مذہبی اقلیتوں پر حملے حادثات نہیں، ریاستی پالیسیوں اور سماجی نفرتوں کا منطقی نتیجہ ہیں

مذہبی اقلیتوں پر حملے حادثات نہیں، ریاستی پالیسیوں اور سماجی نفرتوں کا منطقی نتیجہ ہیں
کسی بھی سماج میں پائی جانے والی نفرت، تعصب، اِمتیازی سلوک یا کم تر اور برتر کی سوچ بتدریج سماج کو ایک ایسے راستے پر لے جاتی ہے جہاں ان رجحانات کی وجہ سے وقوع پذیر ہونے والے چھوٹے بڑے واقعات یا رجحانات ایسے پُرتشدد بھیانک سانحات کو جنم دیتے ہیں جن کو دیکھ کر یا سُن کر رُوح کانپ اُٹھتی ہے۔ اکثر اوقات ریاست اور ریاست میں بسنے والے طاقتور یا برسرِاقتدار لوگ یا گروہ بھی عمومی طور پر اپنے رجحانات کو سنجیدگی سے نہیں لیتے، حالات سے چشم پوشی کرتے ہیں یا راہِ فرار اِختیار کرنا چاہتے ہیں۔ اکثر اوقات نئی پالیسی اپنائی جاتی ہے یا حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کر کے اصلیت چھپائی جاتی ہے جب تک کہ وہ صورتحال کوئی بڑا سانحہ بن کر سامنے نہ آ جائے۔

اِنسانی تاریخ ایسے بے شمار واقعات اور جگ بیتیوں سے بھری پڑی ہے جن سے یہ نتیجہ اخذ کرنا آسان ہے کہ کسی بھی مخصوص عقیدے، مذہب، نسل، رنگ یا جِنس کے اِنسانوں کے خلاف جتنی نفرت، تعصب اور منظم اِنتہا پسندی بڑھے گی اُتنا ہی سانحات کے رُونما ہونے کے امکانات بڑھتے جاتے ہیں۔

دُوسری عالمی جنگ میں ہٹلر کی قیادت میں 1941 سے 1945 کے دوران نازی نظریات کے حامیوں نے جرمنی کے زیرِتسلط یورپ میں منظم انداز میں مرحلہ وار چھ ملین یہودیوں کو قتل کیا۔ اِتنی بڑی تعداد میں یہودیوں کا قتل کوئی اچانک ہو جانے والا واقعہ نہیں تھا بلکہ قرون وسطیٰ کے عہد سے یورپ میں یہودیوں کے خلاف پائی جانے والی نفرت کا شاخسانہ تھا جو ہٹلر اور جرمن نازیوں کے دِل میں یہودیوں کے خلاف کُوٹ کُوٹ کر بھری ہوئی تھی۔

یہودیوں کے خلاف نفرت ہٹلر کی اپنی کوئی ایجاد نہیں تھی بلکہ قرون وسطیٰ کے عہد سے ہی یورپ میں یہودیوں کے ساتھ عقیدے کی بنیاد پر اِمتیازی سلوک اور ایذا رسانیوں کا سلسلہ جاری تھا۔ یہودیوں کی جبری تبدیلی مذہب ہوتی تھی اور انہیں اپنی کئی مذہبی رسومات سے بھی روکا جاتا تھا۔ انیسویں صدی میں مذہبی تعصب قدرے کم ہو کر نسل کی بنیاد پر حاوی ہو گیا اور یہودیوں کو کم تر نسل کا گردانا جاتا حتیٰ کہ مسیحی مذہب اِختیار کر لینے والے یہودیوں کو بھی کم تر سمجھا جاتا تھا۔ بالآخر یہودیوں کے ساتھ یورپ میں پائی جانے والی نفرت اِمتیازی سلوک اور تعصب کا بتدریج یہ نکلا کہ دُوسری عالمی جنگ کے دوران لاکھوں یہودیوں کو ایسے ظالمانہ انداز میں قتل کیا گیا جس کو سوچ کر بھی اِنسانیت شرما جاتی ہے۔ جس کو دُنیا آج ہولوکاسٹ کے نام سے جانتی ہے۔ ہولوکاسٹ عبرانی زبان کا لفظ ہے جس کا لفظی مطلب تباہی یا تباہ کن ہے۔ یعنی دُوسری عالمی جنگ کے نازیوں کی جانب سے 6 ملین یہودی مرد و خواتین بچوں اور دیگر افراد کا ریاست کی سرپرستی میں منظم قتل عام۔

ہندوستان میں 27 فروری 2002 کو ریاست گجرات کے گودھرا کے نزدیک ایودھیا سے آنے والی ٹرین کو لگنے والی آگ سے 60 ہندو یاتری ہلاک ہو گئے۔ ٹرین کے اِس حادثے کے بعد ہندو مسلم فسادات شروع ہو گئے جس کے نتیجے میں کم از کم ایک ہزار مسلمانوں کو قتل کر دیا گیا جب کہ 3 ہزار کے لگ بھگ زخمی ہوئے۔ کچھ رپورٹس یہ بھی کہتی ہیں کہ اِن فسادات میں ہلاکتوں کی تعداد 2 ہزار سے زیادہ تھی جب کہ مسلمان خواتین کو جنسی زیادتی کا نشانہ بھی بنایا گیا، مسلمانوں کے گھر، دکانیں اور دیگر املاک کو بھی تباہ کر دیا گیا۔

ہندوستان کی بھارتیہ جنتا پارٹی سے تعلق رکھنے والے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی گجرات میں ہونے والے ہندو مسلم فسادات کے وقت گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے جن پر یہ الزامات ہیں کہ اُنہوں نے خود اِنتہا پسندوں کو مسلمانوں کے قتل عام کا حکم دیا اور پولیس اور انتظامی اداروں نے خود مسلمانوں کے خلاف ہونے والے ظلم کی سہولت کاری کی اور اِنتہا پسند غنڈوں کو مسلمانوں کے گھروں کے پتے فراہم کیے۔ یہی وجہ ہے کہ سانحہ گجرات کے بعد نریندر مودی کو کئی عالمی سفری پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے اور اسے گجرات کا قصائی کا لقب بھی ملا۔

دُنیا میں ہندوستان کی پہچان ایک سیکولر مُلک کے طور پر ہوتی ہے جہاں آئین کی رُو سے تمام شہری برابر ہیں۔ اِسی لئے سکھ منموہن سنگھ وزیر اعظم اور مسلمان ذاکر حسین اور عبدالکلام بھی ہندوستان کے صدر بن پائے۔

تاہم، ہندوستان میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی مذہبی سیاست اور بجرنگ دل، وشوا ہندو پریشد آر ایس ایس جیسے ہندو اِنتہاپسند گروہوں کی موجودگی اور ہندوتوا نظریات کی پذیرائی ایسے محرکات ہیں جنہوں نے گجرات میں مسلمانوں کے خلاف منظم فسادات کی راہ ہموار کی اور جن کی وجہ سے ہندوستان میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک نفرت اور تشدد کے رجحانات میں تیزی آ چکی ہے۔

جس طرح یورپ میں یہودیوں سے پائی جانے والی مذہبی نفرت ہولوکاسٹ کا سبب بنی ہے۔ اِسی طرح گجرات میں مسلمانوں کے ساتھ جو بڑا سانحہ ہوا وہ مسلمانوں کے خلاف پہلے سے موجود نفرت اور تعصب کا نتیجہ تھا۔

وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دَم نہیں ہوتا

پنجاب کے گاؤں میں کوڑا دان نہیں ہوتے تھے۔ چولہے کی راکھ اور دُوسرا کوڑا کرکٹ لوگ ایک مخصوص جگہ پر پھینکتے جاتے جو ایک پہاڑ سی شکل اِختیار کر لیتا جسے ”رُوڑی“ کہا جاتا ہے۔ ”رُوڑی“ کے خاتمے کا ایک طریقہ کُوڑے کی منتقلی ہوتا جو کسان اپنے کھیتوں میں کھاد کے طور پر بھی اِستعمال کر لیتے۔ دُوسری صورت میں ”رُوڑی“ کو آگ لگا دی جاتی۔ ”رُوڑی“ کی آگ کی ایک خاصیت یہ تھی کہ وہ ایک دَم سے نہیں جلتی بلکہ دھیرے دھیرے سُلگتی رہتی تھی جس پر کئی گھنٹے بلکہ دِن بھی لگ جاتے ہیں۔ سُلگتی ”رُوڑی“ میں سے کبھی کبھی ٹھاہ ٹھاہ کی آوازیں بھی آ جایا کرتی تھیں جب بکریوں کی مینگنیں یا خشک لکڑیاں اِس میں جلنے لگتی تھیں۔

نفرت، تعصب، اِنتہاپسندی اور جنونیت پاکستان میں ”رُوڑی“ کا ایسا پہاڑ بن گیا ہے جس کی آگ پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں کبھی بجھی ہی نہیں بلکہ سلگتی رہتی ہے۔ اِس میں ایسا مواد کثرت سے موجود ہے جس سے ٹھاہ ٹھاہ کی آوازیں تواتر سے مکینوں کو ڈراتی اور خوفزدہ کرتی ہیں۔ ریاست کی مذہبی پہچان، ریاست کا سرکاری مذہب ہونا اور ریاست کے ڈھانچے میں کم تر اور برتر کا منظم تصور، تعلیمی اداروں میں تعصب اور نفرت زدہ نظام، ہزاروں مدرسوں میں نوجوانوں کی مخصوص ذہنیت میں ذہنی و عسکری تربیت، توہینِ مذہب کے قوانین کی موجودگی اور ان کا مفاد پرستانہ اور غلط اِستعمال، نوکریوں اور تعلیمی میدان میں مذہبی اِمتیازی سلوک اور عدم برابری درجنوں کی تعداد میں عسکریت پسند اور مذہبی و فرقہ وارانہ انتہا پسند تنظیموں کی موجودگی سلگتی ہوئی آگ کو تسلسل سے ایندھن فراہم کرتی آ رہی ہیں۔

نتیجے میں کئی سانحے ہو چکے اور کئی سانحات کے امکانات واضح دِکھائی دیتے ہیں۔ 1953 میں احمدیوں کے خلاف اُٹھنے والی تحریک سے ہولناک فسادات ہوئے جس میں سینکڑوں افراد کی جان چلی گئی۔ 1997 میں توہینِ مذہب کا جھُوٹا الزام لگا کر ضلع خانیوال کے گاؤں شانتی نگر کو جلا کر راکھ کر دیا گیا جس میں مسیحیوں کے 785 گھر اور 4 گرجا گھر جلا دیے گئے تھے جس کے بعد 2500 افراد کو اپنے گھر چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔ 2001 میں بہاولپور میں چرچ پر حملہ کر کے اتوار کی عبادت کے دوران 18 عبادت گزاروں کو قتل کر دیا گیا۔ 2010 میں احمدیوں کی 2 عبادت گاہوں پر حملہ کر کے کم از کم 94 افراد کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔

احمدیوں کی عبادت گاہوں کو جلانے اور مسماری کے درجنوں اور اُن کی ٹارگٹ کلنگ کے سینکڑوں واقعات ریکارڈ کا حصہ بن چکے ہیں۔

جرمن خبر رساں ادارے DW کے مطابق 1947 سے 2014 تک احمدیوں پر 33 حملے ہوئے جن میں 302 افراد کا قتل ہوا۔ 2015 سے اب تک کے حملے اور ہلاکتیں اِن اعداد و شمار کا حصہ نہیں ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ کے مطابق 1987 سے 2007 تک 4 ہزار شیعہ مسلمانوں کو اُن کے فرقے کی وجہ سے مارا گیا جب کہ الجزیرہ کے مطابق 2001 سے 2021 تک 2600 شیعہ قتل ہوئے۔

2005 میں سانگلہ ہل میں توہینِ مذہب کے الزامات کے بعد 3 چرچز، 2 کانونٹ سکول، ڈسپنسری اور پادریوں کے 2 گھر جلائے گئے۔

2009 میں گوجرہ کی کرسچن کالونی میں جلاؤ گھیرا ہوا جس میں 8 مسیحیوں کی جانیں چلی گئیں جب کہ 6 گھر جل گئے۔

2013 میں لاہور کی جوزف کالونی کو توہینِ مذہب کے بے بنیاد الزمات کے بعد مشتعل ہجوم نے جلا کر راکھ کر دیا۔ مسیحیوں کے 100 گھر جل گئے۔

2014 میں مسیحی میاں بیوی شمع اور شہزاد کو توہینِ مذہب کے جھوٹے الزام کے بعد زِندہ اینٹوں کے بھٹے میں پھینک کر جلایا گیا۔

کشت و خون کے درجنوں نہیں سینکڑوں واقعات اور بھی ہوچکے ہیں جہاں مذہب اور مسلک کو بنیاد بنا کر معصوم اِنسانوں کو مارا جا چکا ہے۔جنونیت اور اِنتہاپسندی کی آگ کو سلگائے رکھنے کا پورا سامان موجود ہے۔ فیصلہ ریاستِ پاکستان کو کرنا ہے کہ پانی ڈالنا ہے یا سانحے جھیلنے ہیں۔

سیمسن سلامت سنٹر فار ہیومن رائٹس ایجوکیشن کے ڈائریکٹر ہیں اور رواداری تحریک پاکستان کے چئیرمین بھی ہیں۔