• آن لائن اشتہاری ٹیرف
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • ہمارے لئے لکھیں
  • نیا دور انگریزی میں
اتوار, مارچ 26, 2023
نیا دور
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
نیا دور
No Result
View All Result

معاشی نظام لرز رہا ہے، سوشلزم ہی بحران کو حل کرے گا

حسنین جمیل فریدی by حسنین جمیل فریدی
ستمبر 29, 2021
in تجزیہ
9 0
0
معاشی نظام لرز رہا ہے، سوشلزم ہی بحران کو حل کرے گا
11
SHARES
51
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on Whatsapp

‘جب میں کسی غریب کو کھانا کھلاتا ہوں تو مجھے نیک اور پارسا کہا جاتا ہے مگر جب میں سوال کرتا ہوں کہ غریب کے پاس کھانا کیوں نہیں ہے تو مجھے کیمونسٹ کہا جاتا ہے ۔’ (ہیلڈر کمارا)

سب سے پہلے تو یہ واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ سوشلسٹ یا کیمونسٹ کا مطلب ہر گز لادین ہونا نہیں اور نا ہی اسکا تعلق کی مذہبی یا غیر مذہبی سوچ سے ہے بلکہ یہ خالصتاً ایک معاشی نظریہ ہے جو پورے سماج کو مذہبی و علاقائی تفریق کے بغیر معاشی برابری کی بات کرتا ہے۔ یہ نظریہ معاشرے کے امیر و غریب کی تفریق کو ختم کرکے سب انسانوں کو ان کی محنت کے درست اور جائز معاوضے کے حصول کی جدوجہد کا نظریہ ہے۔ اس نظام میں حکومت تمام شہریوں کو برابر معاشی حقوق دیتی ہے اور دولت چند ہاتھوں کی بجائے پورے معاشرے میں مساوانہ طور پر تقسیم کی جاتی ہے۔ یہ نظام ترقی کرنے کیلئے تمام انسانوں کو برابر مواقع فراہم کرتا ہے اور کسی کی بھی محنت کا استحصال کرنے سے روکتا ہے ۔ سوشلزم کا نظریہ اس مزدور کے حق کی تائید کرتا ہے جو صبح شام ہماری ضروریاتِ زندگی کی اشیاء تو پیدا کرتے ہیں مگر خود ان ضروریات سے محروم ہیں۔اسی لئے کہا جاتا ہے کہ کسی برینڈ میں کام کرنے والا مزدور اپنے ہاتھ سے بنائی (اسی برینڈذ کی) اشیاء خریدنے سے قاصر ہے۔

RelatedPosts

انگریز سامراج کے خلاف آزادی کی جنگ لڑنے والا بھگت سنگھ ہمارا ہیرو کیوں نہیں بن سکا؟

سرمایہ دارانہ نظام اور کمیونزم میں سے کون سا نظام بہتر ہے؟

Load More

80 کی دہائی میں جب افغانستان میں سوشلسٹ روس کو شکست دینے کیلئے امریکہ سامراج نے مجاہدین پیدا کئے تو انہوں نے مذہب اور ملاؤں کا استعمال کیا اوراس نظرئیے کو زبردستی مذہب سے جوڑنے کی کوشش کی۔ مولویوں کو ڈالرز سے نواز کر سوشلسٹوں اور کیمونسٹوں پر کافر ، ملحد اور لادین ہونے کے فتوے لگائے تا کہ مجاہدین انکی آپسی لڑائی کو اپنی مذہبی لڑائی سمجھ کر لڑیں۔ بعد ازاں وہی مجاہدین طالبان بنے اور نائن الیون کے بعد وہی درینہ دوست ایک دوسرے کے ازلی دشمن بن گئے۔ اس جنگ کا سب سے زیادہ نقصان پاکستان اور افغانستان کو ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ اس جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے اور طالبان کو مضبوط کرنے کی وجہ سے ہمارا ہمسایہ ملک افغانستان آج تک پاکستان سے سخت ناراض ہے۔ امریکہ نے اس خطے کو نہ صرف مذہبی جنگ میں دھکیلا مگر اپنا فرسودہ معاشی نظام لاگو کر کے اسے معاشی طور پر بھی تباہ و برباد کر دیا۔

کیمونسٹ یا سوشلسٹ مذہب کے ہر گز خلاف نہیں مگر وہ مذہب کے سیاسی استعمال کے خلاف ہیں اور سمجھتے ہیں کہ چونکہ مذہب ہر انسان کا ذاتی معاملہ ہے اس لئے ریاستی امور میں اس کی مداخلت نہیں ہونی چاہئیے ۔ بہر حال موجودہ معاشی نظام بھی ایک سیکولر نظام ہے تو سوال یہ ہے کہ اگرایک انسان دشمن اور ناکارہ سرمایہ دارانہ (سیکولر نظامِ معیشت) چلایا جاسکتا تو ایک انسان دوست اور مزدور دوست (سیکولر) سوشلسٹ نظام کیونکر حرفِ تنقید بنایا جاتا یے؟

پاکستان میں اس وقت سرمایہ دارانہ معاشی نظام اپنی پوری آب و تاب سے رائج ہے۔ جس کی بنیاد سرمایہ داروں کو تحفظ پہنچانا اور غرباء پر ٹیکسوں کی بوچھاڑ کرنا ہے۔ ورلڈ بنک ، آئی ایم ایف اور دیگر سامراجی اداروں کی ترقی کا پیمانہ سرمایہ داروں کی دولت میں اضافے سے مشروط ہے جبکہ غربت اور بے روزگاری میں اضافہ انکے معنوں میں ہی شامل نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آئی ایم ایف پاکستان کو جب بھی قرضہ دیتا ہے تو ساتھ شرائط لاگو کرتا ہے کہ یہ پیسہ کسی بھی عوامی فلاحی منصوبے پرخرچ نہیں ہوگا اور ان شرائط میں سب سے ظالم شرط یہ رکھی جاتی ہے کہ بجلی، گیس اور اشیائے خردونوش کی قیمتوں میں اضافہ کیا جائے وگرنہ آئی ایم ایف قرضے کی قسط نہیں دے گا۔ پاکستان میں حالیہ مہنگائی کی لہر آئی ایم ایف کی شرائط کی ہی مرہون منت ہے جسے کوئی بھی حکومتی اہلکار میڈیا پر نہیں لاتا اسکی وجہ شاید یہی ہے کہ حکمران اس نظام کے ہاتھوں بے بس ہیں مگر کھل کر اظہار نہیں کر پاتے۔

حکومت کے پہلے سال میں ہی اسلامی فلاحی ریاست کا نعرہ لگانے والی امیر المومنین کی حکومت نے آئی ایم ایف کے آگے گٹنے ٹیک دئیے اور عالمی اداروں کے کہنے پر آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے تنخواہ دار ملازمین کو پاکستان کا وزیر خزانہ اور سٹیٹ بنک کا گورنر لگا دیا۔ نیو لبرل معیشیت کے ان دونوں کارندوں نے آتے ہی معشیت کو آئی ایم ایف کے تابع کیا، امیروں اور مافیاز کو ٹیکس چھوٹ دی گئیں جبکہ آئی ایم ایف کے حکم پر مہنگائی میں اضافہ کیا، عوام کو دی گئی سبسیڈیز ختم کیں، نجکاری کا ختم نہ ہونے والا سلسلہ شروع کیا اور مہنگائی میں اضافہ کرنے کیلئے تمام شعبوں میں پرائیویٹ مافیہ کو کھلی چھوٹ دے دی۔ مگر جب بھی عوام نے ان سے پوچھا کہ ہمارے لئے کیا کِیا تو انہیں خسارے کا لولی پاپ دیا گیا جو عوام سے ہی ٹیکسوں کی بھر مار کی صورت پورا کیا جارہا ہے۔

ایک مشہور معشیت دان نیورل روبینی نے سرمایہ دارانہ نظام کی حقیقت ان دو لائنوں میں بیان کی ہے کہ
’ہم غیر ضروری طور پر ایک ایسے نظام کو جاری رکھے ہوئے ہیں جہاں منافع نجی ملکیت سمجھا جاتا ہے جبکہ خسارہ اجتماعی ملکیت سمجھ کر پورا کیا جاتا ہے‘

جدید سرمایہ دارانہ نظام مذہبی نقطہ نظر سے بھی خالصتاً اسلامی اصولوں کے منافی ہے۔ سٹیٹ بنک سے لیکر تمام چھوٹے بڑے بنک بھی نظامِ سود پہ چلتے ہیں۔ بلا سود بنکاری نظام کے نام پہ سود کے لفظ کو منافع کہہ کر عوام کو گمراہ کیا جارہا ہے۔ لوگوں کو قرضے دیکر دس سے پندرہ فیصد تک سود وصول کیا جاتا ہے اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کا یہ سودی نظام، اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اپنی تمام رعنائیوں سے جاری و ساری ہے۔ اسی لئے سوشلسٹ نظام معشیت اسلامی معاشی نظام کے قریب ترین سمجھا جاتا ہے جبکہ سرمایہ دارانہ کی اساس جو کہ سود ہے دونوں نظاموں کی نظر میں انسان دشمن ہیں۔

اس وقت معاشرے میں پائی جانے والی امیر و غریب کی بڑھتی ہوئی نا ہمواری کو ختم کرنے کا ایک ہی حل ہے وہ یہ ہے کہ سوشلسٹ نظام کو بروئے کار لاتے ہوئے امیروں پر ٹیکس کو مزید بڑھایا جائے اور ان سے حاصل ہونے والا سرمایہ غریبوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جائے۔ علاوہ ازیں مزدوروں اور کسانوں کا استحصال کرنے والے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کیخلاف کاروائی کی جائے۔ ہر فیکٹری کو مزدوروں کی بنیادی تنخواہ کم از کم 40000 مقرر کی جائے تاکہ وہ مستحق ایک بہتر زندگی گزار سکیں ۔ تمام فیکٹریوں کے مالکان اپنا بنک بیلنس بھرنے اور غیر ضروری آسائشوں کی بجائے قانونی اور جائز منافع کما کر باقی ان مزدوروں میں تقسیم کریں جن کی محنت سے انکی فیکٹری یا کارخانے چل رہے ہے۔ بین الاقوامی سطع پر بھی سوشلسٹ ہی ہیں جو غریب ممالک کا استحصال کر کے انہیں دیئے گئے قرضوں کی ادائیگی معاف کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اسی لئے سوشلسٹ نظام سخت شرائط پر دئیے گئے قرضوں اور ان کی مد میں رکھے گئے سود کی بھر پور مخالفت کرتا ہے۔

یقیناً سوشلسٹ یا کیمونسٹ نظام معیشت مکمل طور پر اس وقت دنیا میں کہیں رائج نہیں ہے مگر یہ انسان دوست معاشی نظام اس وقت پوری دنیا کی ضرورت ہے اور حالیہ بحران کے بعد ایک دفعہ پھر ایک بہترین متبادل بن کر سامنے ابھرا ہے۔ فری مارکیٹ اکانومی کا نظام (جس کی بنیاد ہی قیمتیں طے کرنا مارکیٹ پر منحصر ہے)  کے باعث مہنگائی میں ہوشرباء اضافہ ہوا ہے جہاں مافیہ نے چینی، آٹا اور ادویات کی قیمتوں میں دوگنا اضافہ کر دیا ہے مگر انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ادھر حکومت آئی ایم ایف کی ہتھکڑیوں کے باعث بے بس نظر آتی ہے۔ جبکہ غریبوں سے بنیادی انسانی ضروریات چھینی جارہی ہیں ۔ مہنگائی اور بے روزگاری نے مڈل کلاس کو نچلے طبقے میں لا کھڑا کیا ہے جبکہ غریب مزید پس کر پاتال لوک بن گئے ہیں۔ 

کرونا وائرس نے نیو لبرل اکانومی اور جدید سرمایہ دارانہ نظام کا بھیانک چہرہ بے نقاب کر دیا ہے جہاں غریب مزدور کو کرونا سے مرنے کا ڈر نہیں بلکہ بھوک سے مر جانے کا ڈر لاحق ہے۔ اس وائرس نے بین الاقوامی یکجہتی کو دوبارہ زندہ کر دیا ہے جس کی رو سے سرمایہ دارانہ نظام ایک زہر قاتل بن کر سامنے آیا ہے۔ اس حقیقت کا انکشاف خود اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے کیا ہے۔

سرمایہ دارانہ قوتیں روس کی شکست کے بعد سوچتی تھیں کہ یہ نظریہ مر چکا ہے اور کبھی اٹھ نہیں سکے گا، مگر جدلیات کی رو سے کوئی بھی نظریہ نہیں مرتا بلکہ اپنی بہتر ہیّت اور قوت سے دوبارہ اٹھتا ہے اور موجودہ فرسودہ نظام کے تمام تضادات کو بے نقاب کرتے ہوئے ایک متبادل کے طور پہ زندہ رہتا ہے۔

دنیا کو بہتر سے بہتر بنانے کیلئے مادی جدلیات ہمیشہ پرانے اور فرسودہ نظریات سے ٹکراتی ہیں۔ شاید ان جدلیات کی منزل ایک ایسا بین الاقوامی سماج ہے جہاں سارے انسان کسی بھی مذہبی، معاشی اور معاشرتی تفریق کے بغیر برابر ہوں لہذاٰ اس استحصالی نظام کے مقابلے انسانیت کے اصولوں پہ مبنی ایک سوشلسٹ سماج ہی اس معاشرے کی حقیقی منزل ہے۔ 

Tags: بے روزگاریسرمایہ دارانہ نظامسوشلزممہنگائی
Previous Post

فیض آباد پر دھرنا: وزیر اعظم عمران خان کی تحریک لبیک سے مذاکرات کی ہدایت

Next Post

پنجابی لسانی خاندان: ‘پوٹھوہاری ،سرائیکی اور ہندکو سب ایک ہی زبان کے لہجے ہیں’

حسنین جمیل فریدی

حسنین جمیل فریدی

حسنین جمیل فریدی نیا دور کے سب ایڈیٹر ہیں۔ مصنف کی سیاسی وابستگی ’حقوقِ خلق پارٹی‘ سے ہے۔ان سے ٹویٹر پر @HUSNAINJAMEEL اور فیس بک پرHusnain.381پر رابطہ کیا جاسکتاہے۔

Related Posts

پی ٹی آئی والوں کو تشدد اور ناانصافی تبھی نظر آتی ہے جب ان کے اپنے ساتھ ہو

پی ٹی آئی والوں کو تشدد اور ناانصافی تبھی نظر آتی ہے جب ان کے اپنے ساتھ ہو

by ایمان زینب مزاری
مارچ 25, 2023
0

یہ اُس کے لیے بھی جواب ہے جو ہر پارٹی سے ہو کر پی ٹی آئی میں شامل ہوا اور آج شاہ...

عوام قدم بڑھائیں تو عاصم منیر کا کنواں، پیچھے ہٹیں تو عمران خان کی کھائی ہے

عوام قدم بڑھائیں تو عاصم منیر کا کنواں، پیچھے ہٹیں تو عمران خان کی کھائی ہے

by عبید پاشا
مارچ 24, 2023
0

کئی برس پہلے عمران خان کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں وہ یہ دعویٰ کرتے سنائی دے رہے تھے کہ...

Load More
Next Post
پنجابی لسانی خاندان: ‘پوٹھوہاری ،سرائیکی اور ہندکو سب ایک ہی زبان کے لہجے ہیں’

پنجابی لسانی خاندان: 'پوٹھوہاری ،سرائیکی اور ہندکو سب ایک ہی زبان کے لہجے ہیں'

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

No Result
View All Result

ایڈیٹر کی پسند

ہائبرڈ دور میں صحافت پر حملے؛ ذمہ دار عمران خان یا جنرل باجوہ؟ (پارٹ 1)

ہائبرڈ دور میں صحافت پر حملے؛ ذمہ دار عمران خان یا جنرل باجوہ؟ (پارٹ 1)

by شاہد میتلا
مارچ 22, 2023
1

...

معاشی لحاظ سے پاکستان کس طرح خود انحصاری حاصل کر سکتا ہے؟

معاشی لحاظ سے پاکستان کس طرح خود انحصاری حاصل کر سکتا ہے؟

by ہارون خواجہ
مارچ 18, 2023
1

...

عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین جاری کھیل آخری مرحلے میں داخل ہو چکا؟

عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین جاری کھیل آخری مرحلے میں داخل ہو چکا؟

by رضا رومی
مارچ 20, 2023
0

...

توشہ خانہ فہرست شریف خاندان میں دراڑ نہیں، شاہد خاقان کی علیحدگی کا اعلان ہے

توشہ خانہ فہرست شریف خاندان میں دراڑ نہیں، شاہد خاقان کی علیحدگی کا اعلان ہے

by مزمل سہروردی
مارچ 15, 2023
1

...

جنرل فیض حمید

نواز شریف کو نکالنے کے ‘پروجیکٹ’ میں باجوہ اور فیض کے علاوہ بھی جرنیل شامل تھے، اسد طور نے نام بتا دیے

by نیا دور
مارچ 14, 2023
0

...

Newsletter

ہماری مدد کریں

ٹویٹس - NayaDaur Urdu

نیا دور کے صفِ اوّل کے مصنفین

پیٹر جیکب
پیٹر جیکب
View Posts →
حسن مجتبیٰ
حسن مجتبیٰ
View Posts →
عرفان صدیقی
عرفان صدیقی
View Posts →
نجم سیٹھی
نجم سیٹھی
View Posts →
نبیلہ فیروز
نبیلہ فیروز
View Posts →
محمد شہزاد
محمد شہزاد
View Posts →
توصیف احمد خان
توصیف احمد خان
View Posts →
رفعت اللہ اورکزئی
رفعت اللہ اورکزئی
View Posts →
فوزیہ یزدانی
فوزیہ یزدانی
View Posts →
حسنین جمیل
حسنین جمیل
View Posts →
مرتضیٰ سولنگی
مرتضیٰ سولنگی
View Posts →
اسد علی طور
اسد علی طور
View Posts →
ادریس بابر
ادریس بابر
View Posts →
رضا رومی
رضا رومی
View Posts →
علی وارثی
علی وارثی
View Posts →

This message is only visible to admins.
Problem displaying Facebook posts.
Click to show error
Error: Server configuration issue

خبریں، تازہ خبریں

  • All
  • انٹرٹینمنٹ
  • سیاست
  • ثقافت
کم از کم اجرت 20 ہزار، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ: بجٹ 2021 پیش کر دیا گیا

اقتدار کے ایوانوں سے جلد کسی ‘بڑی چھٹی’ کا امکان ہے؟

اکتوبر 31, 2021
ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

اکتوبر 27, 2021
بد ترین کارکردگی پر الیکشن نہیں جیتا جاسکتا، صرف ای وی ایم کے ذریعے جیتا جاسکتا ہے

ای وی ایم اور انتخابات: ‘خان صاحب سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ لینے کے لیئے بے تاب ہیں’

اکتوبر 24, 2021

Naya Daur © All Rights Reserved

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English

Naya Daur © All Rights Reserved

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In