بائیڈن یا ٹرمپ، کون کرے گا دنیا پر راج؟ امریکی انتخابات سے جڑیں امیدیں

بائیڈن یا ٹرمپ، کون کرے گا دنیا پر راج؟ امریکی انتخابات سے جڑیں امیدیں
تین نومبر  کی آمد میں صرف ایک دن رہ گیا ہے۔ سب کی نظریں اسی ایک دن  کے انتخابات کے نتائج پر لگی ہیں، سانسیں الجھ رہی ہیں، دم آنکھوں میں آیا ہوا ہے اور امید و بیم کے جذبات اپنے عروج پر ہیں۔ ہر ذہن یہ سوال کر رہا ہے  کہ تین نومبر ان کے کے لئے کیا لے کر آئے گا؟ کیا پھر صدر بش کے انتخابات کا عمل دوہرایا جائے گا  اور اگر ایسا ہوا تو ڈیموکریٹ پھر حسب سابق خاموشی سے اپنے خلاف فیصلے کو قبول کر لیں گے؟ یا پھر کوئی ایسی حکمت عملی پر عمل کریں گے جس سے اس فیصلے کے خلاف کوئی احتجاج ہو گا۔ یا ڈیمو کریٹ کی فتح ہوگی؟ اور اگر ایسا ہوا تو کیا کوئی سماجی انتشار ہوگا۔ نقاب پوش کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق کئی ریاستوں میں لوگ گھروں میں سامان خرید کر جمع کر رہے ہیں کہ انہیں خدشہ ہے کہ   اگر جو بائیڈن جیتے تو صدر ٹرمپ کے حواری ملک میں بے چینی پھیلائینگے اب یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ اصل میں امریکی عوام کو کس نئی جہت کا سامنا ہوگا۔

کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ہمیں اس غیر یقینی کے لمحوں کو قبول کرتے ہوئے انتخابی عمل کے نتائج کا صبر سے  انتظار کرنا ہوگا، لیکن امریکی انتخابات میں صدر کا انتخاب عوام سے زیادہ الیکٹرول کالج پر ہوتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ منقسم ووٹرز کے ساتھ ساتھ الیکٹرزبھی اس تقسیم کا حصہ تو نہیں بن چکے ہیں۔بعض سنجیدہ افراد  کو یقین ہے کہ انتخابات میں کوئی بھی جیتے ، انتخابی عمل کے بعد  حسب روایت جیتنے والےصدارتی امیدوار کو  ہارنے والے  صدارتی امید وار مبارکباد دیں گے اور ایک نئے سورج کے ساتھ زندگی معمول پر آجائے گی۔

لیکن یہ بات ڈیمو کریٹ کے لئے تو درست ہوسکتی ہے مگر صدر ٹرمپ نے تو صاف طور پر اعلان کر دیا ہے کہ وہ انتخابی نتائج کو صرف اس  صورت میں قبول کریں گے اگر جیت ان کی ہوئی۔

غالب خیال یہی ہے کہ صدر ٹرمپ کی شکست کا مطلب، کورٹ کچہری اور دھاندلی کے نعرے اور ملک میں انتشار کی صورت حال ہے۔ ابھی بھی ایک خوف کی فضا  چھائی ہوئی ہے۔ عام طور پر انتخابات میں دونوں سیاسی جماعتوں کے بینرز جگہ جگہ نظر آتے ہیں  جس سے ایک انتخابی  رنگا رنگی احساس اجاگر ہوتا رہا ہے، لیکن 2020 کے انتخابات میں بہت کم  صدارتی امیدواروں کے پوسٹرز اور بینرز محلوں میں نظر آ رہے ہیں۔

آئیے کچھ ذکر اپنی پاکستانی امریکن  کمیونٹی کا ہوجائے۔ہماری اس کمیونٹی میں  کئی طبقات ہیں ، ایک طبقہ ہے جو بڑے کارباریوں، ورلڈ بینک، اور ڈاکٹروں اور وکیلوں کا ہے، اور جو عام لوگوں سے دور ہی رہتے ہیں اور  جن کا کام مختلف امریکی سیاستدانوں کے لئے  اپنے گھروں میں فنڈ ریزنگ کرا کے اپنے کاروباری مفاد کو مزید محفوظ کرنا ہے۔ دوسرا طبقہ  تعلیم یافتہ محنت کشوں کا ہے جن میں اساتذہ ہیں،  صحافی ہیں ،انفارمیشن ٹکنالوجی   کے لوگ ہیں، رئیل اسٹیٹ  میں کام کرنے والے ہیں یا پھر چھوٹے کاروباری ہیں  جو اس کوشش میں ہیں کہ کس طرح اولین طبقے کی نمائندگی حاصل کر لیں ۔ ،تیسرا طبقہ ان محنت کشوں کا ہے جو ٹیکسیاں چلارہے ہیں، آڈ جابس کر رہے ہیں اور  اپنی زندگی اور بچوں کی بہتر تعلیم کے  لئے کوشاں ہیں ان کے نزدیک تعلیم ہی ان کے بچوں کی بقا ہے۔

کل اسی طبقئہ اول سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون سے بات ہو رہی تھی اور وہ ”اکیسویں صدی کے ترقی یافتہ پاکستان “ کا ایسا نقشہ کھینچ رہی تھیں کہ نقاب پوش کو اپنی کم مائیگی کا احساس ہونے لگا۔ پوچھا یہ کب ہوا؟ بولیں جب سے عمران خان نے ملک کی باگ ڈور سنبھالی ہے۔

عرض کیا کہ باگ ڈور تو خیر کسی اور نے سنبھالی ہوئی ہے بولیں ایسا ممکن نہیں۔ اور جب انہیں ملک  میں بڑھتی مہنگائی، شہروں کی ٹوٹ پھوٹ، گندگی، بڑھتی ہوئی بد عنوانی  اور بے تحاشہ غربت کے بارے میں بتایا تو بہت حیران ہوئیں”اچھا؟؟؟ مگر میں نے تو  یہ سب نہیں سنا۔“  پھر رک کر بولیں ویسے میں تو شاید بیس سال سے پاکستان گئی ہی نہیں۔پھر چند لمحوں بعد بولیں اگر پاکستان ترقی نہیں کر رہا تو کیوں؟؟؟؟ عرض کیا پاکستان کی ساری شناخت تو کفیل کے پاس گروی رکھی ہے، ترقی کرے بھی تو کیسے؟