ہم مطالعہ کیوں نہیں کرتے، کیا مطالعہ کرنے پر پابندی ہے؟

ہم مطالعہ کیوں نہیں کرتے، کیا مطالعہ کرنے پر پابندی ہے؟
آخر پاکستانی قوم کو مطالعہ کرنے کی عادت کیوں نہیں ہے ؟ کیا ماضی میں بھی ایسے تھا یا پھر پچھلے چالیس سالوں میں یہ عادت پختہ ہوئی ہے؟

کتاب پڑھنا تودرکنار ہمارے معاشرے میں لوگ اخبار تک نہیں پڑھتے، سارا دن وٹس ایپ اور فیس بک پر جھوٹی خبریں سکرول کرتے ہیں اور انہیں آگے چلاتے ہیں مگر کبھی اتنی توفیق نہیں ہوتی کہ کسی بھی اخبار کی ویب سائٹ کھول کر یا کسی مستند ویب سائٹ پر جا کر خبر کے جھوٹے اور سچے ہونے کی تصدیق ہی کر لیں۔

اپ پاکستان میں شائع ہونے والے اخبارات کی سرکولیشن دیکھ لیں ،وطن عزیز میں سب سے زیادہ اردو اخبارات شائع ہوتے ہیں اسکے بعد سندھی پھر انگریزی اور پشتو کا نمبر آتا ہے پنجاب کے مرکز لاہور شہر سے دو پنجابی کے اخبارات شائع ہوتے دونوں ڈمی اخبارات ہیں جوصرف سٹال پر نظر نہیں آتے۔ اب جن زبانوں کے اخبارات شائع ہوتے ہیں آبادی کے تناسب سے اخبارات کی سرکولیشن دیکھ لیں تو خود ہی پتہ چل جائے گا کہ کتنے فیصد لوگ مطالعہ کرنے کے عادی ہیں۔

یہی صورت حال کتب بینی کی ہے ،ایک روسی کہاوت ہے ’جس گھر میں کوئی لائبریری نہ ہو وہاں سے پانی بھی نہ پیو، وہ پانی پلانے کے بہانے تمہارا وقت ضائع کریں گے ‘

اس کہاوت کے تناظر میں دیکھا جائے تو شاید پورا شہر ہی اسکی لپیٹ میں آجائے اور آپ اپنے نہایت عزیز ترین دوستوں رشتے داروں اور سگے بہن بھائی سے بھی ملاقات نہ کر سکے۔ لاھور شہر کی دو اہم ترین لائبریریوں ،دیال سنگھ اور پنجاب پبلک لائبریری جس کی ممبر شپ میرے پاس ہے وہاں کے حالات قابل رحم ہیں ،کتب خانے ویران ہیں اور کھانے کے ڈھابے آباد ہیں۔ اس لیے یہ قوم دماغ سے نہیں معدہ سے سوچتی ہے ،22 کروڑ کی آبادی میں کتاب شائع ہوتی ہے صرف 500 ،ادب تاریخ سیاست سماج سائنس معاشیات عمرانیہ علوم پر ہماری معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ہم دو ہزار روپے کی کڑاہی گوشت کھانے میں دیر نہیں لگاتے مگر دو سو روپے کی کتاب خریدنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔

ہمارا پڑھا لکھا طبقہ جس میں ڈاکٹر سائنس دان،وکلا استاد صحافی اور بنیکوں نجی کمپنیوں مالیاتی اداروں ملٹی نیشنل کمپنیوں میں ملازمتیں کرنے والے پڑھے لکھے لوگوں کو کتاب خریدنے اور پڑھنے کا کس قدر شوق ہے یہ آپکے سامنے ہے۔ ہم بڑے آرام سے سب کچھ ریاست پر ڈال کر خود پتلی گلی سے نکل جاتے ہیں کہ یہ سب ریاستی پالیسی کی وجہ سے ہو رہا۔

’میرا ان سے ایک سوال ہے کہ جو شہر میں چند کتابوں کی دوکانیں کھلی ہیں انکے باہر ریاستی اہلکار کھڑے ہیں جو آپ کو کتاب خریدنے سے منع کرتے ہیں یہ سب جھوٹ ہے عوام کا خود مطالعہ کرنے کا ذوق یا شوق نہیں ہے۔‘

مہنگے موبائل ملبوسات خریدنے کا پتہ ہے صرف کتاب نہیں پڑھنی ،بھارت میں گریٹ امیتابھ بچن کا پروگرام کون بنے گا کروڑ پتی،،دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ بھارتی عوام مطالعہ کی بہت شوقین ہے وہاں ایک کم پڑھے لکھے طبقے کا جنرل نالج ہمارے ایم اے پاس سے زیادہ ہے۔ راقم الحروف چونکہ ادیب اور صحافی ہے تو یہ بات وثوق سے کہہ سکتا ہے کہ وطن عزیز میں مطالعہ صرف ادیب ہی کرتے ہیں ،ہمارے سیاست دان نہ خود کتاب پڑھتے ہیں نہ اپنے کارکنوں کو مطالعہ کی تلقین کرتے ہیں انکو جاہل سیاسی کارکنوں اچھے لگتے ہیں جو ہر جگہ انکی کرپشن کا دفاع کریں،بہرحال یہ ایک المیہ ہے ہم مطالعہ کیوں نہیں کرتے یہ سوال ہینوز جواب طلب ہے۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔