دو سو روپے کا شیر

دو سو روپے کا شیر
پچھلے سال ستمبر میں مرغزار چڑیا گھر اسلام آباد میونسپل کارپوریشن سے لے کر وزارت ماحولیات کو دیا گیا۔ جس دن اس فیصلے کو عمل میں لایا گیا اس دن میں وزیر مملکت برائے ماحولیات زرتاج گل وزیر کا انٹرویو کرنے ان کے دفتر گیا۔ دوران انٹرویو محترمہ نے مجھے بتایا کہ چڑیا گھر کا عملہ شیروں کے لئے گوشت خرید کر خود کھا جاتا ہے اور شیروں کو برائیلر مرغیاں کھانے کو دی جاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کی وزارت اس چڑیا گھر میں بڑی تبدیلی لے کر آئے گی اور عوام خود۔ اسے محسوس کریں گے۔ میں نے پوچھا کہ ان کا لائحہ عمل کیا ہے کیونکہ اسلام آباد کے لوگ اس ڈر میں تھے کہ شاید اب چڑیا گھر کی ٹکٹ اور دیگر سہولیات کی فیس بڑھ جائے گی۔ محترمہ نے کہا کہ لائحہ عمل ابھی میڈیا کو بتانا قبل از وقت ہوگا۔

تاہم، ان کا یہ پوشیدہ لائحہ عمل نو ماہ بعد اسلام آباد کے باسیوں کے سامنے آ گیا جب اس سال جولائی کے آخری ہفتے میں مرغزار چڑیا گھر کے شیروں کا جوڑا ہلاک ہو گیا۔ سوشل میڈیا پہ گردش کرتی ہوئی ویڈیو میں یہ واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ دو آدمی ان شیروں کو ڈنڈوں سے مار رہے ہیں اور ان کے پنجروں میں آگ لگا رہے ہیں۔ وہ یہ اس لئے کر رہے تھے کہ یہ شیر دوسرے پنجرے میں چلے جائیں لیکن شیر ان کی بات نہ سمجھ سکے اور اس ساری مڈ بھیڑ میں وہ زخمی ہو گئے اور پھر ایک ایک کر کے مر گئے۔

عالمی دنیا اس ظلم بے جا پہ انگشت بدنداں ہے۔ تھانہ کوہسار اسلام آباد میں گذشتہ جمعرات کو شیروں کے نگہبانوں کے خلاف ان غریب جانوروں کو قتل کرنے کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ مقدمے کی رو سے اگر پولیس ان کا جرم ثابت کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو قانون کے مطابق قاتلوں پر دو سو روپے جرمانہ اور چھ ماہ کی قید کی سزا بنتی ہے۔ تاہم، وہ یہ دو سوروپے جرمانہ بھی شاید نہ دیں کیونکہ وہ یہ ثابت کریں گے کہ شیر ایک حادثے میں مر گئے۔

جب سے وزارت ماحولیات نے چڑیا گھر کا چارج سنبھالا ہے اس کے کئی جانور مر چکے ہیں اور باقی اس حال میں ہیں کہ اسلام آباد کی عدالت عالیہ کو حکم صادر کرنا پڑا کہ انہیں محفوظ مقام پہ منتقل کیا جائے۔ یہ شیر بھی عدالتی احکامت کے تحت اسلام آباد سے لاہور منتقل کیے جا رہے تھے۔ اس سے پہلے مرغزار چڑیا گھر کے اکلوتے ہاتھی کو کمبوڈیا منتقل کیا گیا تھا۔ یہ اکلوتا ہاتھی شاید ڈکٹیٹر ضیاالحق کی صاحبزادی کو بطور تحفہ دیا گیا تھا۔ شیروں کی کی موت کی خبر سن کے میرے دل میں یہ ملال تھا کہ شاید یہ شیروں کا وہی جوڑا نہ ہو جن کے چار نوزائیدہ بچے دو سال پہلے ہلاک ہو گئے تھے۔ ان کی ہلاکت کی وجہ انہیں پاؤڈر ملک پلانا تھا۔

اسلام آباد وائلڈ منیجمنٹ بورڈ کی یہ ذمہ داری ہی کہ وہ ان جانوروں کی صحت و سلامتی کو یقینی بنائے۔ اس بورڈ کے چیئر مین ڈاکٹر انیس الرحمان ہیں۔ ڈاکٹر انیس الرحمان نے ایک فون کال کے ذریعے اس بات کی تصدیق کی کہ جو چار بچے دو سال قبل ہلاک ہوئے، وہ اسی بدقسمت شیروں کے جوڑے کے تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ شیروں کو پنجروں سے منتقل کرنے والے افراد کی نشاندہی ہو چکی ہے لیکن ویڈیو میں جو کچھ نظر آرہا ہے اور شیروں کی موت کی وجہ دو مختلف چیزیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ آنے والی ہے جس میں شیروں کی موت کی اصل وجہ معلوم ہو جائے گی۔

گذشتہ سال جب میں وزیر مملکت برائے ماحولیات کا انٹرویو کرنے گیا تھا تو ان کی سیکرٹری مس حنا نے مجھے تین گھنٹے پہلے بلا لیا تھا۔ ان تین گھنٹوں میں انہوں نے مختلف جگہوں سے کئی اور صحافی بھی ایک کمرہ نما کیبن میں اکٹھے کر لیے۔ پھر ان سب کو تقریباً ایک ہی وقت میں وزیر صاحبہ کے کمرے میں منتقل کیا گیا۔ میں حیران تھا کہ وزیر موصوف نے اس مس منیجمنٹ پہ اپنی سیکرٹری کی سرزنش کی یا نہیں۔ وزارت کے مختلف لوگوں سے غیر رسمی بات چیت کے دوران پتہ چلا کہ یہ ان دونوں کہ کام کرنے کا خاص اصلوب ہے۔

البتہ وزیر اعظم کے مشیر برائے ماحولیات امین اسلم ایک سنجیدہ طبعیت کے مالک ہیں اور ماحولیات سے متعلق کئی کامیاب منصوبوں کے پیچھے ان کی محنت کارفرما ہے۔ انہوں نے شیروں کی ہلاکت اور چڑیا گھر سے متعلق دیگر امور پہ ایک تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی ہے۔ وہ ٹیم کیا کر پائے گی یہ دیکھنے سے پہلے ہمیں اس امر کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ انہی کی وزارت کے کچھ لوگوں نے میڈیا میں یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ یہ سخت موسم جانوروں کی منتقلی کہ لئے مناسب نہیں تھا۔ یعنی کہ اس ہلاکت کا ایک کھوکھلا جواز گھڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

تحقیقات میں یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ چڑیا گھر کو وزارت موسمیات کو سونپنے کہ پیچھے کیا محرکا تھے۔ یہ بات درست ہے کہ میئٍر اسلام آباد شیخ عنصر پہ کرپشن کے بہت الزامات لگے ہیں لیکن کیا میئر کی کرپشن کی وجہ سے پوری میونسپل کارپوریشن کو نااہل کہا جا سکتا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ جانور اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے کسی ایک وزیر کی جھوٹی انا کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں؟ یہ وہی وزیر ہیں جو بنی گالا کی صاف صفائی کا خیال رکھتے ہیں اور مرغزار چڑیا گھر کے مسئلے کو لے کر وفاقی کابینہ پہنچ گئے ہیں۔

مصنف دی نیوز اسلام آباد میں کیپیٹل کالنگ کے عنوان سے کالم لکھتے ہیں۔