ریپ ہوا، ریپ ہونے دیا گیا، ذمہ داری مظلوم پر ڈال دی گئی، تو بند کرو پولیس کا محکمہ

ریپ ہوا، ریپ ہونے دیا گیا، ذمہ داری مظلوم پر ڈال دی گئی، تو بند کرو پولیس کا محکمہ
جس دن سے سی سی پی او عمر شیخ صاحب نے لاہور پولیس کا چارج سنبھالا ہے، تنازعات ہیں کہ ان کے ساتھ جیسے نتھی ہو گئے ہوں۔ پہلے تو معاملہ محض رپورٹس تک محدود تھا جو موصوف سے متعلق پاکستان کی انٹیلیجنس ایجنسیز نے جمع کروائی تھیں جس کے بعد سلیکشن بورڈ نے ان کو ترقی دینے سے انکار کرتے ہوئے ان کے جونیئر افسران کو ان سے پہلے ترقی دینے کی باضابطہ سفارش کی تھی اور اسی سفارش کی بنا پر وزیر اعظم عمران خان نے ان کو اکیسویں گریڈ میں ترقی نہیں دی تھی۔ تاہم، انہوں نے موصوف کو سی سی پی او ضرور لگا دیا تھا اور اس کی وجہ سے ایک بڑا تنازع پنجاب میں پہلے دن سے ہی کھڑا ہو گیا تھا کیونکہ اس سلیکشن بورڈ میں سابق آئی جی پنجاب شعیب دستگیر بھی شامل تھے جنہوں نے عمر شیخ کے داغدار کردار کے باعث ان کو ترقی دینے کے خلاف سفارش کی تھی اور ان کو پنجاب کے سب سے اہم شہر، یعنی اس کے دارالحکومت لاہور کا پولیس چیف لگا دیا گیا تھا۔

سی سی پی او صاحب کی جانب سے مس کنڈکٹ کے باوجود حکومت نے آئی جی پنجاب کو ان کے عہدے سے علیحدہ کرنا مناسب سمجھا تھا مگر عمر شیخ اپنے عہدے پر برقرار رہے تھے۔ مگر شاید یہ بھی ان کو ہضم نہ ہوا اور بدھ کی شام ایک انتہائی اندوہناک واقعے کے بعد جس میں ایک خاتون کو گجر پورہ کے قریب رنگ روڈ پر دو عدد ڈاکوؤں نے نقدی لوٹنے کے بعد ان کے بچوں کے سامنے اپنی ہوس کا نشانہ بناتے ہوئے خاتون کی عصمت دری کی تھی، سی سی پی او صاحب کا کہنا ہے کہ یہ خاتون رات کے وقت نکلی تھیں تو رنگ روڈ کیوں گئیں، سیدھی جی ٹی روڈ کیوں نہیں لی۔

عمر شیخ نے میڈیا کو اجتماعی زیادتی کا شکار ہونے والی خاتون کے بارے میں انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ”وہ رات کے 12:30 بجے گھر سے نکلیں ہی کیوں، ان کو اس طرح اکیلے رات گئے موٹر وے پر سفر نہیں کرنا چاہیے تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ میں تو یہ حیران ہوں کہ آپ تین بچوں کی ماں ہیں، اکیلی عورت گھر سے رات کو ساڑھے 12 بجے نکلی ہیں، آپ ڈیفنس سے نکلی ہو، سیدھا جی ٹی روڈ لو جہاں پر آبادی ہے اور اپنے گھر چلی جاؤ۔ اگر آپ اس طرف سے نکلی ہو تو کم از کم اپنا پٹرول چیک کر لو کیونکہ اس طرف پٹرول پمپ نہیں ہوتے۔ یہ الفاظ اس ملک کے سب سے اہم شہر کے سب سے بڑے پولیس افسر کے ہیں جس کا کام امن و امان قائم رکھنا ہے، عوام کو تحفظ فراہم کرنا ہے اور جرائم کی روک تھام کرنا ہے۔

الٹا موصوف فرما رہے ہیں کہ خاتون رات کو گھر سے نکلی کیوں تھی؟ نکلی تھی تو اس وقت کیوں نکلی؟ اس وقت نکلی تھی تو اس راستے سے کیوں نکلی؟ آسان الفاظ میں بات کی جائے تو لاہور کے پولیس سروس کے سربراہ کا کہنا ہے کہ عصمت دری میں بنیادی قصور تو اس خاتون کا ہے جس کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا۔ سینیئر صحافی غریدہ فاروقی کے مطابق انہوں نے جب سی سی پی او صاحب کو فون کر کے اس بابت دریافت کیا تو وہ اپنی بات پر سختی سے قائم رہے اور کہا کہ خاتون کو اکیلے رات کو سفر نہیں کرنا چاہیے تھا اور کہا کہ میرا مقصد تو خاتون کی بھلائی ہے۔

اس کو بھی سادہ الفاظ میں بیان کیا جائے تو ان کا کہنا یہ ہے کہ پولیس سروس کے لئے زیادہ سہولت اس چیز میں ہے کہ لوگ مجرموں کے خوف سے اپنے گھروں میں بند رہیں۔ خواتین اپنے بچوں کے ساتھ سڑک پر جاتے ہوئے محفوظ نہیں ہیں اور ان کو رتی برابر بھی احساس نہیں کہ یہ دراصل پولیس کے وجود پر ہی سوال اٹھانے والی بات ہے۔ کیا پولیس رات کے وقت کام نہیں کرتی؟ کیا رات کے وقت پیش آنے والے جرائم پولیس کے دائرہ اختیار سے باہر ہیں؟ کل کو کسی شخص کے ساتھ یہ واقعہ دن دہاڑے بھی پیش آ سکتا ہے۔ تو کیا عمر شیخ صاحب اس وقت بھی گھر سے نکلنے وقت کا تعین کرتے رہیں گے اور لوگوں کو محفوظ رستوں کی بابت آگاہ کیا کریں گے؟ وہ تسلیم کیوں نہیں کر لیتے کہ پولیس ناکام ہوئی؟ میڈیا اطلاعات کے مطابق خاتون نے واقعہ ہونے سے پہلے تھانے فون کیا تھا تو انہیں بتایا گیا کہ یہ جگہ جہاں وہ موجود ہیں، اس تھانے کی حدود میں نہیں آتی۔ مطلب پولیس کی طرف سے شہری کو سہولت دینے کی بجائے حدود کا تعین زیادہ اہم تھا۔ کیا یہ ان کا کام نہ تھا کہ متعلقہ تھانے کو فون کر کے اس مسئلے کا حل کرتے؟

معاملہ دراصل یہ ہے کہ پاکستان میں پولیس کے محکمے ہی نہیں، تمام محکموں کا حال یہی کہ اہلکاروں اور افسران کی پہلی کوشش بلا ٹالنے کی ہوتی ہے۔ کسی طرح سے بس یہ معاملہ ہماری حدود سے باہر ہو جائے اور ہمیں کچھ کرنا نہ پڑے۔ اگر عوام کی سہولت اور ان کے جان و مال کا تحفظ پہلی ترجیح ہوتی تو یہاں پولیس خود آگے بڑھ کر خاتون کی مدد کرتی۔ ایک تھانے کی حدود سے باہر کی بات تھی تو جس تھانے کی حدود میں واقعہ پیش آیا، وہاں بات کی جا سکتی تھی۔

اور جو کچھ عمر شیخ صاحب نے کہا ہے، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہماری پولیس کی نہ تو حساس موضوعات کو ڈیل کرنے کی کوئی ٹریننگ ہے اور نہ ہی ان پر بات کرنے کی۔ اول تو ایسی سوچ کو معاشرے میں موجود ہونا ہی نہیں چاہیے لیکن اگر ہے بھی اور سی سی پی او کے عہدے پر ہوتے ہوئے بھی وہ اسی قسم کی ذہنیت رکھتے ہیں تو کم از کم میڈیا پر بات کرتے ہوئے تو اپنی زبان پر کچھ قابو رکھا جا سکتا ہے۔ وہ اپنی اس سوچ کو اپنے آپ تک محدود بھی رکھ سکتے تھے اور ٹی وی پر صرف کیس میں ہونے والی اب تک کی پیش رفت تک خود کو محدود رکھ کر اپنا اور پولیس کا تمشہ بنانے سے بچ سکتے تھے۔ لیکن انہوں نے نہ صرف یہ بیان دیا بلکہ اب غریدہ فاروقی کے مطابق وہ اس پر نادم ہونے یا ندامت کا دعویٰ کرنے کی بجائے قائم بھی ہو گئے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ان کی اس بات سے اتفاق کرنے والوں کی تعداد کہیں زیادہ ہوگی۔ نہ صرف یہ، وہ تو اپنی اس دقیانوسی سوچ کو مذہب کا لبادہ بھی پہنانے میں مصروف ہیں۔

پولیس کے اعلیٰ حکام کو اپنے اہلکاروں کی تربیت کرنا ضروری ہے۔ انہیں ان حساس موضوعات کی اہمیت کا اندازہ ہونا چاہیے۔ ایک خاتون کا ریپ ہوا ہے اور یہ ریپ ہونے دیا گیا کیونکہ متعلقہ اہلکاروں کو اس ایمرجنسی صورتحال میں یہ نہیں پتہ تھا کہ انہیں کیا کرنا چاہیے۔ ایک کے بعد ایک آئی جی کے لئے ڈھول تاشے بجانے کے لئے بڑی محنت سے اہتمام کیا جاتا ہے۔ دو سال میں چھ مرتبہ آئی جی تبدیل ہوا ہے، خوب بگھیوں میں بیٹھ کر مکمل بینڈ باجے کے ساتھ نیا آئی جی پولیس ہیڈکوارٹرز لاہور میں کروفر کے ساتھ داخل ہوتا ہے۔ اور پھر حالات جوں کے توں رہتے ہیں تو پھر بہتر یہی ہے کہ ملک ان جرائم پیشہ جتھوں کے حوالے کر دیے جائیں جن کے آگے بے بسی کا اعلان خود لاہور کے پولیس چیف میڈیا سے بات کرتے ہوئے کر چکے ہیں۔

ویب ایڈیٹر

علی وارثی نیا دور میڈیا کے ویب ایڈیٹر ہیں.