• آن لائن اشتہاری ٹیرف
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • ہمارے لئے لکھیں
  • نیا دور انگریزی میں
ہفتہ, جنوری 28, 2023
نیا دور
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
نیا دور
No Result
View All Result

بینظیر شہید پر بائیں بازو کی ناجائز تنقید اسٹیبلشمنٹ کو مضبوط کرتی ہے

ڈاکٹر عمار علی جان by ڈاکٹر عمار علی جان
ستمبر 29, 2021
in تجزیہ, معاشرہ, نوجوان
4 0
0
بینظیر شہید پر بائیں بازو کی ناجائز تنقید اسٹیبلشمنٹ کو مضبوط کرتی ہے
20
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on Whatsapp

ترقی پسندوں کی جانب سے محترمہ بینظیر بھٹو کی سیاسی جدوجہد کو یہ کہہ کر رد کر دینا کہ وہ ایک جاگیرداریا خاندانی سیاست کی وارث تھیں، ایک انتہائی رجعت پسندانہ سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ انہوں نے اپنے پورے کنبے کی قربانی دی، جدوجہد کے اس سفر میں انہیں قید و بند کی صعوبتیں اور دھمکیاں بھی برداشت کرنا پڑیں، عورت ہونے کی بنا پر مخالفین کی جانب سے نازیبا اور نامناسب تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا اور اسی جہد مسلسل میں انہیں بالآخر ایک خوفناک حادثے میں اپنی جان کی قربانی بھی دینا پڑی۔

انہیں ان تمام مصیبتوں کا سامنا اس لئے نہیں کرنا پڑا کیونکہ وہ ایک جاگیردار تھیں (کتنے جاگیردار ان مشکلات سے دوچار ہیں؟) وہ اس لئے مشکلات سے لڑیں کیونکہ انہوں نے آمریت، مذہبی انتہا پسندی اور پدر شاہی نظام کے خلاف آواز اٹھائی۔ ان کی ظلم اور جبر برداشت کرنے کی قابلیت اس خطے میں بسنے والے لوگوں کی اپنی محرومیوں سے لڑنے کی طاقت کی عکاسی کرتی ہے۔ جو کہ خود بھی نوآبادیاتی نظام کے ظلم و ستم کا مقابلہ کرنے پر مجبور ہیں۔

RelatedPosts

صحافیوں اور ادیبوں کو سیاسی جماعتوں کا بھونپو نہیں بننا چاہئیے

خالد چودھری کی ساری عمر سماجی ناانصافی کے خلاف جدوجہد کرتے گزری

Load More

یقیناً انہوں نے کچھ غلطیاں بھی کیں، سمجھوتے بھی کیے اور ان کی کچھ مجبوریاں بھی تھیں۔ تاہم،یہ مجبوریاں ایک مضبوط اور سفاکانہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف طویل اور پرجوش جدوجہد کا نتیجہ تھیں نہ کہ محض نظریاتی تخیل۔ ہر نسل کو ماضی کی غلطیوں سے سیکھنا چاہیے اور ان کو مدنظر رکھتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیے۔ یہ سبق ہمارے لئے بھی ہے۔ لیکن یہ سب بینظیر یا ان ساتھیوں کی جدوجہد کو رد کر دینےسے ممکن نہیں ہوگا۔ ظلم وجبر کے خلاف لڑنے کی ان کی جدوجہد، مزاحمت اور پروقار انداز ہمارا بھی ورثہ ہیں۔ ان کی جانب سے کیے گئے سمجھوتے بھی بحثیت قوم ہماری اجتماعی ناکامی ہیں جسکی تصحیح کرتے ہوئے ہمیں آگے بڑھنا ہے۔

پیپلز پارٹی کی سیاست پر بائیں بازو کی ایک مفصل اور جامع تنقید موجود ہے۔ تاہم، نوے کی دہائی میں رجعتی قوتوں نے بائیں بازو کا ہی بیانیہ پیپلز پارٹی کے خلاف استعمال کیا اور بینظیر کی ترقی پسند سیاست کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ جبکہ یہ رجعتی قوتیں پیپلز پارٹی میں موجود بائیں بازو کے لوگوں سے اس سے بھی زیادہ نفرت کرتے تھے۔ تو کہا یہ جاسکتا ہے کہ دائیں بازو کی ان رجعتی قوتوں کو صرف بینظیر سے نفرت نہیں تھی بلکہ انہیں ترقی پسند سیاست سے نفرت بھی تھی۔ لہٰذا ہمیں اپنے دوستوں اور دشمنوں میں فرق واضح کرنے کی شدید ضرورت ہے اور اپنے نظریے کی بنیاد پر پیپلز پارٹی کی سیاست پر تنقید کرنی چاہیے نہ کہ بدنیتی پر مبنی رٹے رٹائے الزامات کو دہراتے رہیں۔

آخر کار، دنیا بھر کے دائیں بازو کے سیاست دان سیاست کو معاشرتی اور معاشی پہلوؤں تک محدود کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو کہ نوجوانوں کو غیر سیاسی کرنے کی ایک مذموم سازش ہے۔ ایک سازش کے تحت ایک ایسا نقطہ نظر بنایا گیا ہے جس میں ضیاالحق جیسے ڈکٹیٹر کو متوسط طبقے سے اٹھ کر اعلیٰ منصب تک پہنچنے کی مثالیں دی جاتی ہیں لیکن بھٹو کو ایک بد ترین جاگیردار تصور کیا جاتا ہے۔ ایسا تقابلی جائزہ ایسے ہی ہے جیسے ایک فاشسٹ حکمران نریندر مودی گاندھی یا نہرو خاندان کے مقابلے میں خود کو بہتر قرار دیتا ہے۔

اس کی بجائے، ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ سیاست کی سمت کا تعین ان اصولوں پر ہوتا ہے جو سیاسی میدان میں طے کیے جاتے ہیں جسکے لئے قربانیاں دینے کے لئے بھی ہمہ وقت تیار رہنا پڑتا ہے۔ اسی لئے محترمہ بینظیر بھٹو نو آبادیاتی نظام کے خلاف مزاحمت کا ایک استعارہ ہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون کتنا مارکسی فلسفہ استعمال کرتا ہے تاہم اگر ہم ان سے آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو ہمیں مزید کام کرنا ہوگا اور مزید قربانیوں کے لئے ہمیشہ تیار رہنا ہوگا۔ محترمہ بینظیر بھٹو کی سیاسی جدوجہد کو رد کرنا ایک ناقص، شکست خوردہ اور حاسدانہ سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ ایک ایسی کیفیت ہے جو ہمیں حقیقی ترقی پسند متبادل سیاست کی بجائے اسٹیبلشمنٹ کی نفرت انگیز سیاست کے قریب لاتی ہے۔

Tags: بائیں بازو کی سیاستبینظیر بھٹوپیپلز پارٹیجدوجہدضیاءالحقعمار علی جان
Previous Post

اگر مذہبی حلقے ملک کے ساتھ نہ ہوتے تو فوج کبھی دہشت گردی کو شکست نہ دے سکتی: مولانا فضل الرحمٰن

Next Post

جناب چئیرمین نیب ان سوالات کا جواب دیں: جے یو آئی ف نے چئیرمین نیب سے 26 سخت ترین سوالات پوچھ لیئے

ڈاکٹر عمار علی جان

ڈاکٹر عمار علی جان

ڈاکٹر عمار علی جان ایک محقق اور سیاسی و سماجی کارکن ہیں۔ انہوں نے کیمبرج یونیورسٹی سے تاریخ میں پی ایچ ڈی کی ہے ۔مصنف حقوقِ خلق پارٹی سے منسلک ہیں۔

Related Posts

Aamir Ghauri Nawaz Sharif

نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بن سکتے ہیں؟

by عامر غوری
جنوری 27, 2023
0

16 سال قبل میں محمد نواز شریف کے ساتھ ان کے خاندان کے مشہور پارک لین فلیٹس میں بیٹھا جیو نیوز کے...

گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے والے فواد چودھری کو کیوں گرفتار کیا گیا؟

گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے والے فواد چودھری کو کیوں گرفتار کیا گیا؟

by وجیہہ اسلم
جنوری 27, 2023
1

فواد چودھری کو گرفتار کیوں کیا گیا؟ فواد چودھری نے الیکشن کمیشن کو ایسا کیا کہہ دیا تھا؟ فواد چودھری نے بغاوت...

Load More
Next Post
جناب چئیرمین نیب ان سوالات کا جواب دیں: جے یو آئی ف نے چئیرمین نیب سے 26 سخت ترین سوالات پوچھ لیئے

جناب چئیرمین نیب ان سوالات کا جواب دیں: جے یو آئی ف نے چئیرمین نیب سے 26 سخت ترین سوالات پوچھ لیئے

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

No Result
View All Result

ایڈیٹر کی پسند

Aamir Ghauri Nawaz Sharif

نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بن سکتے ہیں؟

by عامر غوری
جنوری 27, 2023
0

...

عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی ٹھکرائی ہوئی محبوبہ ہیں

عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی ٹھکرائی ہوئی محبوبہ ہیں

by عاصم علی
جنوری 18, 2023
0

...

جنرل یحییٰ خان اور جنرل قمر باجوہ ایک ہی سکے کے دو رخ ثابت ہوئے

جنرل یحییٰ خان اور جنرل قمر باجوہ ایک ہی سکے کے دو رخ ثابت ہوئے

by طارق بشیر
جنوری 18, 2023
0

...

ایک اقلیتی حقوق کے کمیشن کی تشکیل کیسے بارآور ثابت ہو سکتی ہے؟

ایک اقلیتی حقوق کے کمیشن کی تشکیل کیسے بارآور ثابت ہو سکتی ہے؟

by پیٹر جیکب
جنوری 14, 2023
0

...

Ahmad Baloch Kathak dance

بلوچستان کا ایک غریب چرواہا جو بکریاں چراتے چراتے آرٹسٹ بن گیا

by ظریف رند
جنوری 6, 2023
0

...

Newsletter

ہماری مدد کریں

ٹویٹس - NayaDaur Urdu

نیا دور کے صفِ اوّل کے مصنفین

پیٹر جیکب
پیٹر جیکب
View Posts →
حسن مجتبیٰ
حسن مجتبیٰ
View Posts →
عرفان صدیقی
عرفان صدیقی
View Posts →
نجم سیٹھی
نجم سیٹھی
View Posts →
نبیلہ فیروز
نبیلہ فیروز
View Posts →
محمد شہزاد
محمد شہزاد
View Posts →
توصیف احمد خان
توصیف احمد خان
View Posts →
رفعت اللہ اورکزئی
رفعت اللہ اورکزئی
View Posts →
فوزیہ یزدانی
فوزیہ یزدانی
View Posts →
حسنین جمیل
حسنین جمیل
View Posts →
مرتضیٰ سولنگی
مرتضیٰ سولنگی
View Posts →
اسد علی طور
اسد علی طور
View Posts →
ادریس بابر
ادریس بابر
View Posts →
رضا رومی
رضا رومی
View Posts →
علی وارثی
علی وارثی
View Posts →

Cover for Naya Daur Urdu
64,514
Naya Daur Urdu

Naya Daur Urdu

پاکستان کی ثقافت اور تاریخ کو دیکھنے کا ایک نیا زاویہ

This message is only visible to admins.
Problem displaying Facebook posts.
Click to show error
Error: Server configuration issue

خبریں، تازہ خبریں

  • All
  • انٹرٹینمنٹ
  • سیاست
  • ثقافت
کم از کم اجرت 20 ہزار، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ: بجٹ 2021 پیش کر دیا گیا

اقتدار کے ایوانوں سے جلد کسی ‘بڑی چھٹی’ کا امکان ہے؟

اکتوبر 31, 2021
ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

اکتوبر 27, 2021
بد ترین کارکردگی پر الیکشن نہیں جیتا جاسکتا، صرف ای وی ایم کے ذریعے جیتا جاسکتا ہے

ای وی ایم اور انتخابات: ‘خان صاحب سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ لینے کے لیئے بے تاب ہیں’

اکتوبر 24, 2021

Naya Daur © All Rights Reserved

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English

Naya Daur © All Rights Reserved

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In