بلوچ عورتوں کہ قتل پر ایوانوں میں خاموشی کیوں؟

بلوچ عورتوں کہ قتل پر ایوانوں میں خاموشی کیوں؟
مجھے خاموشیوں سے ہمیشہ گلہ رہا ہے۔ دوسروں کی بھی اپنی بھی۔ خاموشی مظلوم کے لئے کیسی ہے؟ مجھے لگتا ہے جییسے پتھروں کی بارش سے گزر جانا۔ زبان پر کانٹے پڑجانا۔ تپتی ہوئی دھوپ میں آبلے زندہ پیروں کے کوئی لمبا سفر طے کرنا۔

مگر مجھے خود سے گلہ ہے کہ میں نے اس خاموشی کا پیرہن بہت عرصے تک زیب تن رکھا۔ شاید زباں پر آبلے تھے اور ضمیر کمزور۔

تو میں نے قلم اٹھا لیا۔ "ظالم کے دشمن اور مظلوم کے حامی رہنا" علی ابن ابی طالب کی آخری وصیت نے مجھے اس بات کو کہنے پر آمادہ کردیا اور احساس دلایا  کہ ہاں ہم بھی ظلم کہ خلاف آواز اٹھانے میں  "سیلیکٹو" ہیں۔

آج فیس بک کھولا تو ایک السٹریشن پر نظر پڑی۔ چلاتی ہوئی  ایک عورت، آنکھوں میں خوف، جیسے کسی کا سب کچھ اسکے سامنے لٹ رہا ہو اور وہ بے بس ہو۔ نام کلثوم لکھا تھا اور لباس سے بلوچ۔ دل ڈوب گیا۔ سارے ٹویٹر پر ڈھونڈا، اخباروں کو چھانا، کوی خبر نہ ملی۔ فیمینیسٹ سرکلز کو کھنگال ڈالا، سوائے عورت کی آزادی کی پوسٹس کہ سوا کچھ نہ ملا۔

 

مگر میں نے تو سنا تھا کہ عورتوں کہ حقوق کی جنگ جاری ہے؟ بڑے بڑے ایوانوں میں عورت کہ حقوق کی خاطر بل پاس ہورہے ہیں، ریلیاں نکل رہی ہیں۔  لیکن بات اگر آزادی خیال سے آگے نہیں بڑھ رہی تو شاید کہیں عورتوں کہ حقوق کی علمبردار خواتین و حضرات کی تحقیق میں کوئی کمی رہ گئ ہے۔ میں جتنا اس تحریک کہ ساتھ ہوں اتنا ہی اس سے مخالف بھی۔ بات تو تب ہوتی ہے جب مکمل ہو، ادھوری ہو تو اس کی نا کوئی وقعت ہے نہ اثر۔

میں چاہتی ہوں کہ ان ایوانوں میں بلوچ عورتوں کی بات ہو، انکی بات ہو جن کے پلیکارڈ پر انکے بھائی، باپ، بیٹوں کی تصویریں ہیں اور آہیں اور سسکیاں کی آوازوں میں گونجتے نعروں سے بھی بلند ہوچکی ہیں۔ جنکی آواز میں زینبی خطبہ کی جھلک ہے کہ یہ آوازیں کتنے ہی وقت یزیدوں کہ تخت اور دربار کے ستونوں کو ہلا کر رکھ دیتی ہے۔

نہیں، یہ مائیں بہنیں بیٹیاں خود کشی نہیں کرتیں، یہ قتل کردی جاتی ہیں۔ کلثوم کی طرح، برمش کی طرح، زندہ درگور کردی جاتی ہیں، حسیبہ کی طرح۔

تاریخ نے کئی بار دکھایا کہ باپ کہ سامنے بیٹے کا گلہ کاٹا گیا یا بہن کی سامنے بھائی کا، لیکن تاریخ کے سفاک سے سفاک ترین صفحات میں بچوں کی سامنے ماں کا گلہ کٹتے نہیں دیکھا۔

میں صحافی تو ہوں، لیکن ایک ماں بھی ہوں۔ مجھے معلوم ہے کہ میرے وجود پر ایک ضرب بھی میری اولاد کہ لئے قیامت سے کم نہیں ہوتی۔ لیکن بچوں کہ سامنے ماں کو بے دردی سے قتل کردینا؟ کیا کسی  قیامت صغریٰ سے کم ہے؟

کچھ دن قبل ملک ناز بلوچ کو بیٹی برمش کی سامنے دانوک میں بے دردی سے قتل کردیا گیا اور آج کلثوم کو کیچ میں بچوں کہ سامنے ذبح کردیا گیا۔

واقعہ دیکھا تو بہت آنکھوں نے لیکن نہ تو تاریخ لکھنے والوں کہ قلم حرکت میں آے اور نہ خبر رساں کی آواز بالاے حدود شہر پہنچی۔

تو کیا بلوچ کی تاریخ نہیں لکھی جائے گی، کیا انکی کربلا کوئی تحریر نہیں کرے گا؟  کیا انکا نوحہ کوئی نہیں سنے گا۔

لیکن ظلم سے بہ جانے والے خون کی بھی ایک تاثیر ہے۔ جب رگوں سے نکل کر بہ جاتا ہے تو مٹی اپنے سینے پر یہ تاریخ رقم کر لیتی ہے۔ پھر 1400 سال گزر جانے کہ بعد بھی دنیا حسین کو یاد رکھتی ہے۔

آج کلثوم کا لہو بہ گیا، دنیا خاموش رہی، لیکن مٹی بے وفا نہیں ہوتی، وہ لکھ لیتی ہے۔ بھولتی نہیں۔ پھر چاہے ساری دنیا خاموش ہوجائے، مظلوم کا لہو خاموش نہیں ہوتا۔

میں نے تو ابھی مسخ شدہ لاشوں کا ذکر کیا نہ لٹتی ہوئی عزتوں کا۔ شاید میرے قلم میں اتنی طاقت اور ذہن میں اتنی وسعت نہیں۔ شاید ابھی بھی میرے قلم کی کچھ حدود ہیں۔

ہاں اکثر مجھے کچھ آنکھیں جن میں خوف کا سرمہ لگا رہتا ہے چلا کہ کہتی ہیں ۔

"بولتے کیوں نہیں میرے حق میں

آبلے پڑ گئے زباں میں کیا؟ "