بغداد ،کشمیر اور صوبہ گلگت بلتستان

بغداد ،کشمیر اور صوبہ گلگت بلتستان
منگول ابھی بغداد سے کوسوں دور تھے مگر ان کی بربریت دہشت اور ظلم کی داستانیں ہر طرف گردش کر رہی تھیں. اسی اثنا میں جب ہلاکو خان نے  عباسی خلیفہ معتصم باللہ کو خط لکھ کر اپنی اطاعت کرنے کو کہا تو معتصم باللہ کے جواب نے ہلاکو خان کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا. خلیفہ نے لکھا:


کیا تم سمجھتے ہو کہ اپنی فوجی طاقت سے ستارے کو" زنجیروں میں جکڑ لو گے؟ تم بھول رہے ہو کہ مشرق سے مغرب تک اللہ کی عبادت کرنے والا ہر شخص ہمارے دربار کا غلام اور ہماری فوج کا حصہ ہے اگر تم اپنی خیریت چاہتے ہو تو جہاں سے آئے ہو وہیں لوٹ جاؤ" -


یہ خط معتصم باللہ  کی خوداعتمادی اور فوج طاقت کا مظہر تھا - ہلاکو خان نومبر1257 میں بغداد کی جانب بڑھا  تو معتصم باللہ  نے ایک اور خط بھیجوایا

" تم جتنا سونا چاہو مجھ سے لے لو مگر حملہ مت کرنا"


1258 کو منگول بغداد شہر کے باہر کھڑے تھے اور فروری کے اوائل میں شہر کی دیوار توڑ کر ظلم و جبر کی وہ داستان قائم کی جس کی مثال تاریخ آج بھی پیش کرنے سے قاصر ہے- ہلاکو خان اور معتصم باللہ جیسے کردار ہر دور میں روپ بدل بدل کر مختلف اقوام پر مسلط رہے ہیں-


جدید دور میں بھی ایسے کردار دیکھنے کو ملتے ہیں مگر روپ اور انداز مختلف ہوتا ہے- پاکستان کے وزیر اعظم جناب عمران خان اور معتصم باللہ میں بلا کی مماثلت ہے- دونوں کا طرز تخاطب  ڈرا دینے والا ہے- دونوں اپنے مخالفین کو حقیر سمجھتے ہیں- فرق یہ ہے کہ یہ پاکستان ہے بغداد نہیں، اکیسویں صدی ہے تیرھویں نہیں -   وقت اور جگہ کا بدلاؤ  تو ہے مگر شخصی خصلتوں کا نہیں-دونوں کمزور مگر متکبر-اقوام متحدہ میں عمران خان کی کشمیر پر تقریر سن کر کون کہہ سکتا ہے کہ فتح کشمیردورہے۔


اگست ٢٠١٩ سے پہلے پورے کشمیر کے  سفیر مگر اس کے بعد یہ راگ کہ وہ چاہے تو رکھ لو، اگر آزاد کشمیر میں دراندازی کی تو اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے گا- گلگت بلتستان کو آئینی صوبے کی حیثیت دینے کا اعلان کر کے کشمیریوں کے ساتھ اپنے حصے کا دھوکا کیا بھارت میں آرٹیکل ٣٧٠ کی خلاف ورزی اور پاکستان میں آرٹیکل کی ٢٥٧ کی دھجیاں بکھیری گئیں


بہانہ یہ کہ گلگت کے عوام  ایسا چاہتے ہیں، چاہت کی بات ہوئی ہے تو پھر پروین شاکر کا شعر یاد آ گیا ہے کہ


؎ بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی


استحصال اور استبداد کے دلدل میں دھنسے کشمیریوں سے تو کبھی نہیں پوچھا گیا کہ وہ کیا چاہتے، سونے پر سہاگہ یہ کہ کشمیر کے حکمرانوں سے گلگت کے مسئلہ پر بات  تک نہیں کی گئی - ہمارا نام نہاد سفیر خود ہماری  تذلیل کر رہا ہے اور ہمارے سیاسی تشخص پر سوالیہ نشان چھوڑ رہا ہے-

 دوسری جانب کشمیر کے وزیراعظم اتنے کمزور کہ نہ جماعت میں کوئی شنوائی اور نہ وفاق میں فقط رو دیئے، آنکھیں بھگو دِیں اور کمسن معشوق کی طرح گلے شکوے کر کے کشمیر پرست ہونے کا بھونڈا سا ثبوت دے دیا-  موجودہ حکمران طبقہ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی صلاحیت بالکل نہیں رکھتا اور  اب تلک بہت حد واضح ہو چکا ہے کہ مسئلہ کشمیر کی آڑ میں کن قوتوں نے فائدہ حاصل کیا ہے - مزید برآں گلگت بلتستان کے عوام کی رائے کا احترام ہر کشمیری کرتا ہے مگر چند حقائق ایسے ہیں جن سے روگردانی ممکن ہی نہیں- معائدہ امرتسر کے مطابق دریائے راوی سے لے کر دریائے سندھ کے مابین علاقہ گلاب سنگھ کو فروخت کیا گیا تھا -


گلاب سنگھ جموں کا تعلق جموں سے تھا-یہ معاہدہ  ١٨٤٦  میں برطانوی حکومت اور گلاب سنگھ کے مابین ہوا - ١٨٦٦ میں چلاس، یاسین اور داریل کا علاقہ کشمیری افواج نے فتح کر کے ریاست آزاد جموں و کشمیر میں شامل کرلیا -  بعد ازاں اس سارے شمالی علاقے کو کشمیر حکومت نے "وزارت گلگت" کا نام دیا- برطانوی سرکار نے  روس اور چین پر کڑی نظر رکھنے کے لیے ١٩٣٥ میں  معائدہ گلگت کے نام سے ڈوگرہ حکومت سے ایک معاہدہ کیا  جس کے مطابق گلگت کا نظم و نسق ڈوگرہ حکومت سے تقریباً جبری طور پر چھین کر  براہ راست برطانوی مرکز کو منتقل کر دیا گیا- اس معاہدے کی مدت ساٹھ برس تھی - ١٩٤٧ کی تقسیم ہند کے بعد باقی معائدوں کی طرح یہ معائدہ بھی منسوخ ہو گیا اور گلگت بلتستان دوبارہ ریاست کشمیر کا حصّہ بن گیا-


آگے چل کر ١٩٤٩ میں معائدہ کراچی، جو کہ آزاد کشمیر اور پاکستان کے مابین ہوا، کے بعد پاکستان نے گلگت کا کنٹرول عارضی طور پر لیا-مگر اہم بات یہ ہے کہ اس معاہدے کی شقوں میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ گلگت بلتستان کشمیر کا حصہ ہے جس کا انتظام عارضی طور پر پاکستان کے پاس رہے گا-


اب ان حقائق کی روشنی میں پاکستان کا گلگت بلتستان کو صوبائی حیثیت  دینا کشمیر اور اس میں بسنے والے کروڑوں لوگوں کے ساتھ دھوکہ ہوگا- لائن آف کنٹرول پر ٤٨ سال سے بسنے والے لوگوں کی قربانیوں کو یکلخت فراموش کرنا ایک المیہ ہے-ہونا تو یہ چاہیے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت رائے شماری ہونے تک گلگت بلتستان کی حیثیت کو برقرار رکھا جائے اور رائے شماری میں عوام کے انتخاب کو ترجیح دی جائے - پھر چاہے گلگت کے باسی پاکستان کے ساتھ رہیں یا اپنی اصل کشمیر کے ساتھ- تب تک گلگت بلتستان کو پاکستان کے ساتھ منسلک کرنے کا کوئی بھی فیصلہ بین الاقوامی سطح پر کالعدم ہو گا اور یہ قدم بھی بھارت کے ٥ اگست والے اقدام کی طرح یکطرفہ ہو گا-

٧٣ سالوں سے چکی کے دونوں پاٹوں میں پسنے والے کشمیری اب مزید کسی بھی علاقائی یا جسمانی بربریت کےمتحمل نہیں ہو سکتے-

منصور احمد کٹاریہ وکالت کے طالب علم ہیں ، انکا تعلق کشمیر سے ہے اور وہ جموں کشمیر سٹوڈنٹ کونسل لاہور کے صدر ہیں۔