صحافی کی مسجد رحمت اللعالمین سے رپورٹنگ

صحافی کی مسجد رحمت اللعالمین سے رپورٹنگ
میں نے جسے ہی چوک یتیم خانہ تحریک لبیک کے دھرنے پر کھڑے ہو کر اپنے ٹی وی چینل کے لیے پروگرام کی ریکارڈنگ کا آغاز کیا تو ایک مسلح ہجوم نے ہم پر حملہ کر دیا میرے سے موبائل فون چھین لیا اور زورکوب کرکے کمیرہ مین سے کیمرہ بھی چھین لیا۔  وہ بے چارہ خوفزدہ ہو گیا ،پھر میری ان مسلح افراد سے شدید تکرار شروع ہو گئی، وہ سب بہت جارحانہ انداز میں پیش آرہے تھے اور میرے ساتھ ہاتھا پائی کے لئے تیار تھے۔

وہ چلا رہے تھے تم ایجنسیوں کے بندے ہو، تم ہماری جاسوسی کرنے آئے ہو ، میں نے چلاتے ہوئے کہا میں صحافی ہوں یہاں کوریج کے لیے آیا ہوں ۔

تم جھوٹ بول رہے ہو تمارا موبائل اور کمیرہ واپس نہیں ملے گا جب تک تم سب ڈیلیٹ نہیں کرتے،  تم لوگ سب امریکہ کے غلام ہو باریش نوجوان چلاتا جا رہا تھا۔

میں بھی چلایا کہ میں بھی مسلمان ہوں اور اسی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی ہوں جس کے تم امتی ہو۔

نہیں اگر تم انکے مانتے والے ہو تو ہمارے ساتھ احتجاج میں شامل ہو جاؤ

ایک موٹر سائیکل سوار وہاں آگیا اور بولا کہ یہ تم کیا کر رہے، اس صحافی کو کیوں زورکوب کر رہے

تم کون ہو اس بارشیں نوجوان نے چلا کر کہا

میں تاجر ہوں میری دوکان سامنے ہے اور تمارے دھرنے کی وجہ سے بند ہے جانے دو اسکو۔

(میں اس تاجر کی ہمت پر خیران ہوا اور اس کا شکریہ ادا کیا)

وہ باریش والا نوجوان اور زور سے چلایا نہیں بالکل نہیں جب تک یہ سب کچھ موبائل اور کمیرہ سے ڈیلیٹ نہیں کرتے

اسی دوران ایک اور بارشیں نوجوان وہاں آیا اور چلایا چھوڑ دو ان کو میرا نام حکیم حسن ہے وہ تمام مسلح افراد پچھے ہٹ گئے۔

حکیم حسن میرے پاس آیا اور کہا آپ یہ سب خود ڈیلیٹ کر دیں اس نے موبائل اور کمیرہ ون مسلح افراد کو واپس کرنے کا کہا میرا کمیرہ مین اس قدر خوفزدہ تھا اس نے فورا سب ڈیلیٹ کر دیا۔

جبکہ میں ان کو دھوکا دینے میں کامیاب ہو گیا میں نے موبائل کا ڈیلیٹ  آپشن انکے سامنے کیا اور کہا یہ ڈیلیٹ کر دیا مگر کیا نہیں،

اب حکیم حسن مجھ سے بولا آپ میرے ساتھ چلیں اندر مسجد رحمت العالمین میں جو ہمارے مرکز کی جامعہ مسجد ہے میں نے فوراً اثبات میں سر ہلایا

مگر میرا کمیرہ مین اس قدر خوفزدہ تھا اس نے جانے سے انکار کر دیا اور بولا مجھے اجازت دیں آپ چلے جائیں یہ کہہ کر اس نے موٹر سائیکل اسٹارٹ کی اور یہ جا وہ جا میں۔

میں حکیم حسن کے ساتھ اسکی موٹر سائیکل پر سوار ہوا اور مسجد رحمت العالمین کی طرف نکل گئے۔

پورے شہر لاہور میں صرف ایک جگہ چوک یتیم خانہ تحریک لبیک کے مرکز پر دھرنا تھا لاھور میں پہیہ جام بالکل نہیں تھا سارے شہر کی ٹریفک رواں دواں تھی ،بازار اور مارکیٹیں جزوی طور پر بند اور کھلی تھیں ،مسجد رحمت العالمین کے ارگرد دو سے تین ہزار کا ہجوم جمع تھا جو بہت پر جوش تھا وہاں افطاری کے لئے دیگیں پک رہی تھیں اور ماسک بھی تقسیم ہو رہے تھے ،مگر زیادہ تر افراد نے ماسک نہیں پہنے ہوئے تھے ،سماجی فاصلے کا تصور ہی نہیں تھا ،مسجد رحمت العالمین میں داخل ہوئے تو مولانا فاروق ہمارے روبرو تھے وہ سب کے انچارج تھے ان سے گفتگو ہوئی تو ان کا ایک ہی موقف تھا جب تحریک انصاف دھرنے دے سکتی تھی، پی ڈی ایم سارے ملک میں جلسے جلوس کر سکتی ہے تو تحریک لبیک کیوں نہیں۔

میں نے مولانا فاروق سے کہا مگر وہ تو پولیس والوں پر حملے نہیں کر رہے وہ کہنے لگے جو لوگ ایسا کر رہے ہیں وہ تحریک لبیک کے کارکن نہیں۔

میں نے انکو بتایا کہ باہر میرے ساتھ بھی ہی ہوا ہے تو وہ کہنے لگے اب نہیں ہوگا۔

مولانا فاروق سے انٹرویو کر کے میں واپسی پہ سوچ رہا تھا کہ اس سارے ہجوم بمعہ مولانا فاروق کہ ہی سوچ ہے کہ صرف ہم مسلمان ہیں باقی سب کافر یہں۔ مولانا فاروق نے تصدیق کی انکے صرف دو کارکن جن کا تعلق رحیم یار خان سے تھا وہ شہید ہوئے ہیں ،مسجد رحمت العالمین کو ہسپتال میں تبدیل کیا گیا تھا جہاں دو درجن کے قریب کارکنان زخمی حالت میں تھے اور ڈاکٹر ان کا علاج کر رہے تھے دو ڈاکٹر جن کے ساتھ دو لیڈی ڈاکٹر بھی تھیں فی سبیل اللہ علاج کر رہے تھ۔ تاہم وہاں کوئی خاتون زخمی نہیں تھی،ایک بات کا شدت سے احساس ہوا کہ اس دھرنے میں اب حساس اداروں کا عمل دخل ختم ہو چکا ہے کیوں وی وہاں آنے والے صحافیوں کو بھی ایجنسیوں کا بندہ سمجھتے ہیں اب اس وقت تحریک لبیک کے پیچھے کون ہے ہنوز یہ سوال جواب طلب ہے۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔