بائیڈن انتظامیہ اور آصف علی زرداری: مستقبل کا منظر نامہ تبدیل ہو رہا ہے

بائیڈن انتظامیہ اور آصف علی زرداری: مستقبل کا منظر نامہ تبدیل ہو رہا ہے
جو بائیڈن کی تقریبِ حلف برداری 20 جنوری کو ہونے جا رہی ہے جس میں پیپلز پارٹی کے کچھ اراکین بشمول سابق ڈپٹی سپیکر سندھ اسمبلی سیدہ شہلا رضا کے مطابق سابق پاکستانی صدر آصف علی زرداری اور ان کے صاحبزادے و پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو بھی اس تقریب میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔ شہلا رضا کے مطابق آصف زرداری ناسازی طبیعت کے باعث یہاں نہیں جا پائیں گے لیکن بلاول بھٹو زرداری تقریب حلف برداری میں شرکت کریں گے۔ اس حوالے سے نیا دور کو پاکستان پیپلز پارٹی ذرائع نے تصدیق نہیں کی لیکن پارٹی کے قریبی ذرائع کے حوالے سے ARY News کا دعویٰ ہے کہ پیپلز پارٹی کے دونوں سرکردہ رہنماؤں کو بائیڈن انتظامیہ کی طرف سے دعوت دی گئی ہے۔ یہ ایک بڑا دعویٰ ہے جو کہ اگر درست ہے تو اس سے مستقبل کا منظرنامہ کچھ نئی صورت اختیار کرتا دکھائی دیتا ہے۔

ماضی میں جو بائیڈن آصف زرداری اور پیپلز پارٹی حکومت کے ساتھ بہت قریبی تعلق رکھتے تھے اور ان کو پی پی پی قیادت کے ساتھ کام کرنے کا وسیع تجربہ ہے۔ بائیڈن نے نہ صرف کیری لوگر بل، جو ابتداً بائیڈن لوگر بل تھا، کی تیاری میں کلیدی کردار ادا کیا بلکہ سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کی وطن واپسی، جمہوریت کی بحالی اور 2008 انتخابات کروانے میں بھی ان کا کردار انتہائی اہم تھا۔ جمہوریت کی بحالی کے ذریعے وہ افغانستان اور پاکستان میں دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی عوام کو شامل کرنے کے خواہاں تھے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ پیپلز پارٹی کے اس جنگ کی قیادت لینے کے بعد ہی سول سوسائٹی اور میڈیا کے اندر اس جنگ کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ اس سے پہلے تک اسے صرف غیر ملکی دباؤ کے تحت پاکستان پر خود سے مسلط کر لی گئی ایک جنگ سمجھا جاتا تھا جسے جنرل پرویز مشرف محض اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کی خاطر اپنے گھر لے آئے تھے۔ پیپلز پارٹی کے دورِ اقتدار میں سوات آپریشن کے علاوہ قبائلی علاقوں میں بڑی کارروائیاں کی گئیں۔ نتیجتاً ملک کے اندر طالبان کی کارروائیاں بھی بڑھیں مگر اس میں کوئی دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ اسی قیادت کے دوران اس جنگ کو قوم نے اپنی جنگ سمجھنا شروع کیا۔

یہ بھی یاد رہے کہ جنرل مشرف کے استعفے میں بھی جو بائیڈن کے کردار کو اہم سمجھا جاتا ہے۔ اس حوالے سے گذشتہ ماہ خود آصف علی زرداری نے محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی برسی سے خطاب کے موقع پر کریڈٹ لیا جب وہ ’کہنا دھی نوں، سنانا نؤں نوں‘ یعنی کہنا بیٹی کو اور سنانا بہو کو والے محاورے کے مصداق پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کو سنا رہے تھے کہ نکالا کیسے جاتا ہے، یہ ہم سے سیکھو، ہم نے جنرل مشرف کو بھی نکالا تھا۔ اسے بھی نکالنے کا طریقہ ہمیں ہی آتا ہے۔

ان کا اس معنی خیز جملے سے کیا مطلب تھا، اس کا اندازہ اس حالیہ خبر سے لگایا جا سکتا ہے۔ اگر یہ خبر درست ہے تو لگتا یہی ہے کہ آصف علی زرداری نے ایک بار پھر ایک بڑا تیر مار ہی لیا ہے۔ اس سے پیپلز پارٹی کو کیا ملے گا؟ اب جو بائیڈن ظاہر ہے کہ پاکستان آ کر پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر تو الیکشن لڑنے سے رہے۔ مگر وہ پاکستان کی اسٹیبلسمنٹ پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے حالات کو سازگار ضرور بنا سکتے ہیں جن کے ذریعے پیپلز پارٹی کو کھل کر کھیلنے کا موقع مل جائے اور اس کے خلاف بنے کیسز کو ذرا کچھ عرصے کے لئے backburner پر ڈال دیا جائے۔ یاد رہے کہ بینظیر بھٹو کی وطن واپسی میں ایک بنیادی حیثیت قومی مفاہمتی آرڈیننس یعنی NRO کو حاصل تھی۔ یہ NRO ہی تھا جس نے پیپلز پارٹی قیادت کے خلاف مقدمات ختم کروا کے بینظیر بھٹو کے پاکستان آنے کی راہ ہموار کی تھی۔ زرداری صاحب بھی صدر اسی NRO کی بدولت بن پائے تھے۔ آج جب محترم وزیر اعظم عمران خان صاحب کہتے ہیں کہ وہ NRO نہیں دیں گے تو وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ NRO کا مطلب کیا ہے اور اس سے پوری بازی کتنی تیزی سے پلٹ سکتی ہے۔

مگر اب سوال یہ ہے کہ اکیلے جو بائیڈن تو یہ سب کر نہیں سکتے۔ یقیناً یہ سب معاملات کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی کے تحت ہی طے ہونے ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ چند روز قبل جب یوٹیوب کے کچھ حد سے زیادہ ’باخبر‘ صحافی وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کے ملک سے فرار ہو جانے کی خبریں چلا رہے تھے، اس وقت مراد علی شاہ امریکہ ہی میں تھے اور وہاں اپنی جماعت کے لئے لابنگ کر رہے تھے۔ کچھ لوگوں کے نزدیک یہ تازہ خوشخبری بھی انہی کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ اس دورے پر ان کے ساتھ کچھ ایسے لوگ جو موجودہ انتظام میں طاقتور ترین حیثیت رکھتے ہیں بھی مراد علی شاہ کے ساتھ ساتھ رہے۔ اطلاعات ہیں کہ موجودہ انتظام اور پیپلز پارٹی کے درمیان آنے والے انتظام کے بارے میں فیصلہ ہو چکا ہے۔ اور اس انتظام میں وزیر اعظم عمران خان کی پوزیشن کو کوئی خطرہ بھی نہیں، انہیں بھی اس نئے نظام میں فی الحال وہی جگہ ملی رہے گی، جو ان کے پاس اس وقت ہے۔ لہٰذا انہیں بھی اس فارمولے پر کوئی اعتراض نہیں کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کا اقتدار برقرار رہے، وفاق، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں وہ خود براجمان رہیں اور بلوچستان تو نہ پہلے کبھی کسی کے پاس تھا، نہ آئندہ کسی کے پاس جانے کا کوئی امکان موجود ہے۔

اس کھیل میں مسلم لیگ نواز اور مولانا فضل الرحمٰن کے ہاتھ صرف ہاتھ ملنا ہی آتا دکھائی دے رہا ہے۔ لیکن یہ بھی یاد رہے کہ جس انتظام کی طرف پیچھے اشارہ کیا گیا ہے، وہ زیادہ دیر قائم رکھنا ممکن نہیں ہوگا۔ اول تو عمران خان صاحب کسی کے ساتھ اقتدار میں شراکت قبول کرنے کے لئے لازمی عنصر یعنی سیاست کی بنیادی سطح کی سمجھ بوجھ وغیرہ جیسی علتوں سے بالکل پاک ہیں۔ دوسرے ہمارے سامنے 2008 کی مثال موجود ہے کہ جب جنرل مشرف کو مجبور کیا گیا کہ وہ اقتدار میں کچھ حصے داری برداشت کر لیں جس کے نتیجے میں انہوں نے وردی اتاری، انتخابات کروائے اور چھ مہینے بعد خود بھی چلتا کر دیے گئے۔ عمران خان صاحب کے سامنے بھی وہی صورتحال موجود ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ سب گڈے گڑیا کا کھیل نہیں اور انگریزی محاورے کے مصداق کپ اور لبوں کے بیچ بہت سی لغزشیں ممکن ہیں، لیکن مستقبل کا منظرنامہ دھندلا ہی سہی، کچھ کچھ نظر آنا شروع ہو رہا ہے۔ اب دیکھتے ہیں، دھند چھٹنے اور صورتحال واضح ہونے تک اس کی کیا صورت نکلتی ہے۔