امریکی صدارتی الیکشن 2020 اور پاکستان : جوبائیڈن آجائے یا ٹرمپ، امریکا کے لئے پاکستان کی اس وقت کوئی اہمیت نہیں'

امریکی صدارتی الیکشن 2020 اور پاکستان : جوبائیڈن آجائے یا ٹرمپ، امریکا کے لئے پاکستان کی اس وقت کوئی اہمیت نہیں'

پاکستان اور امریکہ تعلقات  ماضی میں ہمیشہ اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں۔ سویت یونین کے خلاف سرد جنگ میں پاکستان کی اہمیت بڑھ گئی جبکہ 9/11 کے واقعات کے بعد امریکہ کو افغانستان میں جنگ لڑنے کے لئے پاکستان کی شدید ضرورت پیش آئی جس کی بنیادی وجہ طالبان پر پاکستان کا اثر رسوخ اور افغانستان میں مقیم نیٹو افواج کو دفاعی اور دیگر سامان پہنچانے کے لئے پاکستان کے علاوہ کوئی دوسرا مناسب روٹ  کی عدم موجودگی تھا۔


9/11 کے بعد پاکستان امریکہ تعلقات میں کئی بار کشیدگی پیدا ہوئی جس میں سر فہرست قبائلی ضلع مہمند میں ایک پاکستانی چیک پوسٹ سلالہ پر امریکی حملہ اور اس کے بعد سیاسی اور عسکری قیادت کی جانب سے رد عمل تھا۔ اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں ہلاکت سے میمو گیٹ اور کیری لوگر بل سمیت پاکستان پر افغان طالبان کی پشت پناہی سمیت دیگر الزامات کی وجہ سے  تعلقات میں کافی تناؤ اور سردمہری دیکھنے میں آئی مگر تجزیہ کاروں کے مطابق یہ تناؤ اور سردمہری  عارضی واقع ہوتی رہی ہے۔  تاہم  چار سال قبل امریکہ میں انتقال اقتدار کے بعد نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے  کے بعد پاک امریکہ تعلقات میں وہ گرم جوشی  دیکھنے میں نہیں آئی اور نئے امریکی صدر نے  نہ صرف پاکستان کی دہشتگردی کے خلاف قربانیوں کو پس پشت ڈال دیا بلکہ پاکستان پر کئی بار امریکہ کے ساتھ افغان جنگ میں دھوکہ اور افغان طالبان کی پشت پناہی کا الزام لگایا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کو ملنے والی امداد کو بند کردیا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ فوجی مد میں دی جانے والی امداد بھی بند کردی۔ حال ہی میں امریکہ اور ہندوستان کے درمیان دفاعی معاہدے پر نہ صرف پاکستان نے تحفظات کا اظہار کیا بلکہ اس کے ساتھ چین کے بھی تحفظات ہیں۔


امریکہ میں چار سال بعد انتخابات ہورہے ہیں اور ریپبلکن پارٹی کے  امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ ایک بار پھر میدان میں ہیں جن کا مقابلہ ڈیموکریٹ  پارٹی کے امیدوار جوبائیڈن سے ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق  الیکشن کی دوڑ میں اس وقت تک ڈیموکریٹ امیدوار جو بائیڈن مقابلے میں اگے ہیں۔ لیکن کیا انتقال اقتدار کے بعد پاکستان کے ساتھ امریکی تعلقات میں ایک نئے دور کا اغاز ہوگا یا پھر اعتماد کی فضا واپس بحال کرنا اب ناممکن ہے؟


پاکستان امریکہ تعلقات پر نظر رکھنے والے دفاعی تجزیہ کار لیفٹنٹ جنرل (ر) طلعت مسعود سمجھتے ہیں کہ امریکہ میں انتقال اقتدار کے نتیجے میں ڈیموکریٹ امیدوار جوبائیڈن کا صدر بننا ایک نیک شگون ہے مگر وہ کہتے ہیں کہ میں  نہیں سمجھتا کہ تعلقات کے حوالے سے  کوئی نئی راہیں کھل سکتی ہیں۔ لیکن پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کو تعلقات میں بہتری لانے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ سرد تعلقات کو دوبارہ سے ایک نئی شکل دی جائے۔


انھوں نے مزید کہا کہ ڈیموکریٹ پارٹی کے امیدوار جوبائیڈن کی پالیسیوں اور الیکشن منشور سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ جارہانہ نہیں اور میانہ روی کے حامی ہیں لیکن اس میں پاکستانی قیادت کا بھی ایک اہم کردار ہوگا کہ وہ کیسے تعلقات کو بہتر بناسکتے ہیں ۔ انھوں نے مزید کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار میں انے کے بعد انھوں نے ہمارے پڑوسی ملک ہندوستان کو بہت اہمیت دی اور انھوں نے پاکستان کی سیاسی اہمیت سے ہمیشہ انکار کیا۔  لیکن پاکستان کے لئے کبھی نقصان دہ راستے کا انتخاب نہیں کیا ۔  طلعت مسعود سمجھتے ہیں کہ جوبائیڈن کے اقتدار میں آنے کے بعد امریکا کو پاکستان اور انڈیا کے ساتھ تعلقات کو ساتھ ساتھ لے کر چلنا ہوگا کیونکہ اگر ان کا جھکاؤ اگر ہندوستان کی طرف زیادہ ہوگا تو پاکستان کے ساتھ پھر تعلقات مستحکم نہیں ہوسکتے۔


 اس سوال  کے جواب میں کہ  کیا پاکستان  ، چین اور امریکہ کے ساتھ تعلقات کو بیک وقت اگے لے کر جاسکتا ہے؟ طلعت مسعود صاحب کی رائے تھی  کہ پاکستان نہ تو امریکہ اور نہ چین کے ساتھ تعلقات کی اہمیت سے انکار کرسکتا ہے اس لئے پاکستان کی کوشش ہوگی کہ وہ دونوں کے ساتھ تعلقات کو آگے لے کر جاسکے۔ طلعت مسعود صاحب کا ماننا ہے کہ چین پاکستان کا ایک اہم دوست ملک ہے اور چین نے ماضی میں پاکستان کو کئی مواقع پر سپورٹ کیا اور اب چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور بھی پاکستان کے لئے اہمیت کا حامل ہے جن سے پاکستان کی تقدیر بدل سکتی ہے اس لئے پاکستان سی پیک پر سمجھوتہ نہیں کرسکتا۔


لیکن بیک وقت امریکہ کے تعلقات سے بھی انکار نہیں کرسکتا کیونکہ اگر چین پاکستان کا دوست ہے تو پھر پاکستان تجارت اور ٹیکنالوجی میں امریکہ کی طرف دیکھتا ہے۔ اس لئے میں سمجھتا ہو کہ پاکستان کے لئے کسی ایک کا انتخاب کرنا دانشمدانہ فیصلہ نہیں ہوگا اور پاکستان کو اس کا ادراک ہے کہ ہم نے چین اور امریکہ کے ساتھ بنا کر رکھنی ہے۔


پاکستان کے معروف صحافی اور تجزیہ کار آیاز امیر،  لیفٹنٹ جنرل (ریٹائرڈ) طلعت مسعود صاحب کی رائے سے اتفاق نہیں کرتے کہ جو بائیڈن کا اقتدار میں آنا کوئی نیک شگون ہے۔ بلکہ ان کا ماننا ہے کہ اقدار میں ڈونلڈ ٹرمپ آجائے یا پھر جو بائیڈن  اس سے کچھ فرق نہیں پڑے گا کیونکہ امریکہ کے جو خدشات ہیں اس میں ہم کہیں فٹ نہیں ہوتے۔ کیوں کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات ماضی میں اور اب خطے میں واقعات پر انحصار کرتے ہیں کہ جب بھی کوئی مسئلہ بن جائے اور امریکہ کو ہمارے تعاون کی ضرورت ہو تو ہماری طرف ہاتھ بڑھا لیتا ہے باقی امریکہ کے تعلقات میں ہماری کوئی اہمیت نہیں ۔


انھوں نے مزید کہا کہ پاکستان کی اہمیت صرف افغانستان تک محدود تھی اور جب امریکہ نے کہا کہ ہم نے کرسمس سے پہلے نکلنا ہے تو وہ بھی ممکن نہیں ہوا اور جو ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی ہے وہی پالیسی افغانستان پر ڈیموکریٹ امیدوار جو بائیڈن کی بھی ہوگی ایسا نہیں کہ  ان کی پالیسی میں انقلاب آجائے گا جیسے ہمارے ہاں خوش فہمی ہے کہ امریکہ میں انتقال اقتدار کے بعد ہمارے لئے تعلقات کے نئے دروازے کھل جائینگے ایسا بلکل نہیں ۔ کیونکہ امریکہ کے خطے کے حوالے سے پالیسی میں ہم کہی فٹ نہیں ہورہے ہیں تو وہ تعلقات کے لئے نئے راستے کیوں کھول دیں۔


ایاز امیر صاحب کا ماننا ہے کہ خطے میں کوئی تبدیلی آئے گی اور امریکہ کو ہمارے تعاون درکار ہوگی تو وہ اس کے مطابق چلے گا باقی امریکہ میں اس وقت ہماری کوئی اہمیت نہیں اور ان ہی پالیسیوں کا تسلسل جاری رہیگا۔


ایک سوال کے جواب پر کہ کیا افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد پاکستان کی اہمیت برقرار رہے گی پر لیفٹنٹ  جنرل (ریٹائرڈ) طلعت مسعود کا کہنا ہے کہ لوگوں کو اس غلط فہمی سے نکلنا ہوگا کہ پاکستان  کی اہمیت صرف افغانستان کی وجہ سے ہے بلکہ ماضی میں چین اور امریکہ کے تعلقات اتنے بگڑ گئے کہ وہ ایک دوسرے کی اہمیت کو تسلیم نہیں کرتے تھے اور یہ پاکستان ہی تھا کہ انھوں نے کھڑے پانی میں حرکت پیدا کی اور چین اور امریکہ تعلقات میں بہتری پیدا ہوئی۔ انھوں نے مزید کہا کہ پاکستان کی جغرافیائی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور امریکہ کو اس بات کا احساس ہے کیونکہ اگر ایک پر امن پاکستان سب کی اہمیت میں ہے اگر افغانستان میں امن قائم نہیں ہوگا تو پاکستان سمیت کئی ملکوں میں امن کا خواب ناممکن ہے۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔