منہ پھٹ کی موت!

منہ پھٹ کی موت!
قلندر بہت اداس تھا۔ اس کا بہترین دوست، شاعر اور ادیب منہ پھٹ دنیا سے رخصت ہو چکا تھا۔ مرید بھی افسردہ تھے۔ منہ پھٹ صاحب اکثر آستانے پر تشریف لایا کرتے تھے۔ اپنی جگتوں، قصوں اور حاضر جواب برجستہ ذو معنی جملوں سے محفل کی رونق دوبالا کر دیا کرتے تھے۔ موڈ میں ہوتے تو ہارمونیم پکڑ کر کوئی پکا راگ گانا شروع ہو جاتے۔ قلندر طبلے پر بیٹھ جاتا اور ٹھیکہ لگانا شروع ہو جاتا۔ اب راگ کی بڑھت تو کیا خاک ہوتی الٹا یہ بحث شروع ہو جاتی کہ استہائی کتنے ماترے کی ہے اور کونسا ٹھیکہ کس لے میں لگے گا۔ منہ پھٹ حسبِ معمول موٹی موٹی گالیوں سے قلندر کو نوازتا اور کہتا کہ تو بے تال ہے۔ لے نہیں سنبھل رہی۔ قلندر بھی  کہاں چپ رہنے والا۔ جھٹ سے بولتا کہ الیکڑک طبلہ لگا لے۔ میرا اور اسکا سم ایک ہی جگہ آوے گا۔ منہ پھٹ پہلے سے بھی زیادہ شیریں گالی دیتا اور قلندر کو کہتا کہ تو اتائی ہے۔ اتائی کے کام میں کبھی رس آ ہی نہیں سکتا۔ آگے سے قلندر بھی جواب دیتا کہ تو نے کس سرسوتی دیوی کی کوکھ سے جنم لیا تھا۔ تو بھی تو اتائی ہے اور وہ بھی بے ریاض دراصل یہ دونوں کا پیار محبت تھا جسے قلندر اور منہ پھٹ ہی محسوس کر سکتے تھے اور صرف وہ ہی محظوظ ہو سکتے تھے۔

 

'کیا باغ وبہار انسان تھا۔ ہر چیز کا علم رکھتا تھا۔ میرا تو مرشد بھی تھا۔ جینئس تھا۔ غلط وقت، غلط جگہ پیدا ہوا۔ ولایت میں پیدا ہوتا تو شیکسپئیر بھوکا مر جاتا۔ دلی میں پیدا ہوتا تو غالب کو شراب کے لالے پڑ جاتے۔ سب کو پڑھا اس نے۔ آخری وقت میں امریکہ میں تھا۔ مجھ سے فرمائش کی کہ آئین اکبری کی دو جلدیں پوسٹ کر دو۔ میں نے کہا پاگل ہو گیا ہے؟ ساری کمائی تو ڈی ایچ ایل میں لگ جاوے گی۔ ذرا صبر کر۔ پی ڈی ایف ورژن ڈاون لوڈ کر کے ای میل کر دیتا ہوں۔ بس پانچ منٹوں میں کام کر دیا۔ بس دکھ اس بات کا ہے کہ مرتے دم تک مشتاق یوسفی صاحب کی آبِ گم نہ پڑھ سکا۔ کئی بار میں نے تحفے میں پیش بھی کی مگر سالا جب بھی پوچھو کہ پڑھی یا نہیں بہانہ کردیتا کہ فلانہ دوست آیا تھا وہ زبردستی اٹھا کر لے گیا۔ پہلے مجھے شک تھا لیکن دس بار گفٹ کرنے کے باوجود بھی نہ پڑھ سکا اور دس کی دس جلدیں دوست اُٹھا کر لے گئے، یہ بات مجھے ہضم نہ ہوئی۔ میں سمجھ گیا کہ خبیث پڑھنا ہی نہیں چاہتا۔ دراصل میں نے آب گم کی اتنی تعریف کر دی تھی کہ مارے حسد اسکا دم ہی نکل گیا۔ ساری زندگی اپنے علاوہ تو اس نے کسی کو مانا نہیں۔ بڑی بڑی ہستیوں کے کلام میں ایسے ایسے کیڑے نکالے کہ وہ خود بھی قائل ہو گئے کہ ساری عمر بھاڑ  ہی جھونکی۔ بھری محفل میں منہ پھٹ کے پیر چھوئے اور گنڈا بندوایا۔ مجھے بھی نذر ملی بطور منہ پھٹ کے سینئر مرید کی حیثیت میں۔ غالب کے بعد جتنے بھی شاعر ادھر اور سرحد پار پیدا ہوئے سب نے منہ پھٹ کے آگے زانوے تلمذ تہ کیا۔'

 

'حضور منہ پھٹ صاحب پر اس وقت کیا بیت رہی ہوگی۔ ذرا اپنی روحانی طاقت استعمال کر کے بتائیں تو سہی۔' مراثی ملک اعلی مقام، قلندر کا اک پرانا نمک خوار بولا۔

 

'ابے دکھا تو میں دونگا پر برداشت کر پائے گا تو؟ میری آنکھیں تو اسے اس وقت بھی دیکھ رہی ہیں۔ تیری اماں اس پہ عاشق تھی، اسوقت اسی کیساتھ لگا ہوا ہے۔ دکھاؤ تجھے ایک جھلک!' قلندر اونچی آواز میں بولا۔

 

'نہیں حضور غلطی ہو گئی۔ ایسے ہی منہ سے نکل گیا تھا مراثی ملک اعلی مقام شرمندہ ہو کر ایک کونے میں دبک کر بیٹھ گیا۔'

 

'اب سب دفعان ہو جاؤ۔ مجھے تنہا چھوڑ دو آج کی شام۔ منہ پھٹ کا تین دن تک سوگ منائیں گے۔ بھنگ، چرس، پوست، افیم جسکو جسکا شوق ہے مفت ملے گی لنگر کیساتھ۔' قلندر نے حکم صادر کیا اور سب مرید اسکے پیروں کو چھوتے باہر نکل گئے۔

 

حرامزادے نے آئیڈیا اچھا دیا تھا۔ ابھی دیکھتا ہوں کیا گذر رہی ہے اپنے یار پر۔ قلندر نے دل میں سوچا۔ پھر طبلہ نکالا اور وہ قاعدہ پلٹہ بجانا شروع کیا جسکی بدولت غیب کا علم آنکھوں دیکھا حال بن جاوے۔ مگر فوراً ذہن سے نکل جاتا ہے۔ یہ شرتی کی طرح ہوتا ہے۔ کَن میں ظاہر تو ہوجائے پر بندہ اس پر ٹہر نہیں سکتا۔ بڑے بڑے ولی اللہ ٹہر سکتے ہیں

 

قلندر کوئی گھنٹہ بھر قاعدہ پلٹہ بجاتا رہا۔ کچھ بھی ظاہر نہ ہوا۔ قلندر کو پریشانی ہوئی کہ کیوں کچھ ہو نہیں پا رہا۔ ایسا پہلے تو کبھی نہیں ہوا۔ پھر قلندر کو سمجھ آگئی۔ طبلے کا سر معمولی سا اترا ہوا تھا۔ سارے مریدوں کو تو چھٹی دے دی۔ اب تان پورہ کون چھیڑتا ساتھ میں۔ قلندر صاحب بنا تانپورے ہی طبلہ بجانا شروع ہو گئے۔

 

قلندر نے موبائل فون سے تانپورے کی ایپ آن کی، پھر سے قاعدہ پلٹہ شروع کیا۔ تین چکر بعد ہی کمرے کی دیوار قدِ آدم سکرین بن گئی۔ منہ پھٹ کا وائی وا ہو رہا تھا

مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ، کس نے لکھی؟

فیض صاحب نے

سیاق و سباق؟

یہ ویاگرا کی ایجاد سے پہلے لکھی گئی تھی۔ تب ہی تو وہ کہہ رہے ہیں کہ دوبارہ نہ مانگ۔ اب لکھی جاتی تو شعر کچھ ایسے ہوتا: مجھے پہ پہلی سی محبت میرے محبوب نہ لاد۔

شاباش۔ یار تم تو جینئس ہو۔

مہربانی آپ کی ورنہ بندہ کیا چیز

تین نمبر دے دو۔ منہ پھٹ صاحب آپکو پتہ ہے نہ کامیابی کے نمبر تیتینس ہیں۔

جی جی بالکل پتہ ہے۔

اچھا اس شعر کی وضاحت کرو: کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے

جی یہ ان کا نہیں خانم آدم برباد کا شعر ہے۔

کیا مطلب

جی دراصل دبیر صاحب کئی دنوں سے گھر نہیں گئے تھے۔ خانم آدم برباد کے کوٹھے پر ہی پڑے رہتے تھے۔ جب انکی بیگم کی برداشت جواب دے گئی تو وہ اچانک کوٹھے پر پہنچ گئیں۔ دبیر صاحب تو لگے کپکپانے۔ تو خانم آدم برباد  کے منہ سے فی البدیہہ نکلا: کس رن کی آمد ہے کہ شیر کانپ رہا ہے۔ بعد میں دبیر صاحب نے اس کو سرقہ کر کے یہ لکھ ڈالا: کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے۔

ارے واہ۔ جیتے رہو منہ پھٹ! اچھا کچھ جنرل نالج کا گیان ہے یا نہیں؟

پوچھیں؟

یہ بتاؤ کس کلب کی ممبر شپ لینے کی صورت میں روٹی فری میں ملتی ہے۔ ، بل ادا نہیں کرنا پڑتا۔

جی روٹری کلب کی۔

بہت خوب تین نمبر اور ہو گئے۔

احمد فراز کی شعلہ تھا جل بجھا ہوں ہوائیں مجھے نہ دو۔ کس مقصد کے تحت لکھی گئی؟

جی یہ یونس فین کی مشہوری اور دلالی کے لئے لکھی گئی تھی۔ کہ یہ ایسا پنکھا ہے کہ بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ کے باوجود ہوائیں دیتا ہے۔

خوب است اچھا پروین شاکر کو پڑھا ہے؟

جی جی۔

کوبکو پھیل گئی بات شناسائی کی، اسکا بیک گراونڈ واضح کرو۔

مرحومہ  نے یہ پری فیس بک، گوگل، ٹوئٹر، انسٹا گرام وغیرہ وغیرہ دور میں لکھی تھی۔ اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی۔  خوشبو آہستہ آہستہ مہک مہک کر ولمپت لے میں پھیلتی ہے۔ پروین شاکر کا کوئی معاشقہ چل رہا ہوگا۔ گھر کے کسی بھیدی کو بھنک پڑ گئی ہو گی۔ اس نے "بادشاہ کے سر پر دو سینگ" کے موافق کسی جنگل یا باغ میں کسی درخت یا جھاڑی کو یہ راز افشاء کر دیا ہوگا۔ آج کے زمانے میں صوفیہ احمد اور رابی پیرزادہ کی وڈیو وائرل ہونے کی صورت میں شناسائی کی باتیں کوبکو پھیلتی ہے سیکنڈوں میں۔

:یار تمہیں تو سب علم ہے۔ اتنا تو ہمیں بھی نہ تھا۔ اچھا مرحومہ کا ایک اور شعر ہے

چلنے کا حوصلہ نہیں رکنا محال کر دیا، عشق کے اس سفر نے تو مجھکو نڈھال کر دیا۔  اس کی سیاق و سباق کیساتھ ذرا تشریح تو کرو

مرحومہ پروین شاکر اپنے وقت سے چار پانچ سو سال آگے کی شاعرہ تھیں۔ یہ اس زمانے کا شعر ہے جب سفر خچر، گھوڑوں، گدھوں اور اونٹوں پر ہوا کرتا تھا۔ ابھی اوبر یا کریم وغیرہ مارکیٹ میں نہیں آئے تھے۔ سب گدھے، گھوڑے، خچر اور اونٹ جب ایک ایک کر کے عشق کے سفر میں مر مرا گئے تو مرحومہ نے پیدل سفر شروع کر دیا۔ اسطرح چلتے چلتے یہ نڈھال ہو گئیں۔ پھر غیب سے ندا آئی کہ پروین فکر نہ کر۔ تیری بعد آنیوالی نسل کے لئے ہم عشق کا سفر آسان کر دینگے۔ اسطرح غیبی طاقتوں کے طفیل انٹر نیٹ، 2جی، 3 جی، 4 جی اب 5 جی اور کریم اوبر وغیرہ وغیرہ وجود میں آئے۔

 

 

 

واہ واہ۔ اچھا افتخار عارف کو تو جانتے ہی ہو گے۔

جی جی وہ اپنے ستاروں اور ہلالوں والی سرکار

ہاں وہ ہی۔ ان کا ایک شعر ہے: کوئی تدبیر کرو ، وقت کو روکو یارو صُبح دیکھی ھی نہیں ، شام ھوئی جاتی ھے۔ بہت ہی گستاخانہ شعر ہے۔ اللہ میاں کی خدائی میں ہاتھ ڈال رہا ہے۔ وقت کو روکنا چاہ رہا ہے۔ کتنا نادان ہے۔ وقت کبھی رکتا ہے بھلا۔

جی درست فرمایا آپ نے۔ دراصل متکبرہ قومی زوال کی ایمپلائمنٹ پالیسی کے تحت تو ریٹائرمنٹ کی عمر ساٹھ برس ہے۔  یہ کوئی سو برس کے تو ہو چکے۔ وقت کو یوں روکنا چاہ رہے ہیں کہ تاحیات ادارے کی سربراہی اور باہمی حمدو ثنا والی محفلوں کی صدارت کرتے رہیں۔ اور درست بھی ہے۔ ان جیسا کوئی دوسرا کہاں۔

ویری گڈ۔ اچھا فیض صاحب کی طرف دوبارہ آتے ہیں۔ ذرا اس دقیق و عمیق شعر کی تشریح کرو۔ اب تم لازمی فیل ہو گے۔

کونسا جی

یہ جو ہے:

دونوں جہاں تیری محبت میں ہار کے

وہ جا رہا ہے کوئی شب غم گذار کر

اجی یہ کہاں سے دقیق وعمیق ہو گیا۔ یہ تو اپنی آنکھوں دیکھا حال ہے۔

فیض صاحب کے دو بنگلے تھے۔ ایک گلبرگ میں دوسرا سمن آباد۔ یہ اپنے بنگلوں کو جہاں سمجھتے تھے۔ غالب کی طرح یہ بھی کسی ڈومنی کے عشق میں گرفتار ہو گئے۔ اس حرافہ نے فیض صاحب کو اپنے جال میں اتار کر دونوں بنگلے اپنے نام کرا لئے۔ اور فیض صاحب کو تھڑیا کر دیا۔ وہ چھپن چھری ایسی چلتر تھی کہ انہیں شب وصل کے بجائے شب غم پہ ٹرخا دیا اور اسی دوران انکے ایک اور دوست کے چاروں جہاں یعنی ڈی ایچ اے فیز الیون والے چار بنگلے ڈکار لئے۔ پھر فیض صاحب کو اپنی سادگی کا احساس ہوا تو انہوں نے سوچا کہ ہن کچھ کم کیتا جاوے۔ کیونکہ کنگال ہو گئے تھے۔ فیض صاحب نے بھٹو، بلاول بھٹو نہیں اسکے نانے یعنی زلفی کی مدح سرائی میں دن رات ایک کر دیا۔ مسلسل تین دن زلفی کے دفتر کے باہر ان کے گن گاتے رہے۔ بھٹو صاحب نے ملاقات کا شرف نہ بخشا لیکن یہ سوچ کر کہ یہ تو ٹلنے والا نہیں آرٹ کونسل کا سربراہ بنا دیا۔ اسطرح فیض صاحب اس قابل ہوئے کہ پھر سے دونوں جہاں بنانے کیلئے کوئی پلاٹ وغیرہ خرید کر اس پر تعمیر شروع کروائیں۔

 

بھئی منہ پھٹ بہت خوب۔ تم نے تو اب تک ننانوے نمبر لے لئے۔ اب تو بہتر حوریں بھی تمہارے ان باکس میں ڈال دی گئی ہیں۔ اب آخری سوال۔

جی پوچھیں

مشتاق احمد یوسفی کی آب گم پڑھی ہے؟

جی وہ قلندر نے دی تو تھی لیکن ایک دوست زبردستی اٹھا کر لے گیا۔

جھوٹ۔ قلندر نے تو تمہیں دس بار گفٹ کی لیکن تم نے دانستاً نہیں پڑھی۔ اپنے پیو سے جھوٹ نہ بولا کرو منہ پھٹ۔

جی جی آپ درست فرما رہے ہیں۔ بس جی پڑھنے والا ہی تھا کہ وقت پورا ہو گیا۔

بکواس۔ آخری وقت میں تم نے قلندر سے آئین اکبری منگوائی جو کہ حجم میں آب گم سے دس گنا بڑی ہے۔ وہ تو تم نے شب بھر میں ختم کر دی۔ سچ بتاو کہ آب گم کیوں نہیں پڑھی؟

جی سچ تو یہ ہے کہ پڑھنا شروع کی تھی لیکن میرے سر سے گذر گئی۔

ڈالدو جہنم میں اس جاہل ناہنجار کو!

 

اور اسکے ساتھ ہی قلندر کا مواصلاتی سیارے سے رابطہ منقطع ہو گیا۔

 

 

 

Contributor

محمد شہزاد اسلام آباد میں مقیم آزاد صحافی، محقق اور شاعر ہیں۔ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں۔ طبلہ اور کلاسیکی موسیقی سیکھتے ہیں۔ کھانا پکانے کا جنون رکھتے ہیں۔ ان سے اس ای میل Yamankalyan@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔