جنسی زیادتی جیسے جرائم معاشرے میں موجود تفریق اور سوچ سے جنم لیتے ہیں

جنسی زیادتی جیسے جرائم معاشرے میں موجود تفریق اور سوچ سے جنم لیتے ہیں
موٹروے پر ہونے والے خاتون کے ساتھ ریپ نے ایک بار قومی ضمیرکو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اس سے پہلے بھی ایسے بے شمار واقعات ہوتے، دہشت گردی  کے، قدرتی آفات کے، چھوٹی بچیوں کے ساتھ زدیاتی کے، خواتین کے ریپ کے۔  مظلوم عوام کے ساتھ بالا دست طبقات کے ظلم اور زیادتیاں کو 73 سال ہو چکے۔

ایک خلیج ہے جو دو طتقبات میں نمایاں تر ہوتی جا رہی ہے۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں۔ جو تمام تر مراعات کے مالک ہیں۔ دوسری طرف وہ ہیں جو دو تو کیا ایک وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں۔ وطن عرہز میں دھونس ظلم اور زیادتیاں صرف خواتین تک محدود نہیں ہیں یہ دونوں کلاسوں کی جنگ ہے۔  جیسا کہ سطور بالا میں لکھا، ایک طرف ہیں مراعات یافتہ طبقے، دوسری طرف ہیں پسے ہوئے ذلتوں کے مارے لوگ۔ جن کی اسمبلی میں کوئی نمائندگی نہیں۔ اس ساری تمہید کا مقصد صرف یہ ہے موٹر وے پر جو بربریت کا کھیل کھیلا گیا ہے وہ ہمارے نظام کی بے حسی اور ناکامی کا ایک اور منہ بولتا ثبوت ہے۔ بدقسمتی سے ہم اپنے نظام کی خرابیوں کو دور کرنے کی بحاے ایک لاحاصل بحث میں الجھے ہوئے ہیں. ایک کلاس یہ ثابت کرنے پر تلی ہوئی ہے کہ دنیا کا ہر مرد ظالم جابر اور رپیسٹ ہے. جبکہ ہر عورت مظلوم اور جبر کی چکی میں پس رہی ہے۔

خدا کے لیے حاصل مدعے کی طرف آئیں۔ اچھایاں اور برایاں جنس کی تفریق سے بالا تر ہوتی ہیں۔ انسانی صفات میں خوبیاں اور خامیاں جب قدرت کی طرف سے شامل ہوتی ہیں،تو اسکی کو مرد اور عورت کی کسوٹی پر نہیں پرکھا جاتا۔ عوت کی خود مختاری اسکی معیشت سے وابستہ ہے۔

برسر روزگار عورت ہمیشہ اپنے فیصلوں میں آزاد ہوتی ہے۔ وہ مردوں کی محتاج نہیں ہوتی۔ لہذا عورت کی آزادی صرف تعلیم اور روزگار سے مربوط ہے۔ یہ دونوں صفات جس عورت کے پاس ہیں وہ اپنے فصیلوں میں آزاد ہوتی ہے۔ اب اس واقعے کی طرف دیکھیں وہ عورت  پنے معاشی طور پر خودمختار تھی ،مگر جو ظلم اسکے ساتھ ہوا وہ ناقابل معافی ہے۔ ریاست کے منہ پر ایک زناٹے دار تھپڑ ہے۔ رات کے تین بجے اپنے بچوں کے ساتھ ایک عورت جس کی کار خراب ہو جاتی ہے وہ مختلف ریاستی اداروں کو مدد کے فون کرتی ہے۔ کہیں سے اسکو حوصلہ افزا جواب نہیں ملتا۔ پھر دو درندے آتے ہیں اس پر حملہ آؤر ہو جاتے ہیں۔ اسکے معصوم بچے چخ رہے ہیں ان کو بھی مارا جاتا ہے اور انکے سامنے انکی ماں کی بے حرمتی کی جاتی ہے۔ کوئی راہگیر خالی کار دیکھ کر پولیس کو اطلاع کرتا ہے۔ پولیس آتی ہے ہوائی فائر کے بعد ایک حواس باختہ عورت پکارتی ہے ،،،ںھائی ،یہ ہے وہ اصل مدعا جس پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔ کہ آپ کا سماج کس طرف جا رہا ہے اور ہم کس بحث میں الجھے ہوئے ہیں پھانسی ہونی چاہیے۔  سرعام پھانسی ہونی چاہیے۔ صرف عمر قید ہونی چاہیے۔

میں یہاں سمجتا ہوں کہ قومی اسمبلی سنیٹ اور تمام صوبوں کی اسمبلیاں اپنے اجلاس بلائیں اور جب تک اس نکتے پر یکسو نہ ہو جائیں کہ ہم نے اپنے نظام کو انسان دوست کیسے بنانا ہے۔ ظلم جبر بربریت کسے ختم کرنی ہے کہ کوئی بھی عورت رات تین بجے بھی گھر سے نکلے تو اسکی مدد کے لیے ریاستی ادارے موجود ہوں۔ ،میں نے کل لاہور سیالکوٹ موٹر وے کا سفر کیا ہے جاے وقوعہ بھی دیکھا ہے ،وہاں اب پولیس بھی ہے اور موبائل کار ورکشاپ بھی موجود ہیں۔

مگر یہ سلسلہ بند نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن سب سے اہم اور ضروری بات وہی ہے تمام ایوانوں کو یکسوئی کے ساتھ بیٹھ کر اس قومی مسلے کو حل کریں اور ایک فیصلہ کریں رہپ کی سزا کیا ہو اور سستا اور فوری انصاف فراہم ہو یہ ہی فلاحی ریاست کی طرف پہلا قدم ہو گا۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔