• آن لائن اشتہاری ٹیرف
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • ہمارے لئے لکھیں
  • نیا دور انگریزی میں
پیر, مارچ 27, 2023
نیا دور
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
نیا دور
No Result
View All Result

قرضہ موخر کیئے بغیر پاکستان کورونا سے نہیں لڑسکتا

رزاق کھٹی by رزاق کھٹی
ستمبر 29, 2021
in تجزیہ
3 0
0
قرضہ موخر کیئے بغیر پاکستان کورونا سے نہیں لڑسکتا
18
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on Whatsapp

پاکستان گذشتہ ستر برس سے مختلف مصائب اور مسائل کا سامنا کر رہا ہے۔ آنے والی ہر حکومت پچھلی حکومت کو ملک میں ہونے والی سماجی اور معاشی بربادی کا ذمہ دار ٹھہراتی رہی ہے، لیکن سماجی اور معاشی مصائب میں کمی کیسے ہوگی، اس بارے میں کسی بھی حکومت نے ایسے اقدامات نہیں کیئے جس کے نتیجے میں ملک بہتری کی جانب بڑھ سکے۔

اس وقت پاکستان کو ایک بار  پھر عالمی وبا کی دوسری لہر کا سامنا ہے، جو تیزی کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے، پاکستان میں رواں سال  کورونا وائرس کا پہلا کیس فروری کے آخر میں سامنے آیا تھا، مارچ تک کیسز میں اضافہ ہوا، لیکن ان دنوں تک پاکستان میں سردی تقریباً ختم ہورہی تھی، پاکستان کا نظام صحت ، جو پہلے ہی کمزور ہے، اس میں اتنی سکت نہیں تھی کہ ایک ایسی عالمی وبا کا سامنا کرسکے، جس کے سامنے دنیا کی بڑی طاقتیں بے بس ہوچکی تھیں، گرمی میں اضافہ کے باعث نزلہ زکام اور کھانسی جیسے امراض میں کمی واقع ہونے سے کورونا کے پھیلاؤ میں کمی تو آئی، لیکن ملک کی ایک بڑی اکثریت اس وبا کو وبا ماننے کیلئے بھی تیار نہ تھی۔  لاک ڈاؤن کے باعث  ملک کو معاشی طور شدید دھچکا لگا اور پورا سماجی ڈھانچہ متاثر ہوا۔ اس ساری صورتحال میں پاکستان کو ایک طرف بیرونی اور ملکی قرضوں کی ادائگی کے مسائل کا سامنا تھا جبکہ بڑھتی ہوئی بے روزگاری کے باعث پورا سماجی ڈھانچہ سخت متاثر ہوا تھا،  لاکھوں لوگ بے روزگار ہوگئے، اور مختلف امراض میں مبتلا سینکڑوں لوگ صرف اسی وجہ سے انتقال کرگئے کہ ہسپتال بند تھے اور وقت پر ان کا اعلاج نہ ہوسکا۔

RelatedPosts

جناب اعلیٰ! آخر کیوں سب باری باری آپکے خلاف ہوتے جا رہے ہیں؟

‘سفارتی سائفر کو کیسے اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا گیا’ عمر چیمہ کی انکشافات پر مبنی رپورٹ

Load More

لاک ڈاؤن کے باعث ہزاروں کارخانے بند ہوگئے، چھوٹے ڈھابے بڑے ہوٹلز، شادی ہالز، لاکھوں دکانیں بند ہونے کے باعث لاکھوں لوگ بیروزگار ہوگئے، ان کو کھانے پینے کے لالے پڑگئے، معیشت تیزی سے نیچے جانے لگی تو حکومت  نے احساس پروگرام کے تحت ایک شفاف طریقے سے ایک سو چوالیس ارب روپے غریب لوگوں میں تقسیم کیئے، لیکن یہ معاشی طور لوگوں کو اپنے پاؤں پر کھڑے کرنے کوئی حتمی حل نہیں بلکہ عارضی رلیف تھا، جن مہنیوں نے پاکستان میں غریب لوگوں میں ایک سو چوالیس ارب روپے تقسیم کیئے گئے، ان ہی ایام میں پاکستان نے چھ سو دو ارب روپے کی قرضوں کی اقساط بھی  ادا کیں، اگر ان دنوں قرضوں کی یہ اقساط موخر ہوجاتی تو یہ رقم پاکستان کے عام لوگوں کی صحت اور سماجی ترقی کیلئے خرچ ہوتی اور نتیجے میں بیروزگاری سے جس شدت کے ساتھ اضافہ ہوا وہ نہ ہوتا۔ لیکن اس  وبا کے دوران پاکستان کی حکومت صوبوں کے ساتھ مل کر بیروزگار ہونے والے لوگوں کو رجسٹرڈ کرسکتی تھی، تاکہ پاکستان کو اندازہ ہوتا کہ اس کے پاس کون سے شعبے میں کتنے لوگ ہیں۔ لیکن ایک اچھا موقع گنوادیا گیا۔

پاکستان کا ٹیکس نظام مکمل طور پر مافیاز کے چنگل میں پھنسا ہوا ہے، جو بھی حکومتیں آتی ہیں، وہ اس نظام کو چھیڑنے کی ہمت نہیں کرسکتیں، کیونکہ ان مافیاز کی ایک بڑی اکثریت پاکستان کے  پاور کوریڈورز میں بہت ہی زیادہ اثر رکھتی ہے، ملک کی  اکاون فیصد آبادی غیر دستاویزی ہے، جس کے نتیجے میں پاکستان کے اندر ٹیکس وصولی کا نظام انتہائی ناکارہ ہے، کیونکہ ایک طرف ٹیکس وصول کرنے والا قومی ادارہ پاکستان میں کرپشن کا بڑا مرکز ہے، ایک طرف بڑے کاروباری ادارے اور دکاندار جائز ٹیکس دینے کیلئے تیار نہیں ہوتے تو دوسری جانب ایف بی آر خود ٹیکس چوروں کا مددگار ہوتا ہے، اور اس مدد کے بدلے میں ان کے افسران کو خوش کردیا جاتا ہے۔ نتیجے میں پاکستان کے  کل اخراجات کے برعکس اس کی آمدنی نصف ہے ، اور اخراجات کو پورا کرنے کیلئے پاکستان کو قرضوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ اور کبھی سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی جاتی کہ اس گٹھ جوڑ کو توڑدیا جائے، جو ٹیکس وصولی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

گذشتہ حکومت میں آکسفیم نے پاکستان کے ٹیکس سسٹم کے اندر چوری پر ایک تحقیق کی اور اس کے بعد اس وقت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے اسلام آباد کے چند علاقوں کیلئے پالیسی تبدیل کرائی تاکہ اندازہ کیا جاسکے کہ ٹیکس وصولی میں کیا مسائل ہیں، اس تبدیلی کے حیران کن نتائج سامنے آئے، آکسفیم کے عاصم جعفری  بتاتے ہیں کہ انہوں نے اسلام آباد کے پوش علاقوں میں چار اہم علاقوں میں مروج  سترہ فیصد جی ایس ٹی کو ساڑھے سات فیصد پر لانے کی تجویز دی، جب اس پر عمل کرایا گیا تو پتہ چلا کہ  ساڑھے سترہ فیصد جی ایس ٹی پر تیرہ ارب روپے وصول ہوتے تھے، لیکن ساڑھے سات فیصد جی ایس ٹی کرنے کے نتیجے حکومت کو اٹھارہ ارب روپے وصول ہوئے۔ یعنی پانچ ارب روپے کا اضافہ ہوگیا۔

پاکستان کے معاشی ماہرین کو اس بات کا یقین ہے کہ  ساڑے سترہ فیصد جی ایس ٹی کے برعکس حکومتی خزانے میں صرف ساڑھے تین فیصد جمع ہوتا ہے، باقی رقم صارف سے وصول کرنے والے خود ہڑپ کرجاتے ہیں۔

 ٹیکس سسٹم میں جس طرح ڈاکے پڑتے ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں سالانہ جتنا سمینٹ فروخت ہوتا ہے اس حساب سے اس سیکٹر سے  چھ سو ارب روپے ٹیکس وصول  ہونا چاہیئے، لیکن قومی خزانے کو سیمنٹ انڈسٹری صرف ایک سو ارب روپے ٹیکس ادا کرتی ہے ۔

 پاکستان میں اکانومی کے سترہ سیکٹر ہیں، اور ان سیکٹرز میں سے جتنا ٹیکس وصول ہوناچاہیئے وہ ہمیں نہیں ملتا جس کے نتیجے میں پاکستان کو قرضوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے، لیکن جن حالات کا اس وقت ہمیں سامنا ہے اس سے واضح ہورہا ہے ملک کی معاشی صورتحال انتہائی خطرناک صورت اختیار کرچکی ہے، پاکستان ان حالات میں قرضوں کی قسطیں ادا کرے یا بائیس کروڑ لوگوں کی سماجی اور معاشی زندگی کو بہتر کرے؟ کیونکہ کورونا وبا کے پھیلاؤ کے باعث پاکستان کے پاس دو ہی راستے ہیں یا اپنے لوگوں کو بچائے یا قرضوں کا سود اور اقساط ادا کرے۔

جن حالات سے ہم اس وقت گذر رہے ہیں، وہ نہ صرف قابل تشویش ہیں، بلکہ آنے والے ایک سے دو ماہ مزید سخت ہونگے،  پاکستان کو رواں سال اٹھارہ سو ارب روپے قرضے کی اقساط ادا کرنی ہیں، اور یہ ہی وہ دن ہونگے جب کورونا وائرس کی شدت میں مزید اضافہ ہوتا جائے گا، پاکستان کی  معاشی حالت اتنی پتلی ہے کہ وہ یا تو  عالمی اور ملکی اداروں کو قرضوں کی قسط ادا کرے یا لوگوں پر یہ رقم خرچ کرے،

 جس طرح اپوزیشن کی حکومت مخالف تحریک تیز ہوتی جا رہی ہے تو دوسری جانب حکومت ملک میں لاک ڈاؤن کرنے کے حوالے سے سنجیدگی کے ساتھ سوچ رہی ہے، کورونا وائرس پر پارلیمانی کمیٹی سے اپوزیشن کے بائیکاٹ کے بعد حکومت نے بھی واضح طور پر اعلان کردیا ہے کہ وہ اپوزیشن کو اس بات کی اجازت نہیں دی گی کہ وہ ملک کے مختلف شہروں میں جلسے کرکے کورونا کو مزید پھیلائے، دونوں فریقین دو انتہاؤں پر کھڑے ہیں، اپوزیشن جلسے کرنے سے باز نہیں آئے گی، کیونکہ وہ ہر صورت اس حکومت کو جنوری تک چلتا کرنا چاہتی ہے، جب کہ حکومت تیزی سے پھیلتے کورونا اور اپوزیشن کے جلسوں کو روکنے کیلئے لاک ڈاؤن  کے حوالے سے سوچ رہی ہے، یہ صورتحال برقرار رہی تو پاکستان کی معاشی حالت مزید خراب ہوگی۔

ملک کے مقروض ہونے کے اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو بندہ حواس باختہ ہوجاتا ہے کہ یہ رقم ملک کیسے ادا کرے گا، کیونکہ اگر آپ اپنے اخراجات پورے کرنے کیلئے قرضے پر قرضہ لیتے جائیں گے تو آخر یہ سلسلہ کہیں تو جا کر رکنا ہی ہے۔ گذشتہ پانچ برسوں کے دوران پاکستان کے قرضے بے تحاشہ بڑھے ہیں،  دوہزار پندرہ میں پاکستان  انیس ہزار آٹھ سو انچاس ارب روپے کا مقروض تھا، اور صرف پانچ سالوں میں اس قرضے میں ایک سو پچیس ارب روہے کا اضافہ ہوا اور اب یہ قرضہ چوالیس ہزار پانچ سو تریسٹھ ارب روپے سے تجاوز کرچکے ہیں۔ موجودہ حکومت کے دو سالوں کے دوران ستر سالوں کا ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے،  دو ہزار اٹھارہ اختتام تک پاکستان پر کل واجبات انتیس ہزار آٹھ سو اناسی ارب تھے جو پچھلے دو سالوں میں بڑھ کر چوالیس ہزار پانچ سو تریسٹھ ارب روپے ہوگئے ہیں، یعنی موجودہ حکومت نے انچاس فیصد قرضوں میں اضافہ کیا۔ پاکستان نے سال دوہزار انیس اور بیس میں بنیادی سود پر ساڑھے چودہ ارب ڈالر ادا کئے ہیں۔

پاکستان میں چھوٹے کاروباری لوگوں کی ہمت افزائی کیلئے نجی و سرکاری بنکس سستے اور آسان قرضے نہیں دیتے، کیونکہ نجی بنک ایسے کسی جھنجھٹ میں نہیں پڑنا چاہتے، کہ قرضے دیکر لوگوں سے اقساط وصول کرتے پھریں، یہ بنک براہ راست حکومت کو قرضہ دے دیتے ہیں اور انہیں اس کی وصولی بھی آسان رہتی ہے، جبکہ  حکومت بھی کوئی ایسی پالیسی نہیں بناتی جس سے مجبور ہوکر بنکوں کو عام آدمی کو قرضہ دینا پڑے، نتیجے میں کاروباری سرگرمیوں میں اضافہ نہیں ہوتا۔ اور بیروزگاری کے مسائل جوں کے توں رہتے ہیں۔

پاکستان اس سال سنگین قسم کے سماجی اور معاشی مسائل کا سامنا کرنے جا رہا ہے، حکومت ان مسائل کا سامنا کس طرح کرے گی، اس بارے میں ابھی تک عوام کو کچھ بھی نہیں بتایا گیا، پاکستان کو  اس سال اٹھارہ سو ارب روپے قرض اور سود کی مد میں مالیاتی اداروں کو رقم ادا کرنی ہے، جو ان حالات میں بہت ہی مشکل ہے کہ وہ یہ رقم مالیاتی اداروں کو ادا کرے یا اپنے لوگوں کی زندگیاں بچانے اور معاشی سرگرمیوں کو بحال کرنے پر خرچ کرے، پاکستان کے وزیر اعظم تو کچھ ماہ  پہلے ہی عالمی مالیاتی اداروں کو اپیل کرچکے کہ قرض کی اقساط معاف یا موخر کی جائیں، لیکن تاحال ان کی اپیل پر تو کسی نے کان نہیں دھرا، لیکن پاکستان کے عوام کو اس سلسلے میں منظم مہم چلانا ہوگی کہ آئی ایم ایف، پیرس کلب، عالمی بنک اور دیگر ادارے فوری طور پر قرضوں کی اقساط موخر کریں یا معاف کردیں، پاکستان کی عوام کو اس سلسلے میں سوشل میڈیا اور دیگر فورمز پر ایک منظم مہم چلانا ہوگی، دوسری صورت میں پاکستان کے  کروڑوں لوگ نہ صرف بے روزگار ہوجائیں گے، بلکہ ان کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہونگے، پاکستان کے صحت کے ادارے انتہائی کمزور ہیں ، ان میں اتنی سکت ہی نہیں کہ وہ عام حالات میں مریضوں کا علاج یا دیکھ بھال کرسکیں، اس عالمی وبا میں تو ہمارے پاس اتنی اہلیت ہی نہیں کہ ہم اس کا بغیر کسی  بڑی رقم کے سامنا کرسکیں۔

Tags: پاکستان قرضےحکومتکرونامعیشیت
Previous Post

کرونا ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر نیوزی لینڈ محکمہ صحت کی پاکستان ٹیم کو آخری وارننگ

Next Post

فردوس مارکیٹ لاہور: لعل شہباز قلندر انڈرپاس کا افتتاح چوتھی بار پھر ملتوی

رزاق کھٹی

رزاق کھٹی

مصنف اسلام آباد میں اب تک ٹی وی میں سینئر سیاسی رپورٹر کے طور پر کام کرتے ہیں، ملکی سیاست پر ان کے مضامین و تجزیئے مختلف ویب سائٹس اور اخبارات میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔

Related Posts

پی ٹی آئی والوں کو تشدد اور ناانصافی تبھی نظر آتی ہے جب ان کے اپنے ساتھ ہو

پی ٹی آئی والوں کو تشدد اور ناانصافی تبھی نظر آتی ہے جب ان کے اپنے ساتھ ہو

by ایمان زینب مزاری
مارچ 25, 2023
0

یہ اُس کے لیے بھی جواب ہے جو ہر پارٹی سے ہو کر پی ٹی آئی میں شامل ہوا اور آج شاہ...

عوام قدم بڑھائیں تو عاصم منیر کا کنواں، پیچھے ہٹیں تو عمران خان کی کھائی ہے

عوام قدم بڑھائیں تو عاصم منیر کا کنواں، پیچھے ہٹیں تو عمران خان کی کھائی ہے

by عبید پاشا
مارچ 24, 2023
0

کئی برس پہلے عمران خان کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں وہ یہ دعویٰ کرتے سنائی دے رہے تھے کہ...

Load More
Next Post
فردوس مارکیٹ لاہور: لعل شہباز قلندر انڈرپاس کا افتتاح چوتھی بار پھر ملتوی

فردوس مارکیٹ لاہور: لعل شہباز قلندر انڈرپاس کا افتتاح چوتھی بار پھر ملتوی

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

No Result
View All Result

ایڈیٹر کی پسند

ہائبرڈ دور میں صحافت پر حملے؛ ذمہ دار عمران خان یا جنرل باجوہ؟ (پارٹ 1)

ہائبرڈ دور میں صحافت پر حملے؛ ذمہ دار عمران خان یا جنرل باجوہ؟ (پارٹ 1)

by شاہد میتلا
مارچ 22, 2023
1

...

معاشی لحاظ سے پاکستان کس طرح خود انحصاری حاصل کر سکتا ہے؟

معاشی لحاظ سے پاکستان کس طرح خود انحصاری حاصل کر سکتا ہے؟

by ہارون خواجہ
مارچ 18, 2023
1

...

عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین جاری کھیل آخری مرحلے میں داخل ہو چکا؟

عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین جاری کھیل آخری مرحلے میں داخل ہو چکا؟

by رضا رومی
مارچ 20, 2023
0

...

توشہ خانہ فہرست شریف خاندان میں دراڑ نہیں، شاہد خاقان کی علیحدگی کا اعلان ہے

توشہ خانہ فہرست شریف خاندان میں دراڑ نہیں، شاہد خاقان کی علیحدگی کا اعلان ہے

by مزمل سہروردی
مارچ 15, 2023
1

...

جنرل فیض حمید

نواز شریف کو نکالنے کے ‘پروجیکٹ’ میں باجوہ اور فیض کے علاوہ بھی جرنیل شامل تھے، اسد طور نے نام بتا دیے

by نیا دور
مارچ 14, 2023
0

...

Newsletter

ہماری مدد کریں

ٹویٹس - NayaDaur Urdu

نیا دور کے صفِ اوّل کے مصنفین

پیٹر جیکب
پیٹر جیکب
View Posts →
حسن مجتبیٰ
حسن مجتبیٰ
View Posts →
عرفان صدیقی
عرفان صدیقی
View Posts →
نجم سیٹھی
نجم سیٹھی
View Posts →
نبیلہ فیروز
نبیلہ فیروز
View Posts →
محمد شہزاد
محمد شہزاد
View Posts →
توصیف احمد خان
توصیف احمد خان
View Posts →
رفعت اللہ اورکزئی
رفعت اللہ اورکزئی
View Posts →
فوزیہ یزدانی
فوزیہ یزدانی
View Posts →
حسنین جمیل
حسنین جمیل
View Posts →
مرتضیٰ سولنگی
مرتضیٰ سولنگی
View Posts →
اسد علی طور
اسد علی طور
View Posts →
ادریس بابر
ادریس بابر
View Posts →
رضا رومی
رضا رومی
View Posts →
علی وارثی
علی وارثی
View Posts →

This message is only visible to admins.
Problem displaying Facebook posts.
Click to show error
Error: Server configuration issue

خبریں، تازہ خبریں

  • All
  • انٹرٹینمنٹ
  • سیاست
  • ثقافت
کم از کم اجرت 20 ہزار، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ: بجٹ 2021 پیش کر دیا گیا

اقتدار کے ایوانوں سے جلد کسی ‘بڑی چھٹی’ کا امکان ہے؟

اکتوبر 31, 2021
ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

اکتوبر 27, 2021
بد ترین کارکردگی پر الیکشن نہیں جیتا جاسکتا، صرف ای وی ایم کے ذریعے جیتا جاسکتا ہے

ای وی ایم اور انتخابات: ‘خان صاحب سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ لینے کے لیئے بے تاب ہیں’

اکتوبر 24, 2021

Naya Daur © All Rights Reserved

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English

Naya Daur © All Rights Reserved

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In