عمران خان کا دورہ کابل: کیا اعتماد کی فضا مزید بہتر ہوگی؟

عمران خان کا دورہ کابل: کیا اعتماد کی فضا مزید بہتر ہوگی؟

وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے افغانستان کے صدر اشرف غنی کی دعوت پر جمعرات کے روز افغانستان کا ایک روزہ  پہلا سرکاری دورہ کیا جہاں ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔ وزیر اعظم عمران خان کے دورے کو اگر ایک طرف پاکستان اور افغانستان میں پر امن مستقبل کی طرف پیش رفت قرار دیا جارہا ہے تو دوسری جانب  امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے وزیراعظم عمران خان کے دورہ کابل کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے خوش آئند قرار دیا ہے۔ امریکہ کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے جاری پیغام میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم عمران کا حالیہ دورہ کابل پاکستان کے افغان امن عمل اور دوطرفہ تعلقات کیلیے پختہ عزم کا مظہر ہے۔.


پیغام میں مزید کہا گیا ہے کہ دورہ کابل سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان سکیورٹی،پناہ گزینوں کی واپسی، تجارت اور علاقائی تعاون میں پیشرفت ہوگی اور پورے خطے میں خوشحالی آئیگی۔


پاکستان اور افغانستان کے تعلقات پر نظر رکھنے والے پشاور میں مقیم صحافی  فخر کاکاخیل اس دورے کو علاقائی صورتحال  کی وجہ سے اہم سمجھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہے  کہ عمران خان کابل کا دورہ ایک ایسے وقت میں کررہے ہے جہاں پاکستان کی اقتصادی ، سیاسی اور سیکیورٹی کے حالات غیر یقینی ہیں اس وجہ سے نہ صرف عمران خان سیکیورٹی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اقتصادی صورتحال پر بھی افغانستان کے صدر سے بات چیت کرینگے۔


فخر کاکا خیل نے مزید کہا کہ کچھ روز پہلے افواج پاکستان کی جانب سے ایک پریس کانفرنس میں پڑوسی ملک ہندوستان پر الزام لگایا گیا تھا کہ وہ پاکستان میں دہشتگردی اور امن و امان کے حالات کو خراب کرنے کے لئے افغانستان کی سرزمین کو استعمال کررہے ہیں اور اس حوالے سے انھوں نے ثبوت بھی فراہم کئے تھے اس لئے پاکستان نے دورہ کابل کو اہم سمجھتے ہوئے وزیر اعظم پاکستان نے کابل کا دورہ کیا۔


فخر کاکا خیل نے مزید کہا کہ پہلے جب پاک افغان بارڈر پر کوئی خاص انتظامات نہیں تھے اور بارڈر کھلا تھا تو پاکستان پر یہ الزام لگتا تھا کہ دہشگردپاکستان سے افغانستان میں داخل ہوتے ہیں مگر چونکہ اب بارڈر بند ہے اس لئے افغانستان کوئی ایسا شکوہ نہیں کریگا جبکہ وزیر اعظم  عمران خان فوج کی جانب سے لگائے گئے تمام ثبوت اشرف غنی کے سامنے رکھیں ہونگے کہ اپ کی سرزمین ہمارے خلاف استعمال ہورہی ہے جو ہمیں کسی بھی صورت قبول نہیں۔


فخر کاکا خیل نے مزید کہا کہ جب افغان حکومت اور طالبان لیڈرشپ کے درمیان بات چیت اور معاملات ایک اچھے سمت میں جانے کے لئے فضا سازگار ہورہی ہے تو اسی دوران افغانستان میں داعش کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا اور اس  میں ہندوستان کا ملوث ہونا سب کے سامنے ہے۔


عید الاضحٰی کے روز افغان صوبے ننگرہار کے ایک جیل پر حملہ ہوا جہاں دو سو سے زیادہ قیدیوں کو آزاد کرکے لے گئے اورذمہ داری داعش نے لی جس کے سربراہ ایک انڈین تھے اور انڈین میڈیا نے داعش کے سربراہ کی نہ صرف تصویریں دکھائی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان کے خاندان کی تصویریں بھی دکھائی تو اس میں اب کوئی شکوک و شہات نہیں کہ داعش کی شکل میں ہندوستان افغانستان میں موجود ہے جو نہ صرف افغانستان بلکہ پاکستان میں بھی حالات خراب کررہے ہیں تو اس لئے پاکستان نے یہ مسئلہ بھی افغان لیڈرشپ کے سامنے رکھا ہوگا۔ فخر کاکا خیل نے مزید کہا کہ امریکہ میں انتقال اقتدار کے بعد پالیسیوں میں تبدیلی آئے گی تو اس لئے پاکستان اور افغانستان یہ سمجھتے ہیں کہ دونوں ممالک کے بیچ بات چیت کی فضا نہ صرف سازگار ہو بلکہ اس کے ساتھ ساتھ رابطوں کا فقدان بھی نہ ہو۔


اس کے ساتھ ساتھ تجارت بھی اس دورے  کا حصہ رہا  کیونکہ طورخم بارڈر سے لیکر غلام خان اور انگور اڈہ تک تاجروں کو شدید مسائل کا سامنا ہے اور دونوں طرف مقیم نہ صرف تاجر متاثر ہورہے ہیں بلکہ اس کے ساتھ دونوں ممالک کے اقتصاد پر بھی برا اثر پڑ رہا ہے اس لئے ان مسائل کو کم کرنے کے لئے دونوں ممالک کے سربراہان نے اس مسئلے کو ختم کرنے کے لئے بھی تجاویز دی ہوگی۔ فخر کاکا خیل سمجھتے ہے کہ افغان شہریوں کوپاکستان ویزے کے حصول میں بھی مشکلات ہے اس لئے یہ مسئلہ بھی اس دورے کے پوائنٹس میں شامل تھا۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔