کشمیرکی جہد آزادی، ہندوستان کیلئے دہشتگردی

کشمیرکی جہد آزادی، ہندوستان کیلئے دہشتگردی
پاکستان کی تاریخ اپنی ابتدا ہی سے اندرونی اور بیرونی بحران اور خلفشار سے دوچار رہی ہے اوردیکھا جائے تو ہمارا حال بھی ماضی سے کچھ مختلف نہیں ہے۔ اب تک بھارت کے ساتھ چار جنگیں لڑ چکنے کے بعد آج بھی ہم بھارت کے ساتھ سرحدی جھڑپوں میں مبتلا ہیں جو سلسلہ تقریباً پچھلے چار برسوں سے جاری ہے۔ یہ سرحدی جھڑپیں ان دونوں ممالک کی تاریخ میں ایک نیا سنگ میل ہیں جو ہمارے اس عزم کی نشاندھی کرتا ہے کہ ہم امن کے قیام کی تمام کوششوں کو ناکام بنانے میں کس قدرمستقل مزاجی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

 

پاکستان اور بھارت کے مابین جاری سرحدی جھڑپوں میں (اکتوبر 2016 سے لیکر مئی 2020 تک) 325 افراد پاکستان میں  اور 222 افراد ہندوستان میں ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ دونوں ممالک میں زخمی ہونے والوں کی تعداد ان اعداد سے دوگنی سے بھی زیادہ ہے۔  بھارت میں واقع ہونے والے دو دہشت گرد حملے دراصل پاک بھارت سرحدی جھڑپوں کی ابتدا کاباعث بنے تھے۔ یہ حملے جنوری 2016 میں پٹھان کوٹ ایئر فورس اڈے پر اور ستمبر 2016 اوڑی آرمی بیس پرہوئے تھے جس نے بھارت کویہ یقین دلایا کہ اس کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ہے۔ الزام تراشی سے شروع ہونے والی بات جلد ہی سرحدی جھڑپوں تک جا پہنچی۔ ایک دفعہ جوسرحدی جھڑپوں کا سلسلہ شروع ہوا تووہ آج تک جاری ہے۔

 

تمام جنگوں کی طرح ، ان سرحدی جھڑپوں میں بھی فوجیوں کے ساتھ ساتھ عام شہری بھی ہلاک ہوئے اور ابھی تک وہ سلسلہ جاری ہے۔  پاکستان میں ہلاک ہونے والے 325 افراد میں سے 196 افراد (60٪) عام شہری اور 128 سیکیورٹی اہلکار تھے۔ اس کے برعکس ، بھارت نے 65 شہریوں (30٪) اور 157 سیکیورٹی اہلکاروں سے محرومی کا سامنا کیا۔  کیا ہندوستانی افواج نے جان بوجھ کر اپنے دشمن ملک میں معاشرتی بدامنی پیدا کرنے کے ارادے سے پاکستان کی سیکیورٹی فورسز سے زیادہ شہری آبادی کو نشانہ بنایا؟  دوسری طرف ، بھارت میں شہری ہلاکتوں کی کم تعداد کیا اس پاک افواج کی اس احتیاطی تدابیر کا نتیجہ ہیں جو عام شہریوں کو نشانہ بنانے سے محفوظ رکھنے کیلئے کی گئیں؟

سینکڑوں انسانی جانوں اور وسائل کو ضائع کرنے کے بعد آج بھی  یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ یہ تنازعہ کب اورکیسے ختم ہوگا؟  پاکستان اور ہندوستان میں جوغالب رائے عامہ ہے وہ اس قدرمتضاد اور ایک دوسرے کے مفادات کے خلاف ہے کہ اس میں باہمی تنازعات کے پرامن خاتمے کیلئے کسی بھی کوشش کی کامیابی کی کوئی گنجائش دکھائی نہیں دیتی۔ حالانکہ دونوں ممالک کے رہنما تنازعہ کشمیر کے پر امن حل کیلئے اکثر نہایت گرمجوشی کا مظاہرہ کرتے ہوے دکھائی دیتے ہیں۔

دونوں ممالک کی رائے عامہ میں موجود اس تفریق کی سب سے بڑی وجہ دھشتگردی ہے جو اعتماد سازی اور امن کے قیام کیلئے کی جانے والی ہر کوشش کو اسکی ابتدا میں ہی ناکامی سے دوچار کردیتی ہے۔  دہشت گردی کا ہر عمل خواہ وہ ہندوستان میں ہو یا پاکستان میں اس کے نتائج دونوں ممالک کو ایک دوسرے سے نہ صرف دور کرتے ہیں بلکہ ان میں ایک دوسرے سے نفرت کے جذبات کو بھی ابھارتے ہیں جو دوستانہ اور پرامن بقائے باہمی کے تمام امکانات کو دھندلاکرکے رکھ دیتے ہیں ۔ پچھلے چار سالوں کے دوران ہندوستان اور پاکستان میں ہونےوالے دہشت گردی کے تمام واقعات کا اگر تفصیلی جائزہ لیا جائے توہمیں کچھ اندازہ ہوسکے گا کہ پاک بھارت تعلقات میں پائی جانے والی کشیدگی کے پیچھے دھشت گردی کے واقعات نے کس قدراہم کردار ادا کیا ہے۔

سن 2016 سے مئی 2020 تک ، بھارت نے کشمیر میں دھشتگردی اور انسداد دھشتگردی کی کارروائیوں سے 1294 افراد کی ہلاکتوں کی اطلاع دی ہے۔ یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ ہندوستان جسے دھشتگردی قرار دیتا ہے، پاکستان اسے کشمیری مسلمانوں کی تحریک آزادی کہتا ہے۔ چونکہ اس کالم کا مقصد ان دو متضاد خیالات میں سے کسی کے دعوے کو غلط یا صحیح قرار دینا نہیں، اس لئے وہ تمام واقعات اور حالات جو اس مضمون میں پیش کئے گئے ہیں وہ ان  اطلاعات پر مبنی ہیں جو ان دونوں ممالک  کے اخبارات میں شائع ہوئے۔ مقصد یہ ہے کہ ان حالات کی تصویر کشی کی جائے جو دونوں ممالک کے ابلاغ عامہ اپنے عوام کو دکھاتے ہیں اور اس کے نتیجے میں جس قسم کی زہنیت جنم لیتی ہے اس کا جائزہ لیا جاسکے۔

ہندوستانی اخبارات کے مطابق ، بھارتی فورسز کی جانب سے سیکیورٹی کارروائیوں کے دوران مقبوضہ کشمیر میں پچھلے چار برسوں میں قریب 800 دھشتگرد موت کے گھاٹ اتارے گیئے، باقی 494 افراد میں عام شہری (151) اور سیکیورٹی اہلکار (340) تھے جو مختلف قسم کے مسلح حملوں کا نشانہ بنے تھے، مثلاً دستی بم دھماکے ، بارودی سرنگیں کا پھٹنا، خودکش حملے، اغوا اور قتل یا پھر ٹارگٹ کلنگ وغیرہ۔

 

ہندوستانی پریس مسلسل یہ دعویٰ کرتا رہا کہ سیکیورٹی کارروائیوں میں ہلاک ہونے والے افراد دھشتگرد تھے، لیکن پاکستانی میڈیا نے انہیں بطورحریت پسند پیش کیا۔ چونکہ مقبوضہ کشمیر کے متاثرہ علاقوں تک آزادانہ رسائی موجود نہیں، اس لئے ہندوستانی پریس میں شائع شدہ معلومات پر انحصار کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھنے والے دھشتگردوں میں سب سے زیادہ متاثرین کا تعلق لشکر طیبہ (134افراد) سے تھا ، اس کے بعد حزب المجاہد (105) ، جیش محمد (86) ، انصار الغزوہٌ الہند (16) ، البدر اور القاعدہ (6افراد دونوں کے) ، اسلامک اسٹیٹ یا داعش (4) ، اور ان کے علاوہ دوسرے دھشتگرد شامل تھے جن کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 122 عسکریت پسند ایسے تھے جن کی شناخت پاکستان سے مقبوضہ کشمیر میں دراندازی کرنے والوں کی حیثیت سے کی گئی تھی اور 20 دھشتگرد ایسے بتائے گئے تھے جو پاکستانئ نژاد تھے اوران کا تعلق لشکر طیبہ اور جیش محمد سے تھا۔

جس طرح ہندوستان سمجھتا ہیکہ مقبوضہ کشمیر کی علیحدگی پسندانہ تحریک کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ہے ، اسی طرح پاکستانی حکومت بھی مذہبی عسکریت پسندوں اور بلوچ علیحدگی پسندوں کے پیچھے بھارتی مداخلت اور ریشہ دوانیوں کی کارستانی سمجھتی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ ملک میں چین کے ساتھ مل کر سی پیک کے منصوبہ سازی بتائی جاتی ہے کیونکہ ہندوستان ان منصوبوں کو شک وشبہ کی نگاہ سے دیکھتا ہے اوروہ کوئی بھی ایسا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا جو اس منصوبے کو نقصان پہنچانے کا باعث بن سکے۔ یہ الگ بات ہیکہ بلوچستان کی صورتحال مقبوضہ کشمیر کے حالات اور واقعات سے کئ معنی میں نہائت مختلف ہے۔

مسئلہ کشمیر بھارت اور پاکستان کے مابین ایک تاریخی تنازعہ سے جڑا ہوا ہے ، لیکن مقامی طور پر پیدا ہونے والی علیحدگی پسند تحریک نے اس صورتحال کو مزید خراب اور پیچیدہ کردیا ہے کیونکہ ہندوستان یہ سمجھتا ہیکہ پاکستان مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کو اپنے مزموم مقاصد کے حصول کیلئے استعمال کرنا چاہتا ہے۔

 

اس کے برعکس بلوچستان میں شورش اور دھشتگردی کا تعلق دو ممالک کے درمیان کسی تاریخی تنازعہ سے نہیں جڑا ہوا۔  یہ محض ریاست اور مقامی طور پر حوصلہ افزائی پانے والی علیحدگی پسند قیادت کے مابین ایک تنازعہ ہے۔ ایک اور عنصر جس نے بلوچستان میں مزید تشدد کو بڑھایاہے ، وہ یہ ہے کہ جب 2001 میں امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو اس صوبے میں افغان طالبان اور ان کی مجلس شوریٰ کی قیادت افغانستان سے ہجرت کرکے بلوچستان کے علاقوں میں آگئی۔ بلوچ قوم پرستوں کے اہداف اور مقاصد  افغان طالبان اور ان سے متاثرہ مقامی عسکریت پسندوں کے مقاصد اور اہداف سے بےحد مختلف ہیں۔ مذہبی عسکریت پسند پاکستان میں شرعی حکومت کے قیام کے خواہاں ہیں جبکہ بلوچ علیحدگی پسند ایک علیحدہ ریاست کے قیام کیلئے کوشاں ہیں۔

سن 2016 سے مئی 2020 تک ، بلوچستان میں دہشت گرد حملوں میں 1984 افراد ہلاک اور 2206 زخمی ہوئے۔  ہلاک ہونے والوں میں 50٪ سے زیادہ شہری (1034) ، 25٪ سیکیورٹی اہلکار (504) ، اور 22٪ عسکریت پسند اور علیحدگی پسند (504) شامل تھے۔ علیحدگی پسندوں کی تعداد صرف  151 تھی جن کا تعلق بلوچ لبریشن آرمی، بلوچ ریپبلک آرمی، بلوچ لبریشن فرنٹ، یونائیٖٹڈ بلوچ آرمی، اور بلوچ ریپبلک آرمی سے تھا جنہیں سیکیورٹی کارروائیوں کے دوران ہلاک کیا گیا تھا جبکہ مذہبی عسکریت پسندوں کی تعداد 300 سے زیادہ تھی۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد کے بارے کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئی تھی جبکہ ان میں سے چند افراد کا تعلق اسلامک اسٹیٹ (داعش) سے، تحریک طالبان پاکستان ، جند اللہ ، اور لشکر جھنگوی سے بتایا گیا تھا۔ سیکیورٹی کارروائیوں کے دوران بلوچستان میں 16 غیر ملکی عسکریت پسند بھی مارے گئے تھے، جن کا تعلق افغان طالبان سے تھا۔

بلوچستان میں لگتا یوں ہیکہ مذہبی عسکریت پسند گروپ بلوچ علیحدگی پسندوں کے مقابلے میں بہت زیادہ مضبوط اور منظم ہیں۔ اس بات کی تصدیق دونوں صوبوں میں سیکیورٹی آپریشن سے ہونے والی اموات کی تعداد سے بھی ہوتی ہے۔ اس کی مزید تائید ان گروہوں کے ان دعوں سے بھی  ہوتی ہے جو وہ اکثردھشتگردی کے واقع کی زمہ داری کے زریعے کرتے ہیں۔  سن 2016 سے مئی 2020 کے دوران بلوچستان میں 30 دہشت گرد حملوں میں 104 افراد کی ہلاکت کا دعوی بلوچستان لبریشن آرمی ، بلوچ لبریشن فرنٹ ، بلوچ لبریشن ٹائیگر ، بلوچ راجی اجوئی سنگر (بی آر اے ایس) ، بلوچ ریپبلکن گارڈ اور بلوچ ریپبلکن پارٹی نے کیا تھا۔

اس کے مقابلے میں مذہبی عسکریت پسند گروہوں نے بلوچستان میں 40 کے قریب دہشت گرد حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی جس میں 585 افراد ہلاک ہوئے تھے۔  داعش نے تمام دوسری مذہبی عسکریت پسند تنظیموں کے مقابلے میں زیادہ مہلک حملے کیے اور ان حملوں سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 379 تھی۔ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور اس کے مختلف گروپوں نے 22 حملوں کی ذمہ داری قبول کی  جس میں 189 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ لشکر جھنگوی اور جند اللہ نے بھی صوبے میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارتی مقبوضہ کشمیرمیں سرگرم عسکریت پسند گروپ بھی تقریباً ایسی ہی شناخت رکھتے ہیں جیسی کہ بلوچستان میں سرگرم عسکریت پسند گروپوں کی ہے۔ داعش اور القاعدہ بھارت میں بھی پائے جاتے ہیں اور پاکستان میں توانکی سرگرمیاں ایک زمانے میں کافی عروج پر رہی ہیں۔   پاکستانی اور ہندوستانی پریس میں شائع ہونے والی اطلاعات کی بنیاد پر، ان عسکریت پسند گروپوں کے مقاصد اگرچہ دونوں ممالک میں مختلف ہیں لیکن وہ پاکستان اور بھارت میں یکساں طور پر دشمن ملک کی خفیہ ایجنسیوں اور دیگر عالمی طاقتوں کے اعلیٰ کار سمجھے جاتے ہیں۔

ہندوستان اور پاکستان کے مابین جاری سرحدی جھڑپوں اور ان واقعات کی میڈیا خبروں نے دونوں ملکوں میں انتہا پسندی کے رجحانات کوسرکاری اور عوامی سطح پر مزید تقویت بخشی ہے۔ مقبوضہ کشمیرمیں پاکستانی دھشتگردوں کی دراندازی کی متواتر اطلاعات اور بھارتی خفیہ ایجنسی کے پاکستان میں دہشت گردی کے حملوں میں ملوث ہونے کے شکوک و شبہات دونوں ممالک میں نفرت کا ایک ایسا ماحول کو جنم دے رہے ہیں جہاں مخلصانہ اور منطقی گفتگوکی کوئی حمایت ممکن نہیں جبکہ نفرتی جزبات کے اظہارئیے کو عوامی اور سرکاری قبولیت حاصل ہورہی ہے۔ ایک سال پہلے، پاکستان کو اس وقت ایک  شدید دھچکا لگا جب بھارت نے آرٹیکل 370 کو کالعدم قرار دینے کا یکطرفہ فیصلہ کیا جس نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی رہی سہی آزادی کو بھی صلب کرلیا۔ ہندوستان ٹائمز میں ایک مضمون نگا( پرشانت جھا) نے اپنے کالم میں اس کارروائی پر جورائے دی وہ کچھ یوں تھی:

اس فیصلے کا عوام نے بھرپور خیرمقدم کیا اس امید کے ساتھ کہ  یہ قدم اس "مسئلہ کشمیر" کوحل کرے گا، جو طویل عرصے سے پاکستان کی طرف سے پیدا کردہ مسئلے کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے …… .. لداخ میں خوشی اوراطمنان کا اظہار کیا گیا کہ آخرکارمرکز نے ایک دیرینہ مطالبہ کو تسلیم کرلیا تھا ……… .. جموں میں جہاں ہندوستانی یونین کے ساتھ قریبی اتحاد کی خواہش ہمیشہ گہری رہی ہے، اس نےاس اعلان کوایک خوش آئند احساس کے ساتھ قبول کیا گیا…۔

 

کشمیری مسلمانوں کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ، کالم نگار نے مندرجہ ذیل مشاہدات کا اظہار کیا۔

یہ ایک ایسی حکمت عملی ہے جو کشمیر کو باقی ملک کے ساتھ ایک ہی  سطح پر لے آئیگی اور اسے ایک ہی قسم کی شرائط پرپورے ملک سے جوڑنے کا باعث بھی بنے گی۔  اس کے زریعے شاید کشمیری قوم پرستی اور اس سے منسلک تشدد اور دہشت گردی کی لہرکو شکست دینے میں بھی آسانی پیدا ہوگی۔ تاہم اس کا ایک منفی پہلو یہ بھی ہیکہ اس سے ہمارے جمہوری نظریات کو دھچکا پہنچے گا جس کے دو مضمرات ہونگے۔ مقامی طور پر، کشمیری علیحدگی پسندوں کواپنا نقطہ نظر کو آگے بڑھانے کیلئے ایک اور بہانہ ہاتھ آجائیگا جسے وہ ایک ثبوت کے طورپرپیش کریں گے کہ ہندوستان ایک ناقابل اعتبار ملک ہے اور سیکولرازم کے بارے میں اس کے تمام دعوے جھوٹ کا پلندہ ہیں۔  

 

یہ فیصلہ صرف کشمیری مسلمانوں کےلئے ہی مشکل کا باعث نہیں بنا تھا، بلکہ ہندوستان کی سیکولر قوتوں کے لیئے بھی یہ ایک بہت بڑا دھچکا تھا۔ وہ اب سیکولرنظریات کی بنیاد پر قومی سالمیت اور ہم آہنگی کو قائم رکھنےکی اپنی وجوہات سے محروم ہوگئے تھے۔ ہندوستان کی انتہا پسند لابی کیلئے اس فیصلہ نے ایک ایسا نادر موقع فراہم کردیا کہ انہوں نے بابری مسجد کے مقام پر رام مندر تعمیر کرنے کے اپنے دیرینہ خواب کو حقیقت کا روپ دینے کیلئے اقدامات شروع کردئیے۔ رام مندر کے سنگ بنیاد کی کاروائیوں نے جہاں ہندو انتہاپسندوں کو اپنی کامیابیوں کے احساس سے مالامال کیا وہیں ہندوستانی مسلمانوں اور دوسری آزاد خیال قوتوں کو ایک شدید صدمے سے دوچار کردیاتھا۔ یہ ایک ایسا مزہبی قدم تھا جو ہندوستان کی اکثریت کے حق میں تھا اوراس کے سامنے مسلمانوں اور سیکولر قوتوں کی اقلیت کوئی حیثیت نہیں رکھتی تھی۔

ہندوانتہاپسندوں کی نمائندہ تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آرایس ایس) کے جنرل سکریٹری، سریش بھا یاجی جوشی نے اس موقع پر کہا،"ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر آخری منزل نہیں ہے ، بلکہ ایک نئے ہندوستان کی شروعات ہے۔"

 

دوسری طرف ، پاکستان نے کشمیری مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور انہیں ایک سال سے محاصرے جیسی صورتحال میں زندہ رہنے پر مجبور کرنے پراپنی احتجاجی کوششوں کو تیزتر کردیا اور بھارتی مظالم کی عالمی سطح پر مذمت کرنے کیلئے اپنے سرکاری زرایع استعمال کرنا شروع کردیئے۔ لیکن اس کے نتائج کچھ زیادہ حوصلہ افزا نہ نکل سکے۔ صرف چین اور ترکی ایسے دو ملک تھے جنہوں نے بھارتی کارروائیوں کی مذمت کی جبکہ دوسرے ممالک یا تو غیر جانبدار رہے یا اسے ہندوستان کا داخلی معاملہ سمجھنے پر اکتفا کیا۔ اب صورتحال یہ ہیکہ پاک بھارتی سرحدی جھڑپیں اب بھی معصوم افراد کو انکی زندگیوں سے محروم کررہی ہیں، کشمیری مسلمان جموں و کشمیر میں کشمکش کی حالت میں زندگی بسر کررہے ہیں ، اور پاک بھارت سرحدی تنازعہ مستقبل قریب میں اختتام پزیرہوتا دکھائی نہیں دیتا۔

ان حالات میں پاک بھارت تنازعے کے پرامن تصفیہ کے لئےکوئی مکالمہ کرنا نہایت مشکل اور پیچیدہ ہوکررہ گیا ہے کیونکہ ان دونوں ممالک جو خلیج پیدا ہوگئی ہے اس میں ایسے امکانات بہت کم ہوکر رہ گئے ہیں جن پر باہمی اتفاق رائے قائم کی جاسکے۔ اس کے باوجود پرامن تصفیہ کے علاوہ دوسرے تمام طریقے خطرناک اور ہولناک ثابت ہونگے۔ ان حالات کے پیش نظرہمارے پاس صرف دو امکانات باقی رہ گئے ہیں ایک تو یہ کہ ہم کسی معجزے کا انتظار کریں یا پھر دونوں ممالک کی قیادت پرزور دیں کہ وہ سخت گیرروئیے کو اپنانے کے بجائےرواداری اور حقیقت پسندانہ روئیے کا مظاہرہ کریں اورمعصوم لوگوں کی زندگیوں کو اپنے جنگی جنون پر قربان ہونے سے بچائیں۔