ہم کس دور میں جی رہے ہیں؟

ہم کس دور میں جی رہے ہیں؟
رات کے 1 بجے سال نو کے منعقدہ پروگرام سے فارغ ہوکر دوستوں کے ہمراہ واپس ہاسٹل کی طرف آرہا تھا اچھانک میری نظر ایک  عجیب گھونگریلی سی شے پہ پڑی، جب قریب جاکےدیکھا تو ایک بوڑھا آدمی اپنے دونوں گھوٹنوں  پہ سر رکھ کر سورہاہے۔ یہ منظر دیکھ کے مجھ پہ ایک عجیب سی کیفیت تاری ہوئی اور تھوڑے لمحے کے لئے مجھے لگا کہ میرے سر کے بال ایک بھی نہیں رہے۔ پھر میں نے دوستوں سے کہا کہ اس کی کچھ مدد کرتے ہیں اور میرےاسرار پر دوستوں نے تھوڑے پیسے اکھٹے کیے ۔ پیسے دینے کے لیےجب ہم نےاس کو آواز دی تو بوڑھا فقیرانہ نظروں سے ہماری طرف دیکھنے لگا ۔ میں نے کہا السلام علیکم جوابًا اس نے سر ہلایا۔ اس بوڑھے کے پاس گرم کپڑے نہیں تھے البتہ ایک ہلکی سی چادر تھی ، اس سے بوڑھے کی مجبوری کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جنوری کی جما دینے والی سردی میں کوئی بندہ کیسے راستے کے کنارے  بیٹھ سکتا ہے۔

ہمارے پوچھنے پر بوڑھا فقیر نے بتایا کہ "میرا کوئی بیٹا نہیں صرف ایک بیٹی ہے اور میں صبح گھر سے نکلتا ہوں اور رات کو واپس چلا جاتا ہوں" ہم نے اس کے سامنے اس کی تعریف کی کہ اپنے بچی کو گھر میں عزت سے رکھا ہے یہ خود دربدر کی ٹھوکریں کھانے کو تیار ہیں ۔ بہرحال  اس کی باتیں سن کر مجھے بے حد افسوس ہوا اور میرے آنکھوں سے آنسو نکل آئے اور میں یہ سوچنے پہ مجبور ہوا کہ ہم کس طرح کے معاشرے میں رہ رہے ہیں ہمارے ریاستی ادارے ان نادار اور بے سہارہ لوگوں کی مددکیوں نہیں کر تے۔

جب ہم ریاستی نظریات کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس میں ہمیں "نظریہ تخلیق ربانی" The Divine origin theory "کا تصور ملتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ ملک (جس میں ہم رہ رہےہیں) کس نام سے وجود میں آیا تھا؟کیا اس ملک کے آئین میں اسلامی تعلیمات کو شامل نہیں کیا گیا؟ کیا یہ ریاست خداوند کریم کی تخلیق نہیں ہے؟ کیا اس ریاست کے حکمران،جسے عرف عام میں بادشاہ اور موجودہ دور میں وزیراعظم، صدر یا وزرا کہاجاتا ہے،  خدا کی طرف سے مقرر کردہ نہیں ہے؟اور کیا اسلام میں حقوق العباد کا تصور نہیں ملتا؟ ان سب کا جواب ہاں میں ملتا ہے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے اس ساری کائنات کے شاہین شاہ،ساری مخلوق کے پالنے والے،زندگی اور موت کا فیصلہ کرنے والے،آسمانوں اور زمین کے مالک،انسانوں اور جناتوں کے معبوط، فرشتوں کےمعبود، عزت اور ذلت کے مالک اور بادشاہوں کے بادشاہ کے تخلیق کردہ ریاست میں اس (اللہ) کا کوئی بندہ بنیادی ضروریات کی طلب میں دربدر کی ٹھوکریں کھائیں اور اپنی زندگی خطرے میں ڈالیں ۔ ہمارے حکمران خود عیاشی میں لگے ہوئے ہیں ان کو غریبوں اور ناداروں  کی کوئی پرواہ نہیں ۔

ہمارے معاشرے میں ان لوگوں کی بڑی عزت کی جاتی ہے،جن کے پاس بینک بیلنس ہو اور بڑی بڑی کوٹھیوں میں رہ رہے ہو غریب،نادار اور بے سہارہ لوگوں کی طرف دیکھنا بھی کوئی گوارہ نہیں کرتا۔ اسلام میں تفرقہ بازی کی لعنت کو سختی سے منع کیاگیا ہے۔اسلام تو ہمیں یہ بتاتا ہے کہ" جن کے مال میں مانگنے والوں کا حصہ مقرر ہے یہی لوگ جنت میں عزت و اکرام سے ہوں گے" ہم غریبوں کی مدد کرتے ہیں تو یہ بات ہمیں سمجھنا چاہئے کہ اللہ تعالی نے خود ہمارے مال میں سے غریبوں کے لیے حصہ مقرر کر رکھا ہے۔ ہمارے معاشرے میں لوگوں کو ذات پات، رنگ ونسل کی عینک سے پرکھا جاتاہے جوکہ اسلام نے اس کوناسور قرار دیا ہے۔ اسلام ہمیں اس بات کی تاکید کی ہے کہ" کسی گورے کو کسی کالے اور کسی کالے کو کسی گورے پر کوئی فوقیت نہیں"

ہمارے معاشرے میں غریب طبقہ ہر لحاظ سے پسا ہوا ہے جو نہ حکومتی ناانصافیوں  کے خلاف ہنگامہ آرائی کرسکتا ہے اور نہ ہی " مارکسی تصور" The Marxist theory of state "کو سمجھ سکتا ہے۔

غریب اورنادار لوگ اللہ اور اس کے رسول کے زیادہ قریب ہوتے ہیں ۔ان لوگوں کے لیے انعام مقرر کی گئی ہےجو دل و جان سے غربا اور نادار لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ اللہ خود فرماتا ہے کہ" وہی متقی لوگ بہشت کے باغوں میں عیش سے رہیں گے، جو اپنے مال کا ایک حصہ دنیا میں غریبوں، مسکینوں اور ضرورت مندوں پر خرچ کرتے ہیں۔اس وجہ سے میں اور میرے دوست بھی اس فقیر کی تھوڑی بہت مدد کی اور اس سے دستبدستہ گزارش کی کہ وہ گھر چلا جائے،کیونکہ سردی بہت زیادہ تھی۔

میں پوری رات اس فقیر کی بے بسی اور حکمرانوں کی بے رحمی کےبارے سوچتا رہا۔ ہمارے حکمران ریاست مدینہ کے دعویدار ہیں لیکن انسانی حقوق انسانوں کو میسر نہیں ۔ ریاست مدینہ میں توایک کتا بھی بوکھا نہیں سو تاتھااور ریاست مدینہ کے حکمران رات کو مدینہ کی گلیوں میں چکر لگاتے تاکہ کوئی بوکھا نہ سوئے۔۔

اخر میں یہ دعا ہےکہ اللہ تعالی ہمیں غریبوں کو درپیش مسائل کے حل میں اول دستے کا کردار ادا کرنے کی توفیق عطا کرے۔۔امین