے کے مورال پر کیا بیتے گی؟ چلیں انہیں اپنی اور اپنے ادارے کی پروا نہیں تھی تو اپنے ان ’ہم عصروں‘ کا ہی خیال کر لیتے جن کی خدمات گاہے گاہے لینی پڑتی ہیں۔

بھلا دنیا کے سپرپاور ملک کے فوجی سربراہ کے لئے نہتے مظاہرین سے جان جھڑانا کونسا مشکل کام تھا؟ ایک آدھ کو گھر سے اٹھا کر خاطر مدارت کرتے، ایک آدھ کو دفتر میں مہمان نوازی کا شرف بخشتے، نہیں تو بھرے مجمعے میں جا کر لفافے تھماتے۔ معاملہ ٹھںڈا کرنے کی داد بھی ملتی۔ لیکن یہاں تو الٹا چیف صاحب احتیاط کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے اپنے فوج کے اعلیٰ عہدیداروں کو بھی ہدایت کر رہے ہیں کہ کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے فوج کے ملکی سیاست میں ملوث ہونے کا تاثر پیدا ہو۔

خیر یہ سوچیے، جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے بعد امریکہ میں جو کچھ ہو رہا ہے، اگر پاکستان میں ایسا کچھ ہو رہا ہوتا تو ہمارے ادارے کہاں کھڑے نظر آتے؟

کمانڈر انچیف ایوب خان کے ہاتھ میں عسکری قیادت ہوتی تو اعلان ہو چکا ہوتا کہ ملک شدید بحران کی طرف جا رہا ہے لہٰذا ان کو مجبوراً مداخلت کرنا پڑ رہی ہے۔ اس قسم کی ایجی ٹیشن سے نمٹنے کے لئے جنرل یحییٰ خان سے بہتر امیدوار کون ہو سکتا تھا؟ مظاہرین سے نمٹنے کے بعد شاید جنرل ٹکا خان کو یاد کرنے کے لئے صرف بنگلہ دیش کے قصائی کا حوالہ نہ دینا پڑتا۔

جنرل ضیا الحق کو نہ صرف ریاست کو للکارنے والوں کی پیٹھیں لال کرنے کا سنہرا موقع مل جاتا بلکہ وہ تو کامیابی سے مخالف دھرنے کو ملک کے عوام سے بھی بے خبر رکھ پاتے۔

جنرل اسلم بیگ تو خوش اسلوب حل کے لئے انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ساتھ تاجروں کی بھی خدمات حاصل کرتے نظر آتے۔ جب کہ جنرل وحید کاکڑ سے حکومت اور مظاہرین کے درمیان شٹل ڈپلومیسی کی سہولت لی جا سکتی۔ جنرل مشرف نہ صرف مظاہرے کرنے والوں کی طرف مکے لہراتے بلکہ مطلع بھی کرتے کہ ان کو وہاں سے ہٹ کیا جائے گا، پتہ بھی نہیں چلے گا۔

جنرل کیانی اس صلاحیت سے ﺑﮩﺮہ مند ہوتے کہ ایک فون پر احتجاج کی نیت باندھنے والوں کو واپس کیسے لوٹانا ہے۔

افسوس ہے مارک نائلی پر کہ اپنے ہاتھ سے اتنا نادر موقع گنوا دیا۔ انہیں ہمارے سے رابطہ کرنا چاہیے تھا۔ ہم تو وہ خوش قسمت قوم ہیں کہ ہمارے وطن عزیز کا قانون نہ صرف خود اندھا، گونگا، بہرہ اور اپاہج ہے بلکہ ہمیں بھی بنا چکا ہے، ورنہ خروٹ آباد سانحہ، باغ ابن قاسم میں رینجرز کے ہاتھوں نوجوان کی ہلاکت، نقیب اللہ محسود کا جعلی پولیس مقابلہ، سانحہ ساہیوال جیسے واقعات کی ایک طویل فہرست ہے جن میں ہمیں بھی انصاف طلب کرنے کی ضرورت پڑتی۔

لکھاری ایک نجی چینل سے وابستہ ہیں۔