• آن لائن اشتہاری ٹیرف
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • ہمارے لئے لکھیں
  • نیا دور انگریزی میں
جمعہ, جنوری 27, 2023
نیا دور
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
نیا دور
No Result
View All Result

سیاسی جماعتوں میں جمہوریت ہوتی تو مسلم لیگ کے سربراہ کیپٹن صفدر ہوتے

علی وارثی by علی وارثی
ستمبر 29, 2021
in تجزیہ
3 0
0
سیاسی جماعتوں میں جمہوریت ہوتی تو مسلم لیگ کے سربراہ کیپٹن صفدر ہوتے
17
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on Whatsapp

مسلم لیگ نواز بھی بیچاری پتہ نہیں کس طرف کو کھڑی ہے۔ کبھی ماضی میں شدید دائیں بازو کی جماعت سمجھا جاتا تھا۔ حمید گل جیسے انتہائی دائیں بازو کی سوچ رکھنے والے جرنیل اس اسلامی جمہوری اتحاد کے خالقوں میں سے تھے جس نے 1990 میں انتخاب جیتا تو ہی نواز شریف پہلی مرتبہ پاکستان کے وزیر اعظم بن سکے تھے۔ اس دور میں نواز شریف صاحب بینظیر بھٹو کو سکیورٹی رسک کہا کرتے تھے۔ لیکن اپنے پہلے دورِ حکومت میں انہوں نے بتدریج اپنی بھارت دشمنی میں کمی لانے کی باقاعدہ شعوری کوشش کی اور 1998 میں ایٹمی دھماکے کرنے کے بعد جب بھارت نے پاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا تو میاں صاحب مکمل طور پر بھارت سے دوستی کے خواہاں کیمپ میں شامل ہو گئے۔ کم از کم 1999 کے بعد سے وہ مسلسل بھارت کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے ایک طاقتور داعی ہیں۔ تاہم، ان کی جماعت میں آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو بھارت اور کشمیر کے معاملے پر سخت گیر مؤقف رکھتے ہیں۔ چودھری نثار اب میدان میں نہیں لیکن اب بھی راجا ظفرالحق، سرتاج عزیز اور ان کے کئی ساتھی مطالعہ پاکستان میں ایمان رکھتے ہیں۔

دوسری طرف 1980 کی دہائی میں نواز شریف فوج کے کندھے پر سوار ہو کر ہی اقتدار تک رسائی حاصل کر پائے تھے۔ جنرل غلام جیلانی نے انہیں وزیر بنایا، بعد ازاں انہیں وزیر اعلیٰ پنجاب بھی بنا دیا گیا اور ان کے خلاف یوسف رضا گیلانی اور چودھری پرویز الٰہی کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے جنرل ضیاالحق خود میدان میں اترے تھے۔ مگر 1993 میں انہیں اقتدار سے نکالا گیا تو نواز شریف اور فوج کے درمیان تعلقات میں ایک خلیج پیدا ہوئی جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی گئی۔ 1999 میں انہیں اقتدار سے نکالا گیا تو یہ coup سپہ سالار نے خود نہیں بلکہ ادارے نے کیا تھا جو اپنے سپہ سالار کو نکالے جانے کا بدلہ لینے پر تلا تھا۔ جزئیات پر بات ہو سکتی ہے لیکن 1999 میں نواز شریف نے فوج کے اندر اپنے تقریباً تمام حامیوں کو کھو دیا تھا۔ 2013 میں لہٰذا وہ جب اقتدار میں آئے تو انہیں صرف قبول کر لیا گیا تھا کیونکہ عوام میں ان کی مقبولیت اس وقت پنجاب کی حد تک اتنی ضرور تھی کہ وہ اقتدار میں آ سکیں اور میمو گیٹ اور یوسف رضا گیلانی کے ’ریاست کے اندر ریاست‘ والے بیان کے بعد پیپلز پارٹی ناقابلِ قبول ہو چکی تھی۔ نواز شریف لہٰذا اقتدار میں تو آ گئے لیکن دو تہائی اکثریت نہ ہونے کے باوجود اس بار ان کا confidence 1997 سے بھی زیادہ تھا۔ اختلافات بڑھتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ 1999 کے مارشل لاء کے بعد جو تھوڑی بہت کسر باقی رہ گئی تھی، وہ 2017 میں بالکل ختم ہو گئی۔ میاں صاحب اب ناقابلِ قبول ہیں۔ کم از کم فی الحال تو صورتحال یہی ہے۔

RelatedPosts

فیصل آباد میں احمدی قبروں کی توڑ پھوڑ، سیالکوٹ میں میت دفنانے کی اجازت نہ دی گئی

اداروں کے خلاف بیان، مولانا فضل الرحمان ، آصف زرداری، نواز شریف اور رانا ثناء پر مقدمہ درج

Load More

یہاں بھی نواز شریف نے تاریخ کی غلط سمت سے صحیح سمت کی طرف سفر کیا۔ مگر ان کی جماعت میں آج بھی بہت بڑی تعداد میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر کھیلنے کی خواہش رکھنے والے بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ جماعت ہی کیا، خاندان میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں۔ نواز شریف صاحب نے بھلے سبق حاصل کر لیا ہو، جماعت وہیں کھڑی ہے۔ البتہ نواز شریف کا متوالا سپورٹر اب نواز شریف کے ساتھ کھڑا ہے اور وہ سویلین بالادستی میں یقین رکھتا ہے۔

تیسرا معاملہ مذہب کا ہے۔ اسلامی جمہوری اتحاد کی مدد سے 1988 انتخاب میں پنجاب کا وزیر اعلیٰ بننے والا نواز شریف جو بعد میں اسی اتحاد کے ووٹوں سے ملک کا وزیر اعظم بھی بنا اور 1999 میں یہاں تک چلا گیا کہ تقریباً شریعہ نافذ کر کے ملک کا امیرالمؤمنین بننے کی خواہش رکھتا تھا۔ لیکن جہاں ان کی سوچ میں دیگر حوالوں سے تبدیلی آئی ہے، مذہبی معاملے میں بھی وہ اب کوئی سخت گیر مؤقف نہیں رکھتے۔ ذاتی طور پر وہ اب بھی صوم و صلوٰۃ کے پابند ہیں لیکن عوامی سطح پر وہ اب ’اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے‘ کہنے تک ہی محدود ہیں۔

تاہم، یہاں بھی ان کی جماعت کے زیادہ تر لوگ وہیں کھڑے ہیں جہاں وہ کئی دہائیوں پہلے کھڑے تھے۔ 2009 میں شہباز شریف کا طالبان کی سوچ کو مسلم لیگ ن کی سوچ سے ہم آہنگ قرار دینا ہو یا پھر 2017 میں بائیسویں آئینی ترمیم کے ’ذمہ داروں‘ کو کابینہ سے نکال باہر کرنے کی اپیل، 2013 میں چودھری نثار کا حکیم اللہ محسود کے ڈرون حملے میں مارے جانے پر واویلا ہو یا پھر 2017 میں سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی آڑ لے کر شہری آزادیوں کو پامال کرنے کی مذموم سازش کا حصہ بننا ہو، مسلم لیگ نواز کے سرکردہ رہنما اور وفاقی کابینہ کے وزرا یہ سب کام ہر دور میں کرتے رہے ہیں۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں بھی اس جماعت کا نظریہ ہمیشہ درمیانی پالیسی اپنانے کا ہی رہا۔ تاہم، نواز شریف خود پر سے یہ ٹیگ ہٹانے کی کوشش بھی بہت عرصے سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ 2010 میں احمدی عبادت گاہوں پر حملہ ہوا تو نواز شریف نے انہیں اپنے پاکستانی بھائی قرار دیا۔ اس پر انہیں خوب فتوے بازی کا سامنا کرنا پڑا۔ 2016 میں وہ دیوالی کے موقع پر ہندو کمیونٹی کی دعوت پر گئے تو وہاں خود کو ہولی کے لئے دعوت بھی دے ڈالی۔ قائد اعظم یونیورسٹی کے محکمہ فزکس کو ڈاکٹر عبدالسلام کے نام سے منسوب کرنے کے احکامات بھی جاری کیے۔

لیکن جب نواز شریف پر ختمِ نبوتؐ کے حوالے سے الزامات لگنے لگے تو ان کے داماد کیپٹن صفدر نے ممتاز قادری کو ہیرو بھی قرار دینا شروع کر دیا۔ وہی ممتاز قادری جسے 29 فروری 2016 کو پھانسی چڑھایا گیا تھا تو حکومت نواز شریف ہی کی تھی۔ بائیسویں آئینی ترمیم پر نواز شریف پر دباؤ حد سے زیادہ بڑھنے لگا تو کیپٹن صفدر نے پارلیمان میں ایک احمدی مخالف نفرت انگیز تقریر کی جس میں فوج میں سے احمدی حضرات کو نکالنے کا مطالبہ بھی شامل تھا۔ نواز شریف ایک طرف جامعہ نعیمیہ میں ممتاز قادری کے حامیوں سے جوتا کھا رہے تھے تو دوسری طرف کیپٹن صفدر خود کو ممتاز قادری کا سب سے بڑا بھکت دکھانے کی کوشش میں مصروف تھے۔

اس گومگو کی پالیسی نے ایک زمانے تک نواز شریف کو عوام کے بہت سے متحارب طبقات میں بیک وقت قابلِ قبول بنائے رکھا۔ حافظ سعید ایک زمانے میں ان کے حامی تھے۔ بریلوی جامعہ نعیمیہ اور دیوبندی جامعہ اشرفیہ دونوں ان کی جماعت کو سپورٹ کیا کرتے تھے۔ تاہم، تحریک لبیک پاکستان کے قیام اور تحریکِ انصاف کی جانب سے انتہائی دائیں بازو کی سیاست کو کچھ اس طرح سے اپنایا ہے کہ آہستہ آہستہ مذہبی طبقات اس کے ہمنوا بنتے جا رہے ہیں، یا کم از کم ان میں ایک خلیج تو پیدا ہو چکی ہے، کہ کچھ لوگ ان کے شدید حامی ہیں اور کچھ ان کے شدید مخالف۔ کیپٹن صفدر کی حالیہ تقریر کو بھی اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ نوشہرہ کے عوام کو کیپٹن صفدر یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ ممتاز قادری کے حامی ہیں، بہت مذہبی ہیں، لہٰذا انہیں ووٹ دیا جائے۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) ان کے ساتھ اس الیکشن میں اتحادی ہے۔ مقابلہ تحریکِ انصاف سے ہے اور کیپٹن صفدر عمران حکومت کو اسرائیلی ایجنٹ قرار دے رہے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے عمران خان نواز شریف کو مودی کا یار قرار دیا کرتے تھے۔

نقصان لیکن اس سارے معاملے میں یہ ہے کہ جب آپ ختمِ نبوتؐ کے معاملے کو سیاسی بناتے ہیں تو اس سے فائدہ وہ سیاسی قوتیں اٹھاتی ہیں جو اس کی اصل چیمپیئن ہیں۔ تحریک لبیک اس کی ایک تازہ ترین مثال ہے۔ وقتی طور پر ختم نبوتؐ کانفرنسز میں شرکت کر کے عمران خان نے انہیں اپنا ہمنوا بنا بھی لیا ہو، آج یہ تمام طبقات عمران خان سے ناخوش ہیں کیونکہ انہیں کہیں ایسی کوئی قانون سازی نظر نہیں آ رہی جو کہ ان کی شریعت نافذ کرنے کی خواہش سے ہم آہنگ ہو۔ ایک جدید قومی ریاست ایسی قانون سازی کی متحمل ہو بھی نہیں سکتی۔ نتیجتاً یہ مذہبی گروہ ان کے خلاف بھی برسرِ پیکار رہتے ہیں۔ نواز شریف کے داماد بھی اسی سوچ کو ایک بار پھر ہوا دے رہے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ وہ مذہبی طبقے کو اپنی طرف راغب کر لیں گے لیکن وہ یہ بھول رہے ہیں کہ مذہبی طبقے کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ممتاز قادری کو پھانسی نواز شریف دور میں ہوئی اور تحریکِ لبیک نے اس کی شدید مخالفت کی۔ اس بیانیے کی ترویج سے وہ تحریکِ لبیک اور ایسی دیگر انتہا پسند تنظیموں کے ہاتھ ہی مضبوط کر رہے ہیں۔ یہ وہ جن ہے جسے بوتل سے باہر نکالنے کو تو سب تیار رہتے ہیں لیکن جب یہ دیو ان کو ہی کھانے لگتا ہے تو انہیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ اب اسے بوتل میں واپس بند کیسے کریں۔

Tags: ختم نبوتکیپٹن صفدر
Previous Post

رواں مالی سال کے پہلے 7 ماہ میں تجارتی خسارہ بڑھ کر 14 ارب 96 کروڑ ڈالر ہوگیا

Next Post

وکلاء کی ہنگامہ آرائی کے باعث آج اسلام آباد ہائیکورٹ اور دیگر عدالتیں بند

علی وارثی

علی وارثی

علی وارثی نیا دور میڈیا کے ویب ایڈیٹر ہیں؛ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے

Related Posts

Aamir Ghauri Nawaz Sharif

نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بن سکتے ہیں؟

by عامر غوری
جنوری 26, 2023
0

16 سال قبل میں محمد نواز شریف کے ساتھ ان کے خاندان کے مشہور پارک لین فلیٹس میں بیٹھا جیو نیوز کے...

علی وزیر اور راؤ انوار کے لئے ملک میں الگ الگ قانون ہے

علی وزیر اور راؤ انوار کے لئے ملک میں الگ الگ قانون ہے

by طالعمند خان
جنوری 26, 2023
0

پاکستان میں فوجی اسٹیبلشمنٹ کی شروع دن سے ایک ہی پالیسی رہی اور وہ ہے؛ 'ہم یا کوئی نہیں'۔ لیکن اب حالات...

Load More
Next Post
وکلاء کی ہنگامہ آرائی کے باعث آج اسلام آباد ہائیکورٹ اور دیگر عدالتیں بند

وکلاء کی ہنگامہ آرائی کے باعث آج اسلام آباد ہائیکورٹ اور دیگر عدالتیں بند

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

No Result
View All Result

ایڈیٹر کی پسند

Aamir Ghauri Nawaz Sharif

نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بن سکتے ہیں؟

by عامر غوری
جنوری 26, 2023
0

...

عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی ٹھکرائی ہوئی محبوبہ ہیں

عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی ٹھکرائی ہوئی محبوبہ ہیں

by عاصم علی
جنوری 18, 2023
0

...

جنرل یحییٰ خان اور جنرل قمر باجوہ ایک ہی سکے کے دو رخ ثابت ہوئے

جنرل یحییٰ خان اور جنرل قمر باجوہ ایک ہی سکے کے دو رخ ثابت ہوئے

by طارق بشیر
جنوری 18, 2023
0

...

ایک اقلیتی حقوق کے کمیشن کی تشکیل کیسے بارآور ثابت ہو سکتی ہے؟

ایک اقلیتی حقوق کے کمیشن کی تشکیل کیسے بارآور ثابت ہو سکتی ہے؟

by پیٹر جیکب
جنوری 14, 2023
0

...

Ahmad Baloch Kathak dance

بلوچستان کا ایک غریب چرواہا جو بکریاں چراتے چراتے آرٹسٹ بن گیا

by ظریف رند
جنوری 6, 2023
0

...

Newsletter

ہماری مدد کریں

ٹویٹس - NayaDaur Urdu

نیا دور کے صفِ اوّل کے مصنفین

پیٹر جیکب
پیٹر جیکب
View Posts →
حسن مجتبیٰ
حسن مجتبیٰ
View Posts →
عرفان صدیقی
عرفان صدیقی
View Posts →
نجم سیٹھی
نجم سیٹھی
View Posts →
نبیلہ فیروز
نبیلہ فیروز
View Posts →
محمد شہزاد
محمد شہزاد
View Posts →
توصیف احمد خان
توصیف احمد خان
View Posts →
رفعت اللہ اورکزئی
رفعت اللہ اورکزئی
View Posts →
فوزیہ یزدانی
فوزیہ یزدانی
View Posts →
حسنین جمیل
حسنین جمیل
View Posts →
مرتضیٰ سولنگی
مرتضیٰ سولنگی
View Posts →
اسد علی طور
اسد علی طور
View Posts →
ادریس بابر
ادریس بابر
View Posts →
رضا رومی
رضا رومی
View Posts →
علی وارثی
علی وارثی
View Posts →

Cover for Naya Daur Urdu
64,514
Naya Daur Urdu

Naya Daur Urdu

پاکستان کی ثقافت اور تاریخ کو دیکھنے کا ایک نیا زاویہ

This message is only visible to admins.
Problem displaying Facebook posts.
Click to show error
Error: Server configuration issue

خبریں، تازہ خبریں

  • All
  • انٹرٹینمنٹ
  • سیاست
  • ثقافت
کم از کم اجرت 20 ہزار، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ: بجٹ 2021 پیش کر دیا گیا

اقتدار کے ایوانوں سے جلد کسی ‘بڑی چھٹی’ کا امکان ہے؟

اکتوبر 31, 2021
ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

اکتوبر 27, 2021
بد ترین کارکردگی پر الیکشن نہیں جیتا جاسکتا، صرف ای وی ایم کے ذریعے جیتا جاسکتا ہے

ای وی ایم اور انتخابات: ‘خان صاحب سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ لینے کے لیئے بے تاب ہیں’

اکتوبر 24, 2021

Naya Daur © All Rights Reserved

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English

Naya Daur © All Rights Reserved

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In