ہاں میں باغی ہوں

ہاں میں باغی ہوں
لوگ کہتے ہیں کہ میں باغی ہوں، لوگ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں گے۔ ہاں میں خود اقرار کرتا ہوں کہ میں باغی ہوں لیکن پہلے یہ بھی جان لیں کہ میں باغی کیوں بنا۔

اس کائنات کے خالق نے مجھے ایک آزاد انسان کی حیثیت سے اس دنیا میں بھیجا لیکن جب شعور بیدار ہوا تو احساس ہوا کہ میں محض ایک غلام ہی نہیں بلکہ غلام ابنِ غلام ہوں۔ میرے بزرگ اگر گوروں کے غلام تھے تو میں ان کے غلاموں کا غلام ہوں۔ ہاں میں باغی ہوں اس سماج کا جس میں مجھے اپنی حب الوطنی ثابت کرنے کے لیے ان کے سرٹیفیکیٹ کی ضرورت پڑتی ہے جن کی حب الوطنی بذات خود بحث طلب ہے۔

میں باغی ہوں تو اس سسٹم کا جس میں لوگ خود اپنے حلف کی پاسداری نہیں کرتے لیکن مجھے اپنے غیر قانونی احکامات پر عمل کرنے کیلئے مجبور کرتے ہیں۔ جب ریاست اپنے شہریوں کو غیر قانونی طور پر غائب کر دے تو میں سراپا احتجاج ہوتا ہوں، اگر یہ بغاوت ہے تو ہاں میں باغی ہوں۔ اگر چند سو لوگ ۲۲ کروڑ عوام کے حقوق پر قبضہ کر لیں تو میں ضرور آواز بلند کروں گا، اگر یہ بھی بغاوت ہے تو ہاں میں باغی ہوں۔

جب میرے وطن کی مائیں، بہنیں اور بیٹیاں سڑکوں چوراہوں پر اپنے پیاروں کی گمشدگی پر نوحہ کناں ہوں تو میری روح کانپ اٹھتی ہے اور میں ان مظلوموں کے ساتھ شامل ہو جاتا ہوں، اگر یہ بغاوت ہے تو ہاں میں باغی ہوں۔ اگر وہ مغوی واقعی قابلِ گرفت ہیں تو انہیں عدالت میں پیش کیا جانا چاہیے لیکن جب آئین و قانون کی پرواہ کیے بغیر ان کو لاپتہ کیا جائے گا تو میں چپ نہیں رہ سکتا، میرا اس مسئلہ پر بولنا اگر بغاوت ہے تو ہاں میں باغی ہوں۔

ایک آمر کے دور میں کراچی سے قوم کی بیٹی عافیہ صدیقی کو جس طرح اغوا کر کے امریکہ بہادر کے حوالے  کیا گیا اس پر میرا دل تڑپ اٹھا۔ قوم کے بچوں کو اغوا کر کے امریکہ کے حوالے کرنے کا باقاعدہ معاضہ وصول کیا گیا جس کا اقرار اس آمر نے خود اپنی کتاب میں کیا ہے۔ کراچی میں خون کی ہولی کھیلی گئی اور اسلام آباد میں مکے لہرائے گئے اب اگر اس پر بولوں تو میں غدار کہلاؤں گا لیکن جب عدالت نے اس آمر کو غدار قرار دیا تو اس کے پیٹی بند بھائیوں کا ردِعمل دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ فیصلہ آپ کریں کہ غدار میں ہوں یا وہ جن کے خلاف میری جنگ جاری ہے۔

آج 14 اگست ہے مجھ گنہگار سے محبت کرنے والے 'جشنِ آزادی' کی مبارکبادیں بھیج رہے ہیں اور میں سوچ رہا ہوں کہ کیا میں واقعی آزاد ہوں؟

متحدہ ہندوستان سے اس لئے الگ ہوئے تھے کہ کسی کی غلامی قبول نہیں کریں گے لیکن کیا واقعی ہمیں وہ آزادی مل گئی؟ اگر میرا ووٹ تک چوری ہو جاتا ہو اور کہیں اس کی شنوائی نہیں ہوتی تو پھر یہ کیسی آزادی ہے؟ ہاں یہاں آزادی ہے ہر اس شخص کو اور ہر اس ادارے کو جو آئین و قانون سے ماورا اقدام کی طاقت رکھتا ہے۔ ہر اس طاقتور کو جو اپنے مخالف کی زندگی اجیرن کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔

ذرا سوچیے اگر واقعی ہمیں آزادی میسر ہوتی تو کیا ملک دو لخت ہوتا؟ اگر حقیقت میں آزادی ہوتی تو کیا بلوچستان اور سابقہ فاٹا کے شہری سراپا احتجاج ہوتے؟ کیا وہ اس ملک کے باسی نہیں؟ کیا انہیں اپنے اوپر ڈھائے گئے مظالم پر صدائے احتجاج بلند کرنے کا بھی حق حاصل نہیں؟ ہم کیوں نہیں سمجھتے کہ طاقت کسی بھی مسئلہ کا حل نہیں بلکہ صرف پیار اور محبت ہی اس کا واحد حل ہے۔

علامہ اقبال نے ایسے ہی نہیں کہا تھا کہ 'محبت فاتحِ عالم'۔ اس پیارے وطن کے ساتھ  ساتھ میں بھی بوڑھا ہو گیا ہوں اور شائد اسی لئے کچھ سٹھیا بھی گیا ہوں لیکن اس ملک اور قوم کی حقیقی آزادی کی تڑپ ایک جوان آدمی کی طرح آج بھی میرے دل میں موجزن ہے۔

چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں

فلک کی دشت میں تاروں کی آخری منزل

نجات دید و دل کی گھڑی نہیں آئی

چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی

مصنف ایک سیاسی ورکر ہیں۔