راولپنڈی کے مضافات میں ددوہوچھہ ڈیم: ڈیم کے متاثرین آج تک انصاف کے متلاشی ہیں

راولپنڈی کے مضافات میں ددوہوچھہ ڈیم: ڈیم کے متاثرین آج تک انصاف کے متلاشی ہیں
ددوہوچھہ ڈیم کی بازگشت 1970 میں تھی ۔ ددوہوچھہ ڈیم کے منصوبے پر باقاعدہ کام 2006 میں شروع کیا تھا اور اس وقت کی انتظامیہ نے  اراضی ایکوائر کی تھی۔ آئین کے مطابق ایکوائر کی گئی زمین پر ایک سال کے اندر اندر منصوبہ شروع کیا جانا ضروری ہوتا ہے۔ وزیراعلیٰ کی صوابدید پر صرف 2 ماہ کی توسیع مل سکتی ہے  اور آخری توسیع صرف ایک ہفتہ تک کی دی جا سکتی ہے۔ اس سے زیادہ کی آئین اور قانون میں کوئی گنجائش نہیں ہوتی ہے۔ آئین اور قانون کے مطابق منصوبے کانوٹیفکیشن ختم کردیا جاناچاہیئے تھا۔
یہ ڈیم راولپنڈی کے مضافات میں موضع ددہوچھہ راجگان کی زمینوں پر بنایا جارہا ہے۔ دوہوچھہ ڈیم کے منصوبہ اور ڈی ایچ اے کے ہاوسنگ پراجیکٹ سے 22 موضعات براہ راست متاثر ہوتے ہیں اور 3200کنال اراضی ایکوائر کی گئی ہے۔انتظامیہ نے اگست 2020 میں متاثرین کو نوٹس ارسال کیے کہ زمین ایکوائر کیے جانے پر اعتراضات داخل کرائیں گے اور اس کے بعد پرائس ایوارڈ کا اعلان کیا جائے۔ مگرانتظامیہ نے بدنیتی سے کام لیتے ہوئے اعتراضات سنے بغیر پچھلی تاریخوں میں پرائس ایوارڈ کا اعلان دیا اور قابل کاشت زمینوں کو بنجر ظاہر کرتے ہوئے اپنی مرضی کے ریٹ مقرر کردیئے ۔ جس پر متاثرین نے عدالت سے رجوع کیا۔عدالت عالیہ نے متاثرین کے اعتراضات سننے اور معاوضوں کی ادائیگی کے لئے مارکیٹ کے مطابق ریٹس مقرر کرنے کاحکم صادر کیا مگر عملدرآمد کی بجائے کیس سپریم کورٹ میں لے جایا گیا ہے۔
ددوہوچھہ ڈیم اور ڈی ایچ اے ویلی کے متاثرین کی کمیٹی کے کنوینر  اکمل ریاض کیانی کے مطابق انتظامیہ کے رویے اور سلوک سے ایسا لگتا ہے کہ ہم پاکستان کے شہری نہیں ہیں ۔ ہم پر کوئی قبضہ مافیا مسلط ہے جو اونے پونے میں ہماری جائیدادوں کو چھین رہا ہے۔مارکیٹ کے مطابق فی کنال اراضی کی قیمت 60 لاکھ ہے جبکہ متاثرین 30 سے 40 لاکھ ڈیمانڈ کر رہے ہیں۔ ساتھ ڈی ایچ اے  انتظامیہ 80 لاکھ کی ڈیمانڈ کر رہی ہے۔اکمل ریاض کیانی کا کہنا ہے کہ حقوق نہ دیئے گئے تو نہ ختم ہونے والا احتجاج کیا جائے گا۔
متاثرین کو ڈی ایچ اے اور نہ ہی ڈیم انظامیہ کی طرف  سےمعاوضہ ادا کیا گیا ہے۔ متاثرین 2006 سے عدالتوں کے چکر کاٹ رہے ہیں۔2020 میں مزید زمیں ایکوائر کی گئی ہے۔ جس میں متاثرین کے گھر اور قیمتی جائیدادیں بھی ہیں۔ متاثرین میں شدید تشویش پائی جاتی ہے کہ شہری  قومی منصوبوں کےلئےاپنی زمینوں ،گھروں اور جائیدادوں کی قربانی دیتے ہیں مگر ریاستی ادارے ناروا سلوک روا رکھتے ہیں۔ متاثرین کے ساتھ آئین اور قانون کے مطابق معاملات طے کرنے کی بجائے دھونس اور دھاندلی سے کام لیا جاتا ہے۔
متاثرین چاہتے ہیں کہ ددوہوچھہ ڈیم کی زد میں آنے والی اراضی کے عوض زمینیں دی جائیں اور اگر زد میں گھر آتے ہیں تو گھر دیئے جائیں ۔ بصورت دیگر ماڈل ویلج بناکر متاثرین کو بسایا جائے۔ متاثرین کے مطالبات کو دیکھاجائے تو ایک مطالبہ بھی ایسا نہیں ہے کہ جو غیر حقیقی یا ناجائز ہو۔
ددوہوچھہ ڈیم انتظامیہ اور ریاستی اداروں کی جانب سے متاثرین سے آئین اور قانون سے ماورا برتاؤ کیا جارہا ہے۔ ڈیم منصوبہ اور ڈی ایچ اے ویلی کےلئے ایکوائر کردہ زمینوں کے معاوضہ جات نہیں دیئے گئے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایف ڈبیلو او نے ددوہوچھہ ڈیم کی سائٹ پر کام کا آغاز کیا ۔ جس پر متاثرین نے احتجاج کیا کہ جب تک معاوضہ جات اور متاثرین کے مطالبات سنے نہیں جاتے کام شروع نہیں کیا جاسکتا ہے۔احتجاج کے بعد ایف ڈبیلو اونے کام بند کردیا ہے۔
وزیراعظم ،چیف جسٹس آف پاکستان  متاثرین کے ساتھ روا رکھے جانے والے ظلم کا فوری نوٹس لیں  اور انصاف فراہم کریں۔متاثرین کے مطالبات پر غور کیا جائے تاکہ کسی خوش گوار صورتحال سے بچتے ہوئے معاملات خوش اسلوبی سے طے پا جائیں اور ڈیم کی تعمیر بلاتعطل جاری رکھی جا سکے۔ امید ہے کہ متعلقہ  ریاستی اداروں اور حکومت کی جانب سے متاثرین کے مطالبات منظور کرتے ہوئے تمام حقوق  دیئے جائیں گے۔

مصنف ایک لکھاری اور صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے کارکن بھی ہیں۔