پاکستان سپر لیگ: 'ایونٹ کو کرونا کی نظر لگ گئی'

پاکستان سپر لیگ: 'ایونٹ کو کرونا کی نظر لگ گئی'
پاکستان سپر لیگ کو کرونا کی نظر لگ گئی،پاکستان کرکٹ بورڈ کو فرنچائز کی شکایات پر ایکشن نہ لینا مہنگا پڑ گیا۔بائیو سیکیور کی خلاف ورزیوں نے شائقین کو پی ایس ایل سے محروم کردیا۔ پاکستان سپر لیگ کے سیزن میں پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے دی جانے والی ڈھیل نے بین الاقوامی سطح پر ملکی کرکٹ سمیت پاکستان سپر لیگ کی ساکھ کو نقصان پہنچا دیا ۔ پاکستان سپر لیگ شروع ہوئی کو تمام ٹیموں کو پروٹوکولز دئیے گئے جبکہ ببل کے اندر داخل ہونے کے لیے تین روز کی آئسولیشن سمیت دو ٹیسٹ منفی آنا بھی لازم قرار دیا گیا اس دوران سنسنی خیز میچز کا سلسلہ جاری تو رہا لیکن بارہا کوڈ پروٹوکولز کی خلاف ورزی سمیت بائیو سیکیور ببل کو سیریس نہ لینے کی اطلاعات موصول ہوتی رہیں ۔ لیگ کے آغاز سے قبل ڈیرن سیمی اور وہاب ریاض نے ٹیم مالک جاوید آفریدی سے ملاقات کی تو پاکستان سپر لیگ مینجمنٹ نے ایکشن لیتے ہوئے تین دن کے لیے آئسولیشن میں بھیج دیا گیا اور کپتان پشاور زلمی پہلے میچ سے محروم ہوگئے تاہم پشاور زلمی کی جانب سے دھمکی آمیز احتجاج نے ہیڈکوچ اور کپتان کی آئسولیشن ختم کرائی اور وہاب ریاض اور ڈیرن سیمی کو ایونٹ ٹیکنیکل کمیٹی نے ریلیف دیتے ہوئے ببل جوائن کرنے کی اجازت دے دی۔ پشاور زلمی کو ملنے والے ریلیف کے بعد دیگر ٹیموں نے بھی ببل کی خلاف ورزی کو معمول بنا لیا ایسے میں ہوٹل کے اندر بائیو سیکیور ببل ان سیکیور نظر آنے لگا۔ کھلاڑی آفیشیلز یاروں دوستوں سے ملاقاتیں کرتے رہے تو وہیں ہوٹل میں ببل کے لیے الگ مختص کی گئی لفٹ کے استعمال کی بجائے عقبی سیڑھیاں اور پبلک لفٹ کا استعمال معمول بنا رہا۔ ذرائع نے یہ بھی تصدیق کی ہے کہ بائیو سیکیور ببل میں موجود ہوٹل اسٹاف کا بھی روزانہ گھر آنا جانا تھا جبکہ کھانے کے لیے ڈائیننگ بھی ایک ہی مقام پر ہونے کی وجہ سے بائیو سیکیور ببل کی خلاف ورزی ہوتی رہی جبکہ آرام کے روز کھلاڑی اور آفیشلز گالف کھیلنے بھی ببل سے باہر گئے۔ ان تمام صورتحال کو دیکھتے ہوئے کوئٹہ گلیڈی ایٹر نے ای میل میں بورڈ کو ببل پر تحفظات کا اظہار کیا جس میں انہوں نے اپنے لنکن پریمیئر لیگ میں ببل کے تجربے کا ذکر کرتے ہوئے موجودہ ببل کو لیگ کے لیے خطرہ قرار دیا گیا۔ لاہورقلندرز کی جانب سے بھی سی ای او وسیم خان سے شکایت کی گئی اور انہوں ببل میں ہونے والی خلاف ورزیوں کے بارے آگاہ کیا گیا انہوں نے ٹی ٹین میں ببل کے اندر رہنے کے تجربے کی بنیاد پر تحفظات کا اظہار کیا گیا لیکن بورڈ نے ان تمام شکایات پر کان دھرے اور صورتحال اتنی خراب ہوئی جبکہ رہی سہی کسر اسلام آباد یونائیٹڈ نے اس وقت پوری کردی جب آسٹریلوی کھلاڑی فواد احمد کو کرونا علامات کے باوجود 27 فروری کا میچ کھیلا دیا گیا اور اس کہانی سے پردہ یکم مارچ کو کھلا جب دیگر فرنچائز اور کھلاڑیوں کو اس بات کا علم ہونے پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ پی سی بی نے اپنےاعلامیے میں کہا کہ فواد احمد کو تین روز قبل آئسولیٹ کیا گیا لیکن اگر تین روز قبل آئسولیٹ کیا بھی گیا تو فواد احمد 27 فروری کا میچ کیسے کھیل گیا اگر میچ کے بعد آئسولیٹ کیا گیا تو اسی روز دیگر ٹیموں کے ٹیسٹ کیوں نہ کیے گئے بلکہ یکم مارچ کو اسٹیڈیم آنے سے قبل ہی کوئٹہ گلیڈی ایٹر کا ٹیسٹ کرنے کی نوبت کیوں پیش آئی جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ سمیت پی ایس ایل انتظامیہ اور اسلام آباد یونائیٹڈ کی بڑی نااہلی سے لیگ داؤ پر لگی۔ رپیڈ ٹیسٹ میں تو تمام کھلاڑیوں کو کلیئر کردیا گیا لیکن اگلے روز پی سی آر ٹیسٹنگ کےنتائج نے تمام تر اقدامات کی قلعی کھول دی جب اسلام آباد یونائیٹڈ کے لیوئس گریوگری ، کراچی کنگز کے فیلڈنگ کوچ کامران اور کوئٹہ کے ٹام بینٹن کا کرونا ٹیسٹ بھی مثبت آگیا ۔ تین کھلاڑیوں اور ایک آفیشل کو قرنطینہ تو کیا گیا لیکن اگلے روز مزید دو میچزز کھیلے گئے تاہم گزشتہ روز میچزز سے قبل کوڈ ٹیسٹنگ رپورٹ میں مزید تین کھلاڑیوں کا کرونا مثبت آیا جس میں دو اسلام آباد یونائیٹڈ کے جبکہ ایک کا تعلق لاہورقلندرز سے نکلا جس پر صورتحال مزید خراب ہونے پر تمام افراد میں تشویش پیدا ہوئی جس پر ڈئینیل کرسچن نے لیگ سے دستبردار ہوکر وطن واپسی کا فیصلہ کیا جس کے بعد لیگ کے تمام اسٹیک ہولڈز نے زوم میٹنگ میں لیگ کو ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا۔ سی ای او وسیم خان کی جانب سے پانچ روز کے وقفے کی تجویز تو دی گئی لیکن تمام فرنچائز نے غیر ملکی کھلاڑیوں کی واپسی کی درخواست کو مدنظر رکھتے ہوئے لیگ ملتوی کرنے کو ترجیح دی گئی۔ لیگ کے فیصلے سے جہاں شائقین کو شدید مایوسی ہوئی وہیں بین الاقومی سطح پر ملک کی جگ ہنسائی جس کی ذمہ داری فرنچائزز کے رویے پر عائد ہوتی ہے جسے ماننے کی بجائے معاملہ پی سی بی پر ڈالا جا رہا ہے جبکہ پی سی بی نے پروٹوکولز واضح کیے لیکن اس کے باوجود ان پر عملدآمد نہ کرنے سے لیگ اور کرکٹ کو بڑا نقصان اٹھانا پڑا ۔ دوسری طرف شائقین کرکٹ کی جانب سے ذمہ داران کے خلاف کاروائی کی آوازیں بھی بلند ہورہی ہیں۔

لکھاری نے جامعہ گجرات سے ابلاغیات کی تعلیم حاصل کی ہے اور شعبہ صحافت میں بطور سپورٹس رپورٹر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔