مندر، گوتم بدھ کا مجسمہ اور ریاست مدینہ

مندر، گوتم بدھ کا مجسمہ اور ریاست مدینہ
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم بحیثیت قوم ایک بند گلی میں داخل ہوتے جا رہے ہیں اور یہ فیصلہ ہم نے آج نہیں کیا بلکہ اس ملک کی تشکیل کے کچھ عرصے بعد ہی کر لیا تھا۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی بے وقت رحلت کے بعد اس پر کام شروع کیا گیا تھا۔ بابائے قوم قاہد اعظم محمد علی جناح نے دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا آج کے بعد آپ اپنے مندوں گردوارے اور گرجوں میں جانے میں آزاد ہیں۔ قاید اعظم ایک وژن رکھنے والے  قائد تھے۔

دنیا ایسے ہی انکو بابائے قوم نہیں کہتی تھی۔ وہ ریاست کو سیکولر بنیادوں پر چلانا چاہتے تھے۔ انہیں کوئی ابہام نہیں تھا کہ ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ آپ  بطور حکمران مسند اقتدار پر جب براجمان ہوتے ہیں۔ آپکی نظر میں تمام شہری برابر ہوتے ہیں۔ آپ اپنا کام بلا امتیاز و رنگ ونسل کرتے ہیں ۔ مگر جناح صاحب کے بے وقت رحلت نے اس ملک کو بہت نقصان پہنچایا۔ ہم نے اپنی نظریاتی اساس کو بدل دیا وزیراعظم لیاقت علی خان ایک مقبول عوامی قاہد تھے اور اس ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالنے کے لئے پرعزم تھے ۔مگر بد قسمتی سے ان سے مذہبی بنیادوں پر قراداد مقاصد کی شکل میں ایک غلط فیصلہ ہو گیا، جب لاہور میں پہلی بار احمدیوں کے خلاف دنگا فساد اور قتل عام ہوا۔

اس کے بعد جسٹس منیر کی انکوائری رپورٹ منظر عام پر آگئی۔ جس میں واضح طور پر لکھا تھا اگر آج مذہبی بنیادوں پر ہونے والے فسادات کا سدباب نہ کیا گیا تو سپولا کل کو شیش ناگ بن جائے گا۔ مگر افسوس ہماری ہیت مقتدرہ نے اس پہلو پر کوئی توجہ نہیں دی۔ آج یہ شیش ناگ ہمارے ہر شہر کے چوراہے پر اپنا پھن پھیلائے کھڑا ہے۔ اور اس ضمن میں مجرمانہ خاموشی اختیار کی گئی۔ کیونکہ ہیت مقتدرہ نے فیصلہ کر لیا تھا کہ ہمارے سماج کی ساخت کیا ہو گی اور ان خوفناک نتائج کی پروا نہ کی جن پر آج ہمارے معاشرے کی تشکیل ہو چکی وہ بہت خطرناک ترین بن چکی ہے۔

اس کا ثبوت ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ ۔پچھلے دو ہفتوں کے  اخبارات کا مطالعہ کر کے دیکھ لیں پہلے اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کے خلاف بعد میں تخت بائی میں آثارِ قدیمہ کی عمارت پر حملہ کر کے گوتم بدھ کا مجسمہ توڑ دیا گیا۔  یہ دونوں واقعات ہمارے سماج کی ساخت بتانے کے لیے کافی ہیں ۔بھارت میں بابری مسجد یا کسی طرح سے مسلمانوں پر حملے ہوں تو ایک شور برپا ہو جاتا ہے کہ وہاں اقلیتوں پر حملے ہو رہے ہیں لیکن ہم نے کبھی اپنا گریبان چاک کرنے کی کوشش نہیں کی اگر بھارت میں اقلیتوں کو تحفظ نہیں تو کیا پاکستان میں ہے ۔اہک مندر تو ہم سے برداشت ہوتا نہیں کیا اسلام آباد میں بسنے والے ہندو پاکستان کے شہری نہیں  ہیں آخر ہم انکو کیوں نہیں برداشت کرتے انکے بنیادی حق کو کیوں نہیں تسلم کرتے کہ انکی عبادت گاہ ہونی ضروری ہے ۔

بھارت امریکہ اور یورپ میں کس قدر مساجد آباد ہیںَ ۔ بلکہ یورپ اور امریکہ میں تو نماز جمہ کے لیے کی گرجے وقف کر دیئے جاتے ہیں۔ مہذب اور غیر مہذب معاشروں میں ہی فرق ہوتا ہے۔ جہاں برداشت تحمل مزاجی اور تعاون کی فضاء ختم ہو جائے وہاں کچھ بھی محفوظ نہیں رہتا۔ ایک لمحے کےلئے سوچیں کہ بھارت سری لنکا نیپال میں کوئیی مذہبی جنونیوں کا گرہ کسی مسجد یا درگاہ کا تقدس پامال کرے تو ہمارے جذبات مجروح نہیں ہوں گے۔ کیا تخت بائی میں گوتم بدھ کا مجسمہ توڑنے سے بدھ مت کے ماننے والوں کے جذبات مجروح نہیں ہو رہے۔ ایک مندر بنانا ہم سے برداشت نہیں ہو رہا سندھ میں ہندو لڑکیوں کی جبری مذہب تبدیل کرایا جاتا ہے۔

ہم کو بطور قوم سوچنے کی ضرورت ہے جن لوگوں نے گوتم بدھ کا مجسمہ توڑا ہے انکی گرفتاری تک بات ختم نہیں ہونی چاہیے بلکہ انکو سزا بھی ملنی چاہیے۔ سماج میں ایک مثال قائم کرنے کے لیے یہ بہت ضروری ہے۔ مدینے کی ریاست کی اصل روح ہی ہے کہ اقلیتوں کا تحفظ کیا جائے ہمیں اس بند گلی سے نکلنا ہوگا جہاں برداشت کا فقدان ہے۔

حرف آخر رکن قومی اسمبلی خواجہ آصف اور وفاقی وزیر فواد چوہدری کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں۔ جنہوں نے جرآت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس مذہبی جنونیوں کے خلاف آواز بلند کی۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔