قرضہ موخر کیئے بغیر پاکستان کورونا سے نہیں لڑسکتا

قرضہ موخر کیئے بغیر پاکستان کورونا سے نہیں لڑسکتا

پاکستان گذشتہ ستر برس سے مختلف مصائب اور مسائل کا سامنا کر رہا ہے۔ آنے والی ہر حکومت پچھلی حکومت کو ملک میں ہونے والی سماجی اور معاشی بربادی کا ذمہ دار ٹھہراتی رہی ہے، لیکن سماجی اور معاشی مصائب میں کمی کیسے ہوگی، اس بارے میں کسی بھی حکومت نے ایسے اقدامات نہیں کیئے جس کے نتیجے میں ملک بہتری کی جانب بڑھ سکے۔


اس وقت پاکستان کو ایک بار  پھر عالمی وبا کی دوسری لہر کا سامنا ہے، جو تیزی کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے، پاکستان میں رواں سال  کورونا وائرس کا پہلا کیس فروری کے آخر میں سامنے آیا تھا، مارچ تک کیسز میں اضافہ ہوا، لیکن ان دنوں تک پاکستان میں سردی تقریباً ختم ہورہی تھی، پاکستان کا نظام صحت ، جو پہلے ہی کمزور ہے، اس میں اتنی سکت نہیں تھی کہ ایک ایسی عالمی وبا کا سامنا کرسکے، جس کے سامنے دنیا کی بڑی طاقتیں بے بس ہوچکی تھیں، گرمی میں اضافہ کے باعث نزلہ زکام اور کھانسی جیسے امراض میں کمی واقع ہونے سے کورونا کے پھیلاؤ میں کمی تو آئی، لیکن ملک کی ایک بڑی اکثریت اس وبا کو وبا ماننے کیلئے بھی تیار نہ تھی۔  لاک ڈاؤن کے باعث  ملک کو معاشی طور شدید دھچکا لگا اور پورا سماجی ڈھانچہ متاثر ہوا۔ اس ساری صورتحال میں پاکستان کو ایک طرف بیرونی اور ملکی قرضوں کی ادائگی کے مسائل کا سامنا تھا جبکہ بڑھتی ہوئی بے روزگاری کے باعث پورا سماجی ڈھانچہ سخت متاثر ہوا تھا،  لاکھوں لوگ بے روزگار ہوگئے، اور مختلف امراض میں مبتلا سینکڑوں لوگ صرف اسی وجہ سے انتقال کرگئے کہ ہسپتال بند تھے اور وقت پر ان کا اعلاج نہ ہوسکا۔


لاک ڈاؤن کے باعث ہزاروں کارخانے بند ہوگئے، چھوٹے ڈھابے بڑے ہوٹلز، شادی ہالز، لاکھوں دکانیں بند ہونے کے باعث لاکھوں لوگ بیروزگار ہوگئے، ان کو کھانے پینے کے لالے پڑگئے، معیشت تیزی سے نیچے جانے لگی تو حکومت  نے احساس پروگرام کے تحت ایک شفاف طریقے سے ایک سو چوالیس ارب روپے غریب لوگوں میں تقسیم کیئے، لیکن یہ معاشی طور لوگوں کو اپنے پاؤں پر کھڑے کرنے کوئی حتمی حل نہیں بلکہ عارضی رلیف تھا، جن مہنیوں نے پاکستان میں غریب لوگوں میں ایک سو چوالیس ارب روپے تقسیم کیئے گئے، ان ہی ایام میں پاکستان نے چھ سو دو ارب روپے کی قرضوں کی اقساط بھی  ادا کیں، اگر ان دنوں قرضوں کی یہ اقساط موخر ہوجاتی تو یہ رقم پاکستان کے عام لوگوں کی صحت اور سماجی ترقی کیلئے خرچ ہوتی اور نتیجے میں بیروزگاری سے جس شدت کے ساتھ اضافہ ہوا وہ نہ ہوتا۔ لیکن اس  وبا کے دوران پاکستان کی حکومت صوبوں کے ساتھ مل کر بیروزگار ہونے والے لوگوں کو رجسٹرڈ کرسکتی تھی، تاکہ پاکستان کو اندازہ ہوتا کہ اس کے پاس کون سے شعبے میں کتنے لوگ ہیں۔ لیکن ایک اچھا موقع گنوادیا گیا۔


پاکستان کا ٹیکس نظام مکمل طور پر مافیاز کے چنگل میں پھنسا ہوا ہے، جو بھی حکومتیں آتی ہیں، وہ اس نظام کو چھیڑنے کی ہمت نہیں کرسکتیں، کیونکہ ان مافیاز کی ایک بڑی اکثریت پاکستان کے  پاور کوریڈورز میں بہت ہی زیادہ اثر رکھتی ہے، ملک کی  اکاون فیصد آبادی غیر دستاویزی ہے، جس کے نتیجے میں پاکستان کے اندر ٹیکس وصولی کا نظام انتہائی ناکارہ ہے، کیونکہ ایک طرف ٹیکس وصول کرنے والا قومی ادارہ پاکستان میں کرپشن کا بڑا مرکز ہے، ایک طرف بڑے کاروباری ادارے اور دکاندار جائز ٹیکس دینے کیلئے تیار نہیں ہوتے تو دوسری جانب ایف بی آر خود ٹیکس چوروں کا مددگار ہوتا ہے، اور اس مدد کے بدلے میں ان کے افسران کو خوش کردیا جاتا ہے۔ نتیجے میں پاکستان کے  کل اخراجات کے برعکس اس کی آمدنی نصف ہے ، اور اخراجات کو پورا کرنے کیلئے پاکستان کو قرضوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ اور کبھی سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی جاتی کہ اس گٹھ جوڑ کو توڑدیا جائے، جو ٹیکس وصولی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔


گذشتہ حکومت میں آکسفیم نے پاکستان کے ٹیکس سسٹم کے اندر چوری پر ایک تحقیق کی اور اس کے بعد اس وقت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے اسلام آباد کے چند علاقوں کیلئے پالیسی تبدیل کرائی تاکہ اندازہ کیا جاسکے کہ ٹیکس وصولی میں کیا مسائل ہیں، اس تبدیلی کے حیران کن نتائج سامنے آئے، آکسفیم کے عاصم جعفری  بتاتے ہیں کہ انہوں نے اسلام آباد کے پوش علاقوں میں چار اہم علاقوں میں مروج  سترہ فیصد جی ایس ٹی کو ساڑھے سات فیصد پر لانے کی تجویز دی، جب اس پر عمل کرایا گیا تو پتہ چلا کہ  ساڑھے سترہ فیصد جی ایس ٹی پر تیرہ ارب روپے وصول ہوتے تھے، لیکن ساڑھے سات فیصد جی ایس ٹی کرنے کے نتیجے حکومت کو اٹھارہ ارب روپے وصول ہوئے۔ یعنی پانچ ارب روپے کا اضافہ ہوگیا۔


پاکستان کے معاشی ماہرین کو اس بات کا یقین ہے کہ  ساڑے سترہ فیصد جی ایس ٹی کے برعکس حکومتی خزانے میں صرف ساڑھے تین فیصد جمع ہوتا ہے، باقی رقم صارف سے وصول کرنے والے خود ہڑپ کرجاتے ہیں۔


 ٹیکس سسٹم میں جس طرح ڈاکے پڑتے ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں سالانہ جتنا سمینٹ فروخت ہوتا ہے اس حساب سے اس سیکٹر سے  چھ سو ارب روپے ٹیکس وصول  ہونا چاہیئے، لیکن قومی خزانے کو سیمنٹ انڈسٹری صرف ایک سو ارب روپے ٹیکس ادا کرتی ہے ۔


 پاکستان میں اکانومی کے سترہ سیکٹر ہیں، اور ان سیکٹرز میں سے جتنا ٹیکس وصول ہوناچاہیئے وہ ہمیں نہیں ملتا جس کے نتیجے میں پاکستان کو قرضوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے، لیکن جن حالات کا اس وقت ہمیں سامنا ہے اس سے واضح ہورہا ہے ملک کی معاشی صورتحال انتہائی خطرناک صورت اختیار کرچکی ہے، پاکستان ان حالات میں قرضوں کی قسطیں ادا کرے یا بائیس کروڑ لوگوں کی سماجی اور معاشی زندگی کو بہتر کرے؟ کیونکہ کورونا وبا کے پھیلاؤ کے باعث پاکستان کے پاس دو ہی راستے ہیں یا اپنے لوگوں کو بچائے یا قرضوں کا سود اور اقساط ادا کرے۔


جن حالات سے ہم اس وقت گذر رہے ہیں، وہ نہ صرف قابل تشویش ہیں، بلکہ آنے والے ایک سے دو ماہ مزید سخت ہونگے،  پاکستان کو رواں سال اٹھارہ سو ارب روپے قرضے کی اقساط ادا کرنی ہیں، اور یہ ہی وہ دن ہونگے جب کورونا وائرس کی شدت میں مزید اضافہ ہوتا جائے گا، پاکستان کی  معاشی حالت اتنی پتلی ہے کہ وہ یا تو  عالمی اور ملکی اداروں کو قرضوں کی قسط ادا کرے یا لوگوں پر یہ رقم خرچ کرے،


 جس طرح اپوزیشن کی حکومت مخالف تحریک تیز ہوتی جا رہی ہے تو دوسری جانب حکومت ملک میں لاک ڈاؤن کرنے کے حوالے سے سنجیدگی کے ساتھ سوچ رہی ہے، کورونا وائرس پر پارلیمانی کمیٹی سے اپوزیشن کے بائیکاٹ کے بعد حکومت نے بھی واضح طور پر اعلان کردیا ہے کہ وہ اپوزیشن کو اس بات کی اجازت نہیں دی گی کہ وہ ملک کے مختلف شہروں میں جلسے کرکے کورونا کو مزید پھیلائے، دونوں فریقین دو انتہاؤں پر کھڑے ہیں، اپوزیشن جلسے کرنے سے باز نہیں آئے گی، کیونکہ وہ ہر صورت اس حکومت کو جنوری تک چلتا کرنا چاہتی ہے، جب کہ حکومت تیزی سے پھیلتے کورونا اور اپوزیشن کے جلسوں کو روکنے کیلئے لاک ڈاؤن  کے حوالے سے سوچ رہی ہے، یہ صورتحال برقرار رہی تو پاکستان کی معاشی حالت مزید خراب ہوگی۔


ملک کے مقروض ہونے کے اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو بندہ حواس باختہ ہوجاتا ہے کہ یہ رقم ملک کیسے ادا کرے گا، کیونکہ اگر آپ اپنے اخراجات پورے کرنے کیلئے قرضے پر قرضہ لیتے جائیں گے تو آخر یہ سلسلہ کہیں تو جا کر رکنا ہی ہے۔ گذشتہ پانچ برسوں کے دوران پاکستان کے قرضے بے تحاشہ بڑھے ہیں،  دوہزار پندرہ میں پاکستان  انیس ہزار آٹھ سو انچاس ارب روپے کا مقروض تھا، اور صرف پانچ سالوں میں اس قرضے میں ایک سو پچیس ارب روہے کا اضافہ ہوا اور اب یہ قرضہ چوالیس ہزار پانچ سو تریسٹھ ارب روپے سے تجاوز کرچکے ہیں۔ موجودہ حکومت کے دو سالوں کے دوران ستر سالوں کا ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے،  دو ہزار اٹھارہ اختتام تک پاکستان پر کل واجبات انتیس ہزار آٹھ سو اناسی ارب تھے جو پچھلے دو سالوں میں بڑھ کر چوالیس ہزار پانچ سو تریسٹھ ارب روپے ہوگئے ہیں، یعنی موجودہ حکومت نے انچاس فیصد قرضوں میں اضافہ کیا۔ پاکستان نے سال دوہزار انیس اور بیس میں بنیادی سود پر ساڑھے چودہ ارب ڈالر ادا کئے ہیں۔


پاکستان میں چھوٹے کاروباری لوگوں کی ہمت افزائی کیلئے نجی و سرکاری بنکس سستے اور آسان قرضے نہیں دیتے، کیونکہ نجی بنک ایسے کسی جھنجھٹ میں نہیں پڑنا چاہتے، کہ قرضے دیکر لوگوں سے اقساط وصول کرتے پھریں، یہ بنک براہ راست حکومت کو قرضہ دے دیتے ہیں اور انہیں اس کی وصولی بھی آسان رہتی ہے، جبکہ   حکومت بھی کوئی ایسی پالیسی نہیں بناتی جس سے مجبور ہوکر بنکوں کو عام آدمی کو قرضہ دینا پڑے، نتیجے میں کاروباری سرگرمیوں میں اضافہ نہیں ہوتا۔ اور بیروزگاری کے مسائل جوں کے توں رہتے ہیں۔


پاکستان اس سال سنگین قسم کے سماجی اور معاشی مسائل کا سامنا کرنے جا رہا ہے، حکومت ان مسائل کا سامنا کس طرح کرے گی، اس بارے میں ابھی تک عوام کو کچھ بھی نہیں بتایا گیا، پاکستان کو  اس سال اٹھارہ سو ارب روپے قرض اور سود کی مد میں مالیاتی اداروں کو رقم ادا کرنی ہے، جو ان حالات میں بہت ہی مشکل ہے کہ وہ یہ رقم مالیاتی اداروں کو ادا کرے یا اپنے لوگوں کی زندگیاں بچانے اور معاشی سرگرمیوں کو بحال کرنے پر خرچ کرے، پاکستان کے وزیر اعظم تو کچھ ماہ  پہلے ہی عالمی مالیاتی اداروں کو اپیل کرچکے کہ قرض کی اقساط معاف یا موخر کی جائیں، لیکن تاحال ان کی اپیل پر تو کسی نے کان نہیں دھرا، لیکن پاکستان کے عوام کو اس سلسلے میں منظم مہم چلانا ہوگی کہ آئی ایم ایف، پیرس کلب، عالمی بنک اور دیگر ادارے فوری طور پر قرضوں کی اقساط موخر کریں یا معاف کردیں، پاکستان کی عوام کو اس سلسلے میں سوشل میڈیا اور دیگر فورمز پر ایک منظم مہم چلانا ہوگی، دوسری صورت میں پاکستان کے  کروڑوں لوگ نہ صرف بے روزگار ہوجائیں گے، بلکہ ان کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہونگے، پاکستان کے صحت کے ادارے انتہائی کمزور ہیں ، ان میں اتنی سکت ہی نہیں کہ وہ عام حالات میں مریضوں کا علاج یا دیکھ بھال کرسکیں، اس عالمی وبا میں تو ہمارے پاس اتنی اہلیت ہی نہیں کہ ہم اس کا بغیر کسی  بڑی رقم کے سامنا کرسکیں۔

مصنف اسلام آباد میں مقیم سینیئر سیاسی رپورٹر ہیں۔ ملکی سیاست پر ان کے مضامین و تجزیے مختلف ویب سائٹس اور اخبارات میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔