قومی کمیشن برائے اقلیت: 'اس مردہ گھوڑے میں سنجیدہ بنیادوں پر جان ڈالنے کی ضرورت ہے'

قومی کمیشن برائے اقلیت: 'اس مردہ گھوڑے میں سنجیدہ بنیادوں پر جان ڈالنے کی ضرورت ہے'
آج سے ٹھیک 11 ماہ قبل موجودہ حکومت نے ایک نو ٹیفیکیشن کے زریعے قومی کمیشن براۓ اقلیت کو از سر نو تشکیل دیا ۔ اس مو جودہ کمیشن کی ایک اچھی بات یہ ہے کہ اس کا چیئرمین پہلی دفعہ کسی اقلیتی فرقہ سے ہے۔ جبکہ موجودہ چیرمین کی سیاسی وابستگی ان کی تقرری کی قانونی حیثیت پر سوالیہ نشان لگاتی ہے اسکے دیگر ار کان کے ساتھ  ساتھ  پہلی دفعہ احمد فرقہ کے رکن کو بھی اس کمیشن میں جگہ مل گئی ہے۔ اگر موجودہ کمیشن کے لیے وضع کردہ دائرہ کارکا جارہ لیا جائے تو پہلی نظر میں ہی یہ نہایت کمزور نظر آتے ہیں جبکہ اختیارات نہ صرف وا ضح نہیں ہیں بلکہ نہ ہو نے کے برابر ہیں۔  اس کمیشن کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگا یا جا سکتا ہے کہ اس کمیشن کا نہ تو کوئی دفتر ہے اور نہ ہی کوئی مخصوص عملہ ہے۔ صرف اس بات سے آپ حکومت کی سنجیدگی اور نیک نیتی کا اندازہ لگا سکتے ہیں جو سلوک مختلف  ادوار سے اقلیتوں کے حوالے سے بنائے  جانے والے ان کمیشنوں کے ساتھ حکومت کر رہی ہے۔ موجودہ کمیشن سے قبل ہمیں مختلف ادوار میں یہ کمیشن ان دستاویزات میں نظر آتے ہیں جو پاکستانی حکومتیں مختلف عالمی اداروں بشمول اقوام متحدہ میں جمع کرواتی رہی ہیں۔ اس کمیشن کی موجودگی سرکاری دستاویزات میں 1990ء سے نظر آتی ہے جبکہ 1995ء میں اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی عبدل الفتاح امر بھی اس کمیشن کا اپنی رپورٹ میں ذکر کرتے ہوئےنظر آتے ہیں اور اقلیتوں کے حقوق پر کام کرنے والے ماہرین کے علاوہ جناح انسٹیوٹ اسلام آباد بھی اپنی 2016ء کی سالانہ رپورٹ میں اس کی کار گردگی اور وجود پر سوالیہ نشان لگاتا ہوا نظر آتا ہے۔

دو ہزار سولہ کے اوائل میں یہ اعلان کرتا ہوا نظر آتا نیشنل پلان براۓ انسانی حقوق  کہ قومی کمیشن براۓ اقلیت کےقیام کےلیے قانونی بل 2016ء کے آخر تک منظور کر لیا جائے گا یہ اعلان اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ یہ کمیشن اس وقت سے قبل اپنا وجود ہی نہیں رکھتا تھا۔ دوسری طرف جسٹس جیلانی کا 19 جون 2014 کا فیصلہ بھی اقلیتی حقوق کی جدوجہد میں ایک بڑے سنگِ میل کی حیشیت رکھتا ہے جس میں ایک بڑی سفارش یہ بھی کی گئی ہے کہ قومی کمیشن براۓ اقلیت کا قیام طور پر عمل میں لایا جاۓ۔اگر موجودہ کمیشن کا ہر لحاظ سے جائزہ لیا جاۓ تو ایک اور قانونی کمزوری عیاں ہوتی ہے کہ موجودہ کمیشن کا دئرہ کار صرف اسلام آباد پر محیط ہے جبکہ18 ویں ترمیم کے بعد اقلیتی امور صوبوں کو منتقل ہوگئے  ہیں۔

 

قومی کمیشن براۓ اقلیت کو با مقصد اور فعال بنا نے کے لیے چند تجاویز پر غور کیا جانا بہت ضروری ہوگیا ہے:

1۔ موجودہ کمیشن کو آئینی حیثیت دے کر پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ بنایا جاۓ۔

کمیشن کے قانونی دائرہ  کار کو پورے ملک بشمول آزاد کشمیر و گلگت بلتستان پر لاگو کیا جاۓ۔

3۔ مذہبی اور سیاسی وابستگی کے حامل افراد کو مبصر کے طور پر شامل کر کے ان سے آراء لی جاۓ۔

کمیشن کو اپنی سہ ماہی رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کرنے پر پابند کیا جائے۔

5- کمیشن کی سفارشات پر حکومتی اداروں کو عمل در آمد کرنے پر پابند کیا جاۓ۔