بڑھتے ہوئے زیادتی کے کیسز کے پیچھے وجہ کیا؟

بڑھتے ہوئے زیادتی کے کیسز کے پیچھے وجہ کیا؟
پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس کو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا اور جس کا نام بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے مگر کیا واقعی ہم مجموعی طور پر اسلامی اقدار پر پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ  کی تعلیمات کے مطابق عمل کر رہے ہیں یا ہم شیطان کے پیروکار بن کر معاشرے کے اخلاقی طور پر زوال پذیر ہونے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں؟

پاکستان میں بدقسمتی سے کئی قسم کی برائیوں اور جرائم میں سے ایک اہم اور سنگین علت عورتوں اور بچوں سے زیادتی کے واقعات ہیں جن میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔

پچھلے دنوں موٹروے پر ایک خاتون سے اس کے بچوں کی موجودگی میں شیطان صفت انسانوں نے زیادتی کی جس کی تفصیل میں نہیں جاؤں گا۔ اس واقعہ کو سوشل میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا کی بدولت پذیرائی مل گئی اور پولیس اور حکومت ایکشن میں آ گئی ورنہ ہو سکتا ہے یہ بھی لاتعداد دوسرے واقعات کی طرح دب چکا ہوتا مگر ابھی میرے کالم لکھنے تک ایک ملزم عابد کو پولیس پکڑنے میں بری طرح ناکام رہی ہے اور ایک یا دو مرتبہ تو ایسا ہوا کہ وہ پولیس سے کچھ فاصلہ پر تھا اور وہاں سے بھی بھاگ گیا جبکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ابھی تک ٹامک ٹوئیاں ہی مارتے دکھائی دے رہے ہیں۔

اس کے بعد دیگر کئی واقعات کی طرح ایک اور اندوہناک زیادتی کا واقعہ ایک دوست نے سوشل میڈیا پر مجھے بھیجا جس کی تفصیل پڑھ کر دکھ میں مزید اضافہ ہوا اور میں سوچنے پر مجبور ہو گیا ہوں کہ کیا ان درندوں کا جو بھی زیادتی کے مجرم ہیں اور جو ان واقعات پر کارروائی نہ کر کے ان کو فروغ دیتے ہیں ان کا کسی دین سے اور انسانیت سے کوئی ناطہ ہے بھی یا نہیں؟

تفصیل کے مطابق یہ سانحہ بہاولپور میں پیش آیا جہاں وہی روایتی طاقتور اور کمزور کی کہانی دہرائی گئی۔ ملزم لقمان مقامی زمیندار ہے جس نے طاقت اور پیسے کے نشے میں دھت ہو کر اپنے علاقے کے محنت کش کی بیٹی کو اپنی ہوس اور درندگی کا نشانہ بنا ڈالا۔

رپورٹ کے مطابق مظلوم اور بے بس لڑکی کے والد نے تھانے میں ایف آئی آر درج کرانے کے لیۓ اندراج مقدمہ کی درخواست دی مگر مقامی پولیس نے بااثر افراد کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی بجائے لیت و لعل سے کام لینا شروع کر دیا اور متاثرہ خاندان کو مزید ذلیل کرنے کے لیۓ تھانے کے چکر لگوانے شروع کر دیے۔اس روز روز کی ذلالت سے تنگ آ کر متاثرہ لڑکی نے خودکشی کر لی۔ اس کے بے بس والد کے مطابق پولیس کے رویے سے تنگ آ کر اور ملزمان کے خلاف کارروائی نہ کرنے کی وجہ سے اس کی بیٹی نے اسپرے پی کر خودکشی کر لی ہے۔

اس بدنصیب لڑکی نے اپنے باپ کے نام مرنے سے قبل ایک کاغذ بھی چھوڑا جس پر لکھا تھا کہ ابا! آپ کل سر اٹھا کر جیو گے۔

واقعہ کا علم ہونے پر متعلقہ ڈی پی او نے ایف آئ آر درج نہ کرنے پر ایس ایچ او اور محرر کو حوالات میں بند کروا دیا اور ملزمان کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا۔

اس واقعہ میں جہاں متعلقہ تھانے کے عملے نے روایتی رشوت خوری کا مظاہرہ کیا وہاں ڈی پی او نے اپنا فعل قانون کے مطابق کیا۔مگر کیا اس سب کے باوجود بھی اس باپ کی بیٹی اور اس کی کھوئی ہوئی عزت واپس مل جائے گی؟

امید ہے کہ ڈی پی او بہاولپور نے متعلقہ پولیس کے راشی افسران کے خلاف قانون کے مطابق عمل نہ کرنے کے علاوہ، رشوت لینے اور لڑکی کی موت کی دفعات بھی شامل کرائی ہوں گی کیوں کہ ان سب کے بغیر انصاف کہ تقاضے پورے نہیں ہوں گے۔ متاثرہ باپ کو بااثر ملزمان کے خلاف تحفظ فراہم کرنا بھی پولیس کی ذمہ داری ہے۔

ویسے اگر ڈی پی او صاحب کے دفتر کے دروازے ہر خاص و عام کے لیۓ کھلے ہوں اور مظلوم شخص بھی اپنی فریاد لے کر بلا جھجک وہاں جا سکے اور اسے یقین ہو کہ اس کی درخواست پر قانون اس کی مدد کرے گا تو جرم تقریباً نہ ہونے کے برابر ہو جاۓ۔

ان تمام واقعات کا بحیثیت قوم ہم سب بھی کچھ حد تک ذمہ دار ہیں کیوں کہ کبھی ہم میں ہی موجود عالم دین یہ کہہ دیتے ہیں کہ زیادتی کے واقعات مخلوط نظام تعلیم کی وجہ سے ہوتے ہیں اور کبھی ہم میں ہی موجود پولیس افسر یہ بیان دے دیتے ہیں کہ اکیلی عورت کو رات کو موٹروے پر سفر نہیں کرنا چاہیۓ اگر وہ زیادتی سے بچنا چاہتی ہے تو۔

وہ متعلقہ پولیس افسر بھی ہم میں سے ہی ہیں جن کا جینا اور مرنا رشوت کے لیۓ ہوتا ہے اور وہ کسی بے بس کی مدد کرنے کی بجائے اپنی توندیں حرام کی کمائی سے بھر رہے ہوتے ہیں جبکہ زیادتی کے مرتکب درندے دندناتے پھرتے ہیں۔

ہمارے علمائے دین کو بھی ہر سطح پر ایسے واقعات کی مذمت کرنی چاہیۓ۔ ہماری عدالتوں کو بھی ایسے درندوں کے خلاف سخت کارروائی کرنی چاہیۓ کیوں کہ ایسے افراد قوم کے مجرم ہیں۔

احتشام اعجاز بھلی ان دنوں امریکہ میں مقیم ہیں اور U.S. Press Association کے ممبر ہیں۔ وہ پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں اور لاہور ہائی کورٹ کے تاحیات رکن ہیں۔