الیکشن کمیشن اور پنجاب میں سینٹ الیکشن: کیا پنجاب سے تبدیلی کی لہر ختم ہوچکی؟'

الیکشن کمیشن اور پنجاب میں سینٹ الیکشن: کیا پنجاب سے تبدیلی کی لہر ختم ہوچکی؟'
25 فروری 2021 پاکستان کی سیاسی ، آیئنی ، اور قانونی تاریخ کے حوالے سے بڑا اہم دن رہا۔ اس دن الیکشن کمیشن آف پاکستان نے این اے 75 ۔ڈسکہ میں حال ہی میں منعقدہ ضمنی الیکشن پر اپنا فیصلہ سنا دیا ہے۔ اس فیصلے میں الیکشن کمیشن نے نا صرف الیکشن کالعدم قرار دیا ہے بلکہ حلقے میں بے ضابطگیوں پر بڑا سخت ایکشن لیا ہے۔ اس میں اسسٹنٹ کمشنر ڈسکہ ، ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ ،اور ڈی پی او سیالکوٹ کو اسٹیبلیشمنٹ ڈوثون کو معطل کرنے کا حکم دیا ہے۔ کمشنر گوجرانوالہ اور آرپی او گوجرانولہ کو گوجرانولہ ڈویژن سے باہر تعینات کرنے کا حکم دیا ہے۔ چیف سیکرٹری پنجاب اور آئی جی پولیس پنجاب کو فرائض سے غفلت برتنے پر ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔ این اے 75۔ ڈسکہ میں 18 مارچ 2021 کو دوبارہ انتخاب کا حکم دیا ہے۔ یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں قانونی اور آیئنی اعتبار سے بہت بڑا فیصلہ ہے جس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی ہے۔ اس فیصلے سے پاکستان کی سیاست اور آئندہ ہونے والے انتخابات پر زوداثر اثرات پڑیں گے۔ پاکستان میں الیکشن کمشن کو بہت سے اختیارات حاصل ہیں ، جو الیکشن کے پرامن اور منصفانہ انعقاد کیلئے درکار ہیں ، لیکن اب تک کسی بھی چیف الیکشن کمشنر نے ان اختیارات کا استعمال نہیں کیا ہے۔ اگر چہ اس فیصلے پر پی ٹی آئی کو تحفظات ہیں اور وہ اسے چلینج کرنے جارہی ہے اورنون لیگ اس فیصلے پر شاداں ہے ۔ یہ تو فیصلے پر ابتدائی ردعمل ہے لیکن اس فیصلے کے لانگ ٹرم اثرا ت بہت ہی اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ یہ سلسلہ یہیں نہیں رکے گا اور آگے چلتا جائے گا۔ بلکہ چیف الیکشن کمشنر کو حکومت اور اپوزیشن کو، الیکشن اصلاحات جو کہ بہت ضروری ہیں حالیہ اور آنے والے بلدیاتی ، قومی ، صوبائی انتخابات کیلئے، باور کرائیں ۔ سیاسی جماعتوں ، انتظامی آفسران اور انتخابی عملہ کو بھی محتاط رہنا پڑے گا کہ اس قسم کے معاملات میں کس قسم کے نتائج ہوں گے۔
اب آتے ہیں آج کے ٹاپک کی طرف جو کہ این اے 75۔ ڈسکہ میں ہونے والے واقعات اور الیکشن کمشن میں ہونے والی سماعت کے حوالے سے سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر چھائے رہنے سے نظرانداز ہوا۔

وہ ہے پنجاب میں سینٹ نشتوں پر بلا مقابلہ انتخاب ۔ یہ انہونی ہو ہی گئی کہ پنجاب جہاں اپ سٹ کی باتیں ہو رہی تھیں وہاں اچانک ہی اتنا بڑا سیاسی اتفاق رائے ہو گیا ہے۔ کہایہ جا رہاہے کہ اس اتفاق رائے کر بنوانے میں چودہری پرویز الہی کا بہت بڑا کردار ہے۔ اگرچہ جیتی گئی نشتوں کا تناسب دیکھیں تو سوائے کامل علی آغا کے باقی ساری نشتیں جماعتوں کے ارکان اسمبلی کی تعداد کے تناسب میں ہیں ۔ پی ٹی آئی چار سیٹیں باآسانی جیت سکتی تھی اور اسی طرح نون لیگ اتنی ہی نشتیں جیت سکتی تھی۔ ویسے بھی کامل علی آغا پی ٹی آئی کے متفقہ امیدوار تھے۔ ق لیگ کے پنجاب اسمبلی میں 10 ارکان ہیں اور اتنے ارکین سے پنجاب میں سینٹر نہیں بنوایا جا سکتا ہے۔ اس لئے ق لیگ نے بہت بڑا فائدہ حاصل کر لیا ہے۔ اگرچہ عمران خان نے کامل علی آغا کے نام کی منظوری بہت پہلے دے دی تھی لیکن شاید پی ٹی آئی کی اندر تحفظات تھے۔ وزیراعلٰی پنجاب سے آئے دن نون لیگ کے ایم پی اے ملاقات کرتے رہتے تھےاور دعوٰی یہ ہوتا تھا کی نون لیگ میں فارورڈ بلاک بن رہا ہے۔ اسی قسم کا دعوٰی نون لیگ سے ہو رہا تھا کہ پی ٹی آئی سے فارورڈ بلاک بننے جارہا ہے ۔ پچھلے دنوں خرم لغاری نے وزیراعلٰی عثمان بزدار پر میڈیا میں سنگین الزام لگائے اور ان کا بھی دعوٰی بھی تھا کی انھیں بہت سے ارکان اسمبلی کی حمایت حاصل ہے۔ لیکن اس تازہ ترین ڈیولپمنٹ سے ساری چہ مگوئیاں دم توڑ گیئں ۔ یہ تازہ ترین صورتحال اتنی سادہ بھی نہیں ہے۔ آئیے اس کے اندر چھپی امکانی تھیوریوں کا جائزہ لیتے ہیں ۔
1۔ اپوزیشن یعنی پی ڈی ایم کی جانب سے  حالیہ مہم سید یوسف رضا گیلانی کو اسلام آباد سے سینٹ کی جنرل نشست پر الیکشن جتوانا ہے۔ اس کیلئے پی پی پی اور مسلم لیگ نون کا فی تگ و دو کر رہی ہیں ۔ مقابلے میں حکومتی اتحاد کے امیدوار حفیظ شیخ ہیں ۔ پی ٹی آئی اپنے ارکان اسمبلی کی تعداد سے پر امید ہے کہ حفیظ شیخ باسانی جیت جائیں گے۔ مسلم لیگ کے راہنما محمد زبیر کا ایک ٹی و ی پروگرام میں برملا کہا کہ ہم ہر صورت پی ٹی آئی کے ووٹ توڑیں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے پنجاب کی اس ڈیولپمینٹ کے اثرات اسلام آباد کی نشست پر کیا پڑتے ہیں۔
2۔ نون لیگ ایک عرصے سے پنجاب میں تبدیلی کے خواب دیکھ رہی ہے ۔ ایک تاثر عام ہے کہ وفاق میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کی شروعات پنجاب سے ہوتی ہے۔ اس تازہ صورتحال میں کیا پنجاب میں تبدیلی کی لہر دم توڑ گئی ہے۔
3۔ نون لیگ یہ تاثر دیتی آرہی ہے کی پنجاب میں پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی عثمان بزدار سے نالاں ہیں اور فارورڈ بلاک بس بنا ہی چاہتا ہے ۔ اسی طرح کے افواہیں نون لیگ کے بارے میں ہیں ۔ کیا اسی ڈر نے ان دونوں پارٹیوں کو اس مفاہمت پر راضی کیا۔
4۔ یہ مفاہمت صرف چودہری پرویز الہی کی وجہ سے نہیں ہو سکتی تھی جب تک عمران خان صاحب ، مریم نواز صاحبہ اور آصف علی زرداری صاحب کی رضامندی نہ ہو۔ کیا یہ مفاہمت پس پردہ رابطوں کا نتیجہ ہے۔
5۔ بظاہر اس صورتحال میں پی ٹی آئی اور نون لیگ کو اپنی نشستوں پر کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں ملا۔ اتنی نشستیں متوقع تھیں ۔ اصل فائدہ قاف لیگ کو ملا ہے۔پی پی پی اور نون لیگ نے اگر چودہری پرویز الہی کی بات مانی ہے تو کیا بدلے میں کچھ تعاون سید یوسف راضا گیلانی کیلئے تو نہیں مانگا گیا۔
6۔ سپریم کورٹ میں زیر بحث صدارتی ریفریس برائے سینٹ الیکشن پر جسٹس اعجازالحسن نے تبصرہ کیا تھا کہ آئین میں سینٹ الیکشن پر متناسب نمائندگی کا لفظ استعمال ہوا ہے، یعنی جتنی پارٹی کی ارکان اسمبلی میں ہو گے اتنے تناسب سے سینٹ میں نشستیں ملیں گی۔ جیسا کہ خواتین کی نشستیں الاٹ ہوتی ہیں۔ کیا یہ ڈیولپپمنٹ اس تاثر کی عملی شکل ہے۔
7۔ سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرینس پر فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔ ایک تاثر یہ ہے کہ شاید سپریم کورٹ اوپن بیلٹ کے حوالے سے کو ئی رائے دے اور صدارتی آرڈینینس اس انتخاب پر نافذ ہو جائے۔ اپوزیشن اسلام آباد اور دوسرے صوبوں میں ممکنہ شکست سے بچنے کیلئے اس مفاہمت پر راضی ہوئی ہو اور اس کا اظلاق آنے والے دنوں میں دوسرے صوبوں میں نظر اآئے۔
8۔ اپوزیشن الائنس جو بظاہر حکومت اور اسٹبلیشمنٹ کے خلاف جدوجہد کرتا نظر آتا ہے، لیکن میاں صاحب ، زرداری صاحب اور مولانا فضل الرحمٰن درپردہ اپنے ذاتی مفاد رکھتے ہیں ، کو ئی فوائد کا وعدہ کیا گیا ہو مقدر حلقوں کی جانب سے ۔ اپوزیشن اس بات پر شاکی ہے کہ انھیں دیوار سے لگایا جا رہا ہے ، شاید انھیں اس نظام میں کو ئی جگہ دی جا رہی ہو۔
پاکستانی سیاست میں کوئی چیز حرف آخر نہیں ہے۔ کسی بھی لمحے کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ یہ تھے کچھ امکانات سینٹ الیکشن کے حوالے سے۔ باقی جو حقائق ہیں وہ چند روز میں عیاں ہو جائیں گے۔