15جولائی ترک جشن جمہوریت میں گزر گیا مگر بلوچستان ہمیں یاد نہ رہا

15جولائی ترک جشن جمہوریت میں گزر گیا مگر بلوچستان ہمیں یاد نہ رہا
بلوچستان بلوچستان کا رٹ لگانا یا غیرمناسب الفاظ میں  رونا اب بلوچستانیوں کی عادت بن چکا ہے اور یہ ذہنی معذور لوگ کبھی ملکی وسیع دائرے تک سوچ بھی نہیں سکتے، انھیں ہر بات پر دیوار کے ساتھ لگنے کی عادت ہو چکی ہے۔ یہ باتیں سننا بالکل ویسے ہی اب اہلِ بلوچستان کے لیے معمول بن چکا ہے جیسے بلوچستان سے متعلق شکوے باقی الیکٹرانک میڈیا کے متاثرین غیربلوچستانیوں کے لیے۔

چوں کہ کل 15 جولائی تھا، ملکی الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر بیٹھے وسیع تر سوچ رکھنے والے جمہوریت پسند، اہلِ دانش و قلم عوام نے جمہوریہ ترکی کے ساتھ برادرانہ و جمہوریت پسندی کی مشترکہ سوچ رکھنے کی وجہ سے بھرپور جوش و جذبے کے ساتھ اسے منایا اور ترک عوام کو خوب داد دی. جنھوں نے 2016 کو آج ہی کے دن ترک مسلح فوج کے ٹینکوں کے سامنے لیٹ کر مارشل لا کے نفاذ کو ناکام بنایا تھا۔ ترک عوام نے اس دن ثابت کیا تھا کہ انھیں آمریت کسی بھی صورت قبول نہیں اور ہر حال میں ترکی ایک جمہوری ملک ہی رہے گا۔

ترک فوج بھرپور تیاری کے ساتھ شہروں میں اتر چکی تھی۔ انقرہ اور استنبول جیسے بڑے شہروں کے کنٹرول سنبھالنے اور رجب طیب اردغان کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے تیار تھی کہ عوامی مزاحمت نے انھیں پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا اور یوں ترک فوج ہار گئی اور عوام جیت گے، جسے کل ہم نے یہاں پاکستان میں انتہائی خوشی کے ساتھ یاد کر کے اپنے جمہوریت پسند ہونے اور عوامی طاقت کو ہی طاقت ماننے کا اظہار کیا۔ جس پر ہمارے وزیراعظم عمران خان نے ترک عوام کی تعریف بھی کی۔

مگر ہماری جمہوریت پسندی بھی یک طرفہ نکلی، یعنی ترکی کے لیے ہمیں عوامی طاقت اور جمہوریت پسند ہے مگر اپنے لیے خاموشی۔ بالکل ویسے جیسے ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے ہمیں بابری مسجد چاہیے مگر اسلام آباد کے ہندوؤں کے لیے مندر ہرگز برداشت نہیں۔ یا پھر یوں ہو سکتا ہے کہ گھر کی مرغی دال برابر؟ مگر ایسا بھی نہیں۔ کیوں کہ جمہوریت کا سہرا تو ہر وفاقی پارٹی اپنے سر لینا چاہتی ہے۔

کل ہی کے دن یعنی 15 جولائی 1960 کو ایوب خان کے مارشل لا کے خلاف بغاوت کرنے والے بلوچ بزرگ رہنما نواب نوروز خان کے سات ساتھیوں کو پھانسی دی گئی تھی اور عمررسیدہ اس بزرگ شخص کو جیل میں موت دے دی گئی۔ مگر یہاں جمہوریت خاموش رہی۔

اب چوں کہ ملک میں جمہوریت قائم ہے، کسی قسم کے مارشل لا کا کوئی خوف نہیں اور بقول سیاسی رہنماؤں کے ادارے بھی ملک میں جمہوریت کے حامی ہیں تو کم از کم جمہوریت کی یاد میں اور فوجی آمریت کے خلاف بغاوت کی یاد میں اگر قومی سطح پر نہ سہی تو صوبائی سطح پر یہ دن منایا جاتا۔

1959 کو ایوب خان کی آمرانہ سوچ کے خلاف بغاوت کا اعلان کر کے یہ بزرگ بلوچ رہنما اپنے ساتھیوں سمیت پہاڑوں پر گئے تو انھیں قرآن پاک کو ضامن بنا کر مطالبات تسلیم کرنے کی یقین دہانی کروائی گئی اور بعد میں گرفتار کر کے غداری کی پاداش میں بٹے خان زرکزئی، سبزل خان زرکزئی اور غلام رسول نچاری کو سکھر جیل میں جب کہ جمال خان زہری، مستی خان موسیانی، ولی محمد زرکزئی اور بہاول خان موسیانی کو حیدرآباد جیل میں جمہوریت کی پاداش اور حقوق کی خاطر تختہ دار پر لٹکایا گیا اور بزرگ رہنما کو جیل کی کالی کوٹھڑی میں قید کر کے موت دے دی گئی۔ کیا یہ دن مزاحمت کی علامت نہیں؟

گزشتہ دنوں بلوچستان سے قومی اسمبلی کے نمائندہ اختر مینگل نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ بلوچستان کو یا تو مفتوع یا مقبوضہ کہا جائے کیوں کہ بلوچستان کو اپنانے کا عملی ثبوت تاحال تو بالکل بھی دکھائی نہیں دے رہا۔ اب تک بلوچستان کے وسائل اور زمین پر فخر کیا جاتا ہے لیکن بلوچ مشکوک ہیں، جمہوریت کے لیے مزاحمت ترکی میں ہو تو اچھی ہے لیکن بلوچستان سے نہیں۔

یہاں تک کہ ہماری وہ مذہبی جماعتیں جن کو اسلام ہمیشہ خطرے میں لگتا ہے، قرآن مجید اور ناموسِ رسالت کے بچاؤ کے لیے ہر وقت اسٹیج سنبھالے، جھنڈے اٹھائے کمر بستہ تیار کھڑی ہیں، وہ تمام مذہبی جماعتیں ہی کم از کم 15 جولائی کو حرمتِ قرآن مجید کے لیے کوئی کانفرنس، ریلی یا پروگرام منعقد کرتیں تاکہ پھر کوئی آمر یہ جرات نہ کرتا کہ قرآن مجید کی جھوٹی قسم کھاتا۔

شاید اسی لیے بلوچستان میں اب تک میڈ ان پاکستانی مُلا، میڈ ان پاکستانی جمہوریت و سوشلسٹ، پاکستانی صحافت و فیمینسٹ کی اصطلاحات موجود ہیں جن کا مطلب ہے ناقابلِ بھروسہ۔ اگر ایک ہی لفظ جمہوریت، ایک ہی قسم کی مزاحمت اور ایک ہی تاریخ 15 جولائی پر دو مختلف زاویے اس لیے ہیں کیوں کہ ایک کا تعلق سات سمند پار ترکی سے ہے اور دوسرا ناک کے نیچے بلوچستان سے، تو خلا تو باقی رہے گا۔

لکھاری بلوچستان کے شہر گوادر سے تعلق رکھتے ہیں اور صحافت کے طالبعلم ہیں۔