اردو ہے میرا نام میں خسرو کی پہیلی

اردو ہے میرا نام میں خسرو کی پہیلی
اگر اس بات پر تحقیق کی جائے کہ کون سے تین عناصر ہیں جو وطن عزیز میں قومی یک جہتی کے علامت سمجھے جاتے ہیں ان میں پاکستان ریلویز ، کرکٹ کا کھیل اور اردو زبان ہے۔

وطن عزیز کے جس مرضی کونے میں چلیں جائیں آپ کو ریلوے اسٹیشن مل جائے گا پٹڑی اور اس پر چلتی ٹرین نظر آئے گی،جب قومی کرکٹ ٹیم کوئی میچ کھیل رہی تو ملک کے کونے کونے میں ٹی وی پر میچ دیکھا جاتا ہے۔ اور ریڈیو پر روداد نشر ہو رہی ہوتی ہے قومی ٹیم کی جیت کی دعائیں مانگی جاتی ہیں،اگرچہ ہمارا قومی کھیل ہاکی ہے مگر کرکٹ کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے پہلے ایک وقت تھا جب کرکٹر صرف لاھور اور کراچی سے آتے تھے مگر پچھلے چند سالوں میں خیبر پختونخوا پنجاب اور اب سندھ سے باصلاحیت کھلاڑیوں کو موقع مل رہا ہے بلوچستان اور گلت بلتستان میں پی سی بی اور علاقائی کرکٹ ایسوسی ایشن باصلاحیت کھلاڑیوں کی تلاش میں ہیں وہ وقت دور نہیں جب ان علاقوں کے نوجوان بھی ٹیسٹ کیپ سر پر سجائیں گے۔

جہاں تک اردو زبان کی بات ہے تو یہ زبان برصغیر کی دیگر زبانوں کے مقابلے میں نووارد ہے مگر اس زبان کا دھارا اس قدر وسیع پیمانے پر پھیل چکا ہے کہ پوری دنیا میں یہ زبان بولی اور لکھی جاتی ہے بولی ووڈ کی فلموں کے سکرپٹس اگر اردو زبان کے لفظ بڑی تعداد میں نہ شامل کئے جائیں اور سنسکرت اور ہندی کے الفاظ زیادہ استعمال ہوں تو ان فلموں کی مقبولیت میں کمی آسکتی ہے۔

اگر بولی ووڈ کی فلمی تاریخ سے کمال امروہوی،سلیم خان،جاوید آخر،جاوید صدیقی ،قادرخان،شاہد لطیف،کرشن چندر راجندر سنگھ بیدی،اور فلمی گیت نگاری سے ساحر لدھیانوی،شکیل بدایونی،جاننثار آختر،حسرت جے پوری،گلراز ،جاوید اختر،کیفی اعظمی نہ ہوں تو ان کی گیتوں کی مٹھاس ختم ہو جائے گی۔

وطن عزیز میں اردو سب سے زیادہ بولی پڑھی اور لکھی جانے والی زبان ہے ،اپ پاکستان کے کسی کونے میں چلے جائیں آپ کو دوکانوں بازاروں اور سڑکوں کے نام اردو میں ہی لکھے نظر آئیں گے ،سب سے زیادہ اردو زبان کے اخبارات اور رسائل شائع ہوتے ہیں سب سے زیادہ اردو زبان کے ٹی وی چینلز دیکھے جاتے ہیں اردو زبان کے ریڈیو پروگرام سنے جاتے ہیں ،مگر کیا وجہ ان تمام حقائق کے باوجود ہم اپنی قومی زبان کو دفتری اور سرکاری زبان بنانے میں ناکام ہیں،پاکستان کے سب سے اونچے عدل وانصاف کے منصب پر فائز رہنے والے جج صاحب جواد ایس خواجہ صاحب نے اردو کو دفتری اور سرکاری زبان کے طور پر نافذ کرنے کا حکم نامہ جاری کیا تھا مگر سالوں بعد بھی اس پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ اس کی زمہ داری نوکر شاہی پر عائد ہوتی ،موجودہ نوکر شاہی تاج برطانیہ نے برصغیر پر حکومت کرنے کے لیے قائم کی تھی بارہ ہزار انگریز افسروں کے ذریعے چالیس کروڑ ہندوستانیوں پر حکومت کی گئی ،تقسیم کے بعد سفید رنگ والے چلے گئے،اب یہاں گندمی رنگت والے افسران رہ گئے مگر انہوں نے مسٹر بروان بن کر اپنے ہی ہم وطنوں پر حکومت شروع کر دی،کیوں وہ نہیں چاہتے تھے کہ انگریزی زبان بطور ذریعہ تعلیم کے ختم کیا جائے کیوں اس طرح انکی اجارہ داری قائم نہیں رہتی۔

اگر مقابلے کے امتحانات اردو میں۔ قانون کی تعلیم ڈاکٹری کی تعلیم اور سائنس کی تعلیم اردو میں شروع ہو جائے تو غریب کا بچہ بھی انکے ساتھ بیٹھ کر حکومت سازی کرے گا جو اس مادر پدر نوکر شاہی کو قبول نہیں ،میں یہاں انگش کے خلاف نہیں ہوں میں چاہتا کہ انگریزی زبان کو بطور مضمون ضرور پڑھایا جائے مگر ذریعہ تعلیم اردو میں ہی ہو ،اور سب سے اہم بات پاکستان میں بولی جانے والی تمام علاقائی زبانیں بہت قابل احترام ہیں ان کا جائز مقام ان کو ملنا چاہیے،مگر جو زبان ملک کے طول وعرض میں بولی لکھی اور پڑھی جاتی ہے وہ اردو ہے اور یہی زبان قومی یک جہتی کی علامت ہے،لہذا وزیراعظم عمران خان یکساں نصاب تعلیم نافذ کرنے کی طرف بڑھ رہے ہیں اس میں اردو کو سرکاری دفتری اور عدالتی زبان کے طور پر فوری طور پر نافذ کیا جائے اس کے بعد آپ دیکھیں گے ہماری شرخ خواندگی کی اوسط بلندی پر جاتی ہے۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔