ڈسکہ ضمنی الیکشن میں تھیلوں اور افسروں کی 'جبری گمشدگی': 'الیکشن چوری کا یہ شرمناک سلسلہ اب بند ہونا چاہیئے'

ڈسکہ ضمنی الیکشن میں تھیلوں اور افسروں کی 'جبری گمشدگی': 'الیکشن چوری کا یہ شرمناک سلسلہ اب بند ہونا چاہیئے'
ڈسکہ کے ضمنی انتخاب نے پاکستان کی سیاست کی حقیقت کھول کر رکھ دی ہے۔ اب چاہے اسے ایک پارٹی کا نعرہ ہی کہا جائے لیکن یہ ووٹ کی بے عزتی کا بھرپور مظاہرہ تھا۔ نتیجہ کیا آتا اس سے قطع نظر، یکایک 23 پولنگ سٹیشنز کے عملوں کا غائب ہو جانا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ملک میں ہونے والے چار انتخابات میں سے ایک میں ہی یہ سب ہوا؟ کسی اور حلقے کے پولنگ سٹاف میں سے کسی کی بیوی بیمار نہیں ہوئی، کسی کو اونگھ نہیں آئی، کسی کو اچانک کہیں جانا نہیں پڑا، کسی کی گاڑی نہیں خراب ہوئی۔ یہ سب اس ایک حلقے میں ہی کیوں ہوا جہاں کئی گھنٹے پہلے ہی غیر حتمی، غیر سرکاری نتیجہ حکومتی امیدوار کے خلاف آ چکا تھا؟

ریٹرننگ آفیسر کے مطابق ان کا عملے میں سے کسی سے بھی رابطہ نہیں ہو پا رہا تھا اور نہ ہی انہیں کوئی خبر تھی کہ ان کا عملہ آخر کہاں گیا۔ چیف الیکشن کمشنر کی جانب سے جاری کی گئی پریس ریلیز کے مطابق جب 3 بجے تک 23 پولنگ سٹیشنز کا عملہ غائب رہا تو انہوں نے پنجاب کے چیف سیکرٹری کو فون کر کے ان سے اس بابت استفسار کیا۔ چیف سیکرٹری نے کہا کہ وہ فوری طور پر اس مسئلے کا حل کریں گے اور سارے عملے اور سامان کو کو ٹریس کریں گے۔ لیکن اس کے بعد انہوں نے بھی خود کو غیر دستیاب کر لیا۔ شاہد خاقان عباسی کے الفاظ میں ووٹوں اور ڈبوں کے بعد عملہ اور پھر چیف سیکرٹری بھی چوری ہو گئے۔

 

اور پھر اچانک یہ عملہ ایک ایک کر کے صبح چھ بجے کے قریب واپس آنا شروع ہو گیا۔ ان کی واپسی پر ان سے پوچھا گیا کہ آپ اتنے گھنٹے تک کہاں تھے تو انہوں نے طرح طرح کے بہانے سنائے۔ جیو نیوز کی خبر کے مطابق پولیس نے عملے کو بازیاب کر لیا۔ بازیاب کس سے کر لیا، کہاں سے کر لیا کسی نے نہ پوچھا، نہ کسی نے بتانے کی ضرورت محسوس کی۔ یاد رہے کہ پولنگ کا عملہ پولنگ سٹیشن سے ریٹرننگ افسر کے دفتر پولیس کی تحویل میں ہی آتا ہے۔ تو پھر یہ عملہ پولیس سے پولیس نے ہی کیسے بازیاب کر لیا؟ یہ پولیس کی تحویل میں گم کیسے ہو گئے؟ یہ سب وہ سوالات ہیں جن کے جواب ملنا تاحال باقی ہے۔

جب یہ عملہ واپس پہنچا تو کچھ ہی دیر بعد سوشل میڈیا پر پاکستان تحریک انصاف نے فتح کا جشن منانا شروع کر دیا۔ وزیر اعظم عمران خان اور وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی سیاست اور گورننس کی داد دی جانے لگی۔ وجہ یہ تھی کہ چند گھنٹے قبل تک قریب آٹھ ہزار کی لیڈ رکھنے والی سیدہ نوشین افتخار یکایک 6000 ووٹوں سے ہار چکی تھیں اور اب PTI کے علی اسجد ملہی برتری حاصل کر چکے تھے۔ جیسے جیسے حقائق سامنے آتے گئے، یہ واضح ہوتا چلا گیا کہ یہ آخری 23 پولنگ سٹیشنز کے نتائج انتہائی متنازع ہیں۔ ایک ایسے انتخاب میں جہاں پورے حلقے میں 35 سے 40 فیصد ووٹر ٹرن آؤٹ رہا، ان 20 پولنگ سٹیشنز پر ٹرن آؤٹ 88 فیصد تک جا پہنچا۔

مسلم لیگ نواز کے سینیئر رہنما اور پاکستان کے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے مطابق سویلین کپڑوں میں ملبوس کچھ افراد سویلین گاڑیوں میں پولنگ عملے کو لے کر پولنگ سٹیشنز سے نکلے۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے، ان سب لوگوں کو پولیس کی تحویل ریٹرننگ آفیسر کے دفتر پہنچنا تھا۔ شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ ان کو موصول اطلاعات کے مطابق ان لوگوں کو غائب کرنے والی مخلوق زمینی نہیں تھی۔

اپنی پریس کانفرنس میں مریم نواز نے بھی کہا کہ مجھے نہیں پتہ کہ یہ لوگ کہاں غائب ہوئے، اس کے پیچھے کوئی خلائی مخلوق تھی یا نہیں، لیکن انہوں نے الیکشن کمیشن سے نہ صرف اس معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا بلکہ یہ بھی مطالبہ کیا کہ جو افراد، پولیس افسران، انتظامیہ کے اہلکار، حکومتی اہلکار، بشمول وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور وزیر اعظم عمران خان کے، سب کے خلاف کارروائی کی جائے۔ انہوں نے الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا کہ پورا دن انتخابی عمل میں رخنے ڈالے گئے، بار بار پولنگ رکوائی گئی اور بعدازاں عملے کو غائب کر دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ پورا NA75 کا الیکشن دوبارہ کروایا جائے اور اس سے کم پر ہم نہیں مانیں گے۔

مسلم لیگ نواز کا یہ دعویٰ کہ انتخابی عمل کو بار بار رکوایا گیا، میڈیا اطلاعات کے مطابق درست ہے۔ شاہزیب خانزادہ کے پروگرام میں لائیو شو پر جیو نیوز کے رپورٹر نے PTI رہنما عثمان ڈار کے اپنے مطالبے پر اس بات کی تصدیق کی کہ ڈار صاحب نے ایک پولنگ سٹیشن پر اندر بیٹھ کر تین گھنٹے تک پولنگ کا عمل رکوائے رکھا۔ ڈار صاحب کا دعویٰ تھا کہ رانا ثنااللہ کی قیادت میں مسلم لیگ نواز کے کارکنان نے ان کا راستہ روک رکھا تھا لیکن اس دعوے کو بھی جیو نیوز کے رپورٹر نے باطل قرار دیا۔

یہ انتخابی عملے کا یوں غائب ہونا، ریٹرننگ آفیسر کے رابطے سے بھی باہر ہو جانا، انتظامیہ کا کسی قسم کی مدد نہ کرنا اور پھر جنرل پرویز مشرف اور جنرل ضیاالحق کے ریفرنڈمز کی یاد تازہ کرتے انتخابی نتائج کہ جن میں 90 فیصد تک ووٹ ڈالے گئے، ان نتائج کو متنازع تو بنا ہی چکا ہے۔ اب اس حلقے سے اس پولنگ کے مطابق کسی کو بھی فاتح قرار دے دیا جائے، عوام اس فیصلے کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہوں گے۔ بہتر یہی ہے کہ پورے حلقے میں، ورنہ کم از کم ان 23 پولنگ سٹیشنز پر انتخاب دوبارہ کروا کے انتخابی عمل کو شفاف بنایا جائے اور عوام کے صرف حقیقی نمائندے ہی پارلیمنٹ میں پہنچیں۔ ووٹ چوری کا یہ شرمناک سلسلہ اب بند ہونا چاہیے۔