داستان ایک مجسمہ پرست قوم کی

داستان ایک مجسمہ پرست قوم کی
اِسے اتفاق کہیں یا حالات کی ستم ظریفی کہ ایک خدا کے ماننے والے، توحید کا کلمہ پڑھنے والے زمین پر اپنے ہاتھوں سے تراشے مجسموں کی پرستش میں یوں مگن ہوئے کہ شدت پسندی کب ہماری پہچان بن گئی، ہمیں علم ہی نہ ہوا۔ چلیں ایک نظر ڈالتے ہیں اُن تمام مجسموں پر جنہیں بنا کر ہم نے ہر قسم کے سوال سے مبرا کر دیا ہے اور جِن کے دفاع میں ہم اپنی صفوں کو تہس نہس کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔

بطور قوم ہم نے پہلا مجسمہ اپنے پسندیدہ سیاستدانوں کا بنایا ہے جِن کی اندھی تقلید نے ہمیں جہالت کی دہلیز پر لا کھڑا کر دیا ہے۔ ہم میں سے اکثر کا تعلق اُس نسل سے ہے جو قومِ ابراہیم کی طرح صرف اِس لئے اپنے بتوں کو پوجتی ہے کیونکہ انہوں نے نسل در نسل اپنے اجداد کو ایسا کرتے پایا۔ اِس لئے بھٹو کو سولی چڑھے بے شک دہائیاں بیت چکی لیکن آج بھی ہم اُس کے زندہ ہونے پر یقین رکھتے ہوئے آلِ بھٹو کے ہاتھوں کراچی سمیت سندھ کو کچرا، قحط اور افلاس کی دلدل میں دھکیل چکے ہیں لیکن بھٹو کے نام پر زر کی پرستش ہمارے اندر کے جیالے کو آج بھی زندہ رکھے ہوئے ہے۔

بات ہو رہی ہے سیاستدانوں کے مجسموں کی تو کیوں نہ اُن کا بھی تذکرہ کر لیا جائے جو اپنی منی ٹریل میں فلور آف دا ہاؤس پر کھڑے ہو کر کاغذ کے چند پلندوں کو لہرا کر اپنے اثاثوں کے ذرائع بتاتے ہیں جِس پر ہم اُن کی شان میں قصیدے لکھ چھوڑتے ہیں لیکن جب انہی ذرائع کو عدالت میں ثابت کرنے کا وقت آتا ہے تو کیلیبری فونٹ سے لے کر قطری خط تک نہ جانے کتنے گھوڑے بحرِ ظلمات میں دوڑاتے ہیں اور بالآخر دِ ل کی بے ترتیب دھڑکنوں کو ورڈزورتھ کے فلسفئہ قدرت سے ہم آہنگ کرنے ملکہ برطانیہ کی آغوش میں پناہ لے لیتے ہیں اور ہم بے چارے بت پرست اُن کی ہر پیشی اور فلائٹ پر حاضر حاضر لہو ہماراکا وِرد کرتے نہیں تھکتے۔

اِس مجسمہ سازی اور پرستی کے دوران ایک مثبت بات یہ ہوئی کہ ہم پرستاروں کو اِن دو بڑے سیاسی بتوں سے چھٹکارا ملنے کی ایک موہوم سی امید لگی اور تبدیلی کے نام پر ہمیں جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھنے کا فَن سکھانے سیاست کے میدان میں ایک نیا کھلاڑی آیا جِس کا نعرہ ہی سٹیٹس کو  کے خلاف جا کر ایک نئے پاکستان کی تشکیل کرنا تھا۔ ہم سب خوش ہوئے کہ چلو اب کچھ پڑھی لکھی سیاست ہو گی اور ہم پجاری بھی جہالت کے اندھیروں سے باہر نکلیں گے۔  لیکن جِن افراد کے خمیر میں ہی اندھی تقلید ہو اُن سے بھلا تنقید کی کیا توقع کرنی۔ وہی ہوا جِس کا ڈر تھا۔ ہم نے ۲۲ سال کی جد و جہد کو ہر قسم کی تنقید اور سوال سے مستثنیٰ قرار دے دیا اور خواب دکھانے والے جادوگر کو لائسنس ٹو کِل ڈریمز دے کر ایک روشن مستقبل کی امید لگا لی۔ بس پھر مختصر کابینہ سے طویل کابینہ، منی ٹریل سے ایمنسٹی سکیم سے فوائد، چینی رپورٹ سے کمیشن در کمیشن کی تشکیل، ادویہ سکینڈل سے معطلی اور استعیفوں کی قطاریں، سو دِن کے سہانے دعووں سے ۵ سال کی حقیقت پسندی، سیاست میں نئے چہرے متعارف کروانے کے لالی پاپ سے پرانے پاپیوں کی وزارتیں اور عزیر بلوچ جے آئی ٹی پر بلاتفریق احتساب کے نعروں سے بلدیہ ٹاؤن فیکٹری جے آئی ٹی میں خاموشی تک اقتدار کے ایوانوں میں وہی کچھ ہوتا رہا جِس کی مخالفت ہم مینارِ پاکستا ن سے لے کر مزارِ قائد تک جلسوں اور تقاریر میں سنتے آئے تھے۔ لیکن بھلا ہو ہماری مجسمہ پرستی کا کہ ہم نے اِن تمام اقدامات پر سوال کرنے اور تنقید کرنے والوں کو گالیوں اور کردار کشی کا نشانہ بنایا۔ لفافہ لینے سے لے کر جاہل پٹواری اور اندھا جیالا تک کے الزامات اور القابات سے نوازا اور صرف دو سال کے قلیل عرصے میں ہی اپنے بظاہر پڑھے لکھے خمیر میں چھپے گنوار بدو کو ظاہر کر دیا۔

سیاسی مجسموں کے ساتھ ساتھ ہم نے کچھ عسکری مجسمے بھی تخلیق کئے ہیں جِنہیں اول الذکر کی مانند ہم نے تنقید و سوال کے دائرے سے باہر کر دیا ہے۔ یہ وہ عناصر ہیں جو اپنے حلف سے غداری کر کے آئین شکنی کرتے ہیں اور لیلیٰ اقتدار کو اپنے بوٹوں تلے روندتے ہوئے ملک میں جمہوریت کو پاش پاش کر کے آمریت کے سیاہ دور کی بنیاد رکھتے ہیں۔ پولیٹیکل انجینئرنگ کرنے والے اِن  حضرات کو ہم ہمیشہ اُن نوجوانوں کے برابر قرار دے دیتے ہیں جو اپنی جان کی پروا کئے بِنا اِس مٹی کو اپنے لہو سے رنگ رہے ہیں۔ یہاں مجسمہ پرستی میں ہم بھول جاتے ہیں کہ ایک شہیدیا غازی کا رتبہ کسی طور بھی آئینِ زباں بندی تحریر کرنے والے آمر کے برابر نہیں ہو سکتا اور نہ ہی سیاست میں وردی کی آمیزش پر بات کرنے سے ملک کی نظریاتی یا جغرافیائی سرحدوں کو کسی قسم کا خطرہ لاحق ہے۔ لیکن ہم اپنی اندھی تقلید میں اِس قسم کے سوالات کرنے والوں کو قوم کے بیٹوں کی قربانیوں کو فراموش کرنے والے غدار کا لقب دیتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ شہیدوں کے پاک لہو کا حقیق سوداگر کون ہے۔

اِن دونوں مجسموں سے زیادہ خطرناک بھی کچھ مجسمے ہیں جنہیں تراش کر ہم نے نفرتوں اور تقسیم کو جنم دیا ہے۔ یہ اُن تمام مذہبی رہنماؤں کے مجسمے ہیں جو ہمیں فرقہ بندیوں میں تقسیم کر کے اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنا صرف اپنا خود ساختہ فرض سمجھتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ایسے علما ڈر کے کاروبار سے، فرقہ واریت کی مشتعل ہوا سے اپنے گھر کا چولہا جلاتے ہیں لیکن پھر بھی ہم اُن کی ایک صدا پر کافر مسلمان اور جنت جہنم کے ٹکٹ فروخت کرتے ہیں اور دین میں پیار، محبت، رواداری اور بھائی چارے کا درس دینے والے علما اور دیگر افراد کو ملحدین اور لبرلز کے نام دے کر نفرتوں کو مزید بڑھاوا دے دیتے ہیں۔

اسی مجسمے سے منسلک ایک ذیلی مجسمہ ہماری ذات اور نسل کا ہے جو ہمارے غرور کو تکبر کے ساتویں آسمان پر پہنچا دیتا ہے۔ ہم شائد چار یا پانچ نسلوں سے زیادہ اپنے خاندان کی تاریخ سے ناواقف ہوں لیکن یقین محکم کے ساتھ اپنا تعلق اُس ذات کے ساتھ باندھے رکھتے ہیں جو ہم تک ہمارے والدین یا اُن کے والدین نے منتقل کی ہے۔ اگر بات صرف شناخت کی حد تک ہوتی تو پھر بھی کچھ قابلِ قبول تھی لیکن ہم ذات اور فرقے کی اِس وابستگی کے ساتھ جڑے احساسِ برتری میں دیگر افراد کو خود سے حقیر سمجھ بیٹھتے ہیں اور اپنی اولاد کو انہی ذاتوں اور فرقوں کی حد بندیوں میں مزید باندھ کر تفریق اور نفرت کی حدوں کو مزید مضبوط کر دیتے ہیں۔
یہاں پر آتا ہے ایک ایسا مجسمہ جِس کی پرستش کرنے والے افراد دیگر تمام  افراد سے زیادہ قابلِ رحم ہیں۔ یہ مجسمہ اُن تمام تاریخی ہستیوں کا ہے جو جنگ و جدل یا علم و حکمت کے میدان میں اپنا لوہا منوا چکی ہیں۔ ہم کچھ بھی کر کے اُن مشاہیر کی نسل یا جد سے ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور اُن کے اقدامات یا فیصلوں پر اُٹھنے والی ہر انگلی اور زبان کو کاٹ پھینکنے کی دھمکیاں دینا اپنے لئے باعثِ فخر سمجھتے ہیں۔ یہ مجسمہ بنانے کے لئے تاریخ کا جذبات کے ساتھ سطحی علم رکھنا بہت ضروری ہے جبھی تو ہم توسیع پسندانہ فتوحات کو بھی اسلام کی ترویج سے جوڑ کر ترکی یا سپین کے فاتحین کو ننکانہ صاحب بیٹھ کر اپنے اسلاف بنا لیتے ہیں۔

بطور قوم ہمارے اجتماعی شعور کی انتہا پسندی یہ ہے کہ ہم دھیرے دھیرے اپنے بنائے ہوئے اِن تمام مجسموں کو ہر قسم کے سوالات سے ماورا قرار دیتے ہیں اور انہی کی بنیادوں پر اللہ کی رسی پر اپنی گرفت کمزور کرتے چلے جا رہے ہیں۔ ہم یہ بھول بیٹھے ہیں کہ تنقیدو سوال سے ماورا صرف اللہ کی ذات، خاتم النبیین رسول اللہ (ص)، انبیا کرام، صحابہ کرام اور الہامی کتب سمیت شعائرِ اسلام ہیں جبکہ دیگر تاریخی شخصیات یا عوامل پر سوال بھی ہو سکتا ہے اور تحقیق و تنقید بھی۔ اور موجودہ دور کے رہنماؤں سمیت تمام جدید نظریات و عقائد ہر قسم کی تنقید کا بوجھ یقینا برداشت کر سکتے ہیں۔ بد قسمتی سے اِسی مجسمہ پرستی نے ہماری صفوں میں عدم برداشت کے کلچر کو فروغ دے دیا ہے اور ہم کسی بھی اختلافِ رائے میں گالم گلوچ سے لہو بہانے تک کے سفر پر فخر محسوس کرتے ہیں۔

راقم کی ناقص رائے میں جب تک ہمارا عوامی شعور تنوع سے متعارف نہیں ہو گا اور جب تک ہم معاشرے میں مہذب اختلافِ رائے کے عادی نہیں ہوں گے، عدم برداشت کی کیفیت مزید پروان چڑھتی رہے گی۔ ایسے میں کتب کو بین کرنے سے لے کر لاؤڈسپیکر پر پابندی لگانے تک ہم صرف قوانین ہی بنا سکیں گے، اُن پر عملدرآمد کا شعور نہیں اجاگر کر پائیں گے۔ اور اگر صرف برداشت کو ہی فروغ دے دیا گیا تو نہ کبھی ہمیں اسلام خطرے میں نظر آئے گا اور نہ ہی ملک۔ نہ بھارت کبھی حملہ کر سکے گا اور نہ ہی یہودی لابی ہماری نظریاتی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کی کوشش کرے گی۔ جو چیز یقینی ہو گی وہ ہماری ترقی کی رفتار اور روشن مستقبل کی امید کی کرن ہو گی۔ اِس لئے ضروری ہے کہ ہم نظریات کے تنوع کا ایک مضبوط  شعور بیدار کریں اور قدامت پرستی کے ہر بت کو توڑ ڈالیں ۔

سعدالحسن ایک صحافی ہیں اور ہم نیوز میں بطور نیوز اینکر ذمہ داریاں سر انجام دے رہے ہیں۔