کمرہ عدالت میں قتل، ذمہ دار ریاست اور حکمران طبقات ہیں

کمرہ عدالت میں قتل، ذمہ دار ریاست اور حکمران طبقات ہیں
ریاست، حکومت اور سیاسی جماعتوں کا بیانیہ ہی عوام کے جذبات اور رجحانات کی تعمیر کرتا ہے۔ رجحانات اور بیانیہ عوام تخلیق نہیں کرتے اور نہ ہی عوام کا مجموعی شعور کسی بیانیہ کی خود بخود پیروی کرتا ہے۔ سماج کی بہتر تعمیر اور رہنمائی کے لئے مذہبی اور سیاسی جماعتیں تشکیل دی جاتی ہیں جو معاشرے کی رہنمائی کے لئے لیڈر شپ تیار کرتی ہیں۔ جس سے معاشرہ میں پائی جانے والی محرومیوں کی نشاندہی کر کے دور کیا جاتا ہے اور معاشرے کلی تعمیر وترقی کے لئے اقدامات اٹھائے جاتے ہیں۔ جس معاشرے کو بہتر اور مضبوط قیادت نصیب ہو وہی معاشرے تہذیب اور ترقی یافتہ بنتے ہیں۔

معاشروں کو فکر سیاسی قیادت دیتی ہے اور فکر ترقی ہی بہتر قوم کی تعمیر کرتی ہے۔ پشاور ہائیکورٹ میں جج کے سامنے لگی عدالت میں قتل اس امر کی نشاندہی ہے کہ ریاست بالخصوص اور بالمعموم حکومت اور سیاسی جماعتیں اس قتل کی ذمہ دار ہیں۔ مذہبی طبقات، معاشرہ اور کوئی دوسرا عنصر اس سانحہ کا ذمہ دار نہیں ہو سکتا ہے۔

کمرہ عدالت میں آکر قتل کرنے والا نوجوان کسی جماعت کا لیڈر ہے اور نہ کارکن یا نمائندہ ہے بلکہ ایک نوعمر پندرہ سالہ لڑکا ہے۔ ایسے ہی ایک نوجوان نے کلاس روم میں اپنے ہی استاد کو قتل کردیا تھا۔ استاد کا قتل انتہائی سنگین اور تشویشناک سانحہ تھا۔ اس پر بھی ریاست خاموش رہی۔ وزیراعظم نے نوٹس نہیں لیا۔ افسوس کے لئے مقتول استاد کے گھر جانا تو درکنار سیاسی قیادت نے مذمت تک نہیں کی تھی۔ ریاستی، حکومتی اور سیاسی قیادت کے رویے سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ حکمران طبقات کو عوام سے کوئی سروکار نہیں ہے۔

اسلامی نظریاتی کونسل اور وزارت مذہبی امور جن کا خاص فرض ہے مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔

دوسری جانب علما حق بخوبی آگاہ ہیں کہ ماورائے عدالت قتل کا کوئی بھی مذہبی و اخلاقی جواز نہیں ہے اور فرد واحد کا عمل کسی بھی لحاظ سے درست نہ ہے۔ اس کے باوجود علما حق نے بھی چپ سادھ رکھی ہے۔ حالانکہ حق پر بات کرنے سے خوف کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ علما حق پر یہ عین فرض تھا کہ وہ اس سانحہ پر لب کشائی کرتے اور عوام میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کیا جاتا اور اسلام کی حقیقی تشریح کی جاتی مگر بدقسمتی سے مذہبی جنونیت کے لئے کھلی چھٹی کو ہی سب طبقات نے قبول کرلیا ہے۔

آستانے جو امن، صلح اور مذہبی رواداری کے مراکز ہیں وہاں بھی مذہبی جنونیت کا عنصر غالب ہے۔ علما مشائخ نے اپنا حقیقی فریضہ ادا کرنے کی بجائے عمومی جذبات کو اپنی بقا اور سلامتی خیال کر لیا ہے اور عوام کے مذہبی رجحانات کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اہل فکر طبقہ کی جانب سے ردعمل بھی اس ماحول میں کارگر ثابت نہیں ہوتا ہے بلکہ مذہبی جنونیت زیادہ ابھرتی ہے۔ حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہیں کیا گیا ہے۔ سنگین اور تشویشناک صورتحال اس امر کی شہادت ہے کہ ملک پاک میں آج سیاسی، مذہبی اور سماجی قیادت کا شدید فقدان ہے اور پاکستانی عوام قیادت سے سو فیصد محروم ہیں۔ قیادت سے محروم طبقات، سماج اور قوموں کے رویے ایسے ہی ہوتے ہیں جو ہمیں معاشرے میں آج نظر آتے ہیں۔

سانحہ پشاور سمیت کئی دوسرے رونما ہونے والے سانحات میں افراد معاشرہ بے قصور ہیں۔ شدت، انتہا پسندی، عدم برداشت اور فروغ پاتی مذہبی جنونیت کے ذمہ دار سیاسی، مذہبی لیڈر، ریاست اور حکمران ہیں جو محض اپنی سیاست اور ہوس اقتدار کے لئے مشغول ہیں۔ جو کسی بھی طور پر رہنما نہیں ہیں بلکہ بیوپاری ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان جو کچھ دن پہلے خود کو قوم کا باپ کہہ رہے تھے۔ انہیں بھی کچھ نظر نہیں آیا کہ ماورائے عدالت قتل ملکی آئین اور قانون کے مطابق سنگین ترین جرم ہے۔

مصنف ایک لکھاری اور صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے کارکن بھی ہیں۔