کل کے بچوں کے آگے ہاتھ باندھے کھڑے سیاست کے جغادری

کل کے بچوں کے آگے ہاتھ باندھے کھڑے سیاست کے جغادری
میں شیری رحمٰن کے پاس جاتا ہوں۔ وہ ہیرلڈ کی ایڈیٹر ہیں۔ ہیرلڈ میرے باپ نے ایجاد کیا تھا۔ میری تعلیمی قابلیت میٹرک بھی نہیں۔ مجھے امید ہے مجھے دیکھ کر شیری ادب سے کھڑی ہو جائے گی۔ اپنی کرسی میرے لئے خالی کر دے گی۔ اور ہیرلڈ کے سیاہ سفید کا مالک میں ہوں گا۔

میری طرح میرا دوست اعتزاز احسن کے چیمبر میں چلا جاتا ہے۔ اس کی تعلیمی قابلیت پرائمری بھی نہیں۔ وہ اعتزاز کو یاد دلاتا ہے کہ اس کے باپ نے اسے چیمبر میں نوکری دی تھی۔ اب اس کا بیٹا یعنی میرا دوست آ گیا ہے۔ لہٰذا اعتزاز فوراً کرسی خالی کر دے۔ ادب سے ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو جائے۔ اور چیمبر کے معاملات میرے دوست کو دیکھنے دے۔

میرے دوست کا دوست گنجا پاپی مڈل فیل ہے۔ وہ شاہد خاقان عباسی کے پاس جاتا ہے۔ کہتا ہے تمہاری ائر لائن تو میرے باپ نے بنائی تھی۔ اس وقت میں بچہ تھا۔ اب تم اٹھو۔ تمہاری کرسی تو اصل میں میری میراث ہے۔ لہٰذا مجھےپائلٹ کی نوکر ی دو۔

عجب وقت آن پڑا ہے۔ سب کے سب نمک حرام نکلے۔ شیری نے مجھے، اعتزاز نے میرے دوست کو اور شاہد نے گنجے پاپی کو دھکے دے کر نکال دیا۔ یہ بدلا دیا ہمارے باپوں کے احسانات کا۔ تاویل یہ گھڑی کہ تمہارے باپوں کی خدمات سر آنکھوں پر۔ وہ سب کے سب قابل انسان تھے۔ ہمارے استاد تھے۔ تم سب کے سب نکمے۔ اگر مڈل پاس جہاز اڑائے گا تو وہ لازماً کریش ہو گا۔ ہیرلڈ میں رپورٹر بننے کے لئے کم ازکم تعلیمی قابلیت بی اے تو لازمی ہو اور انگریزی بہترین! اور وکالت کوئی بچوں کا کھیل نہیں۔ بیرسٹری کرنی پڑتی ہے۔ تم تو چیمبر میں ٹی بوائے بھی لگ جاؤ تو بڑی بات ہے۔

قصہ مختصر، ہم سب بہت بے آبرو ہو کر واپس اپنے اڈے پر پہنچ گئے اور کچھ سوچنے لگے۔ اور جو کچھ سوچا آپ کی خدمت میں حاضر ہے۔

یہ ہی شیری رحمٰن کل کے بچے بلاول بھٹو کے سامنے ادب سے کھڑی رہتی ہے۔ ایسے جیسے اس کی غلام ہو۔ سیاست میں اس کا وسیع تجربہ ہے۔ اگر یہ آج بھی ہیرلڈ کی ایڈیٹر ہوتی تو شاید بلاول کا Letter to the Editor بھی نہ چھاپتی۔ اب اس بچے کی بچگانہ گفتگو ایسے سنتی ہے جیسے مولانا روم گفتگو کر رہے ہوں۔ یہی حال اعتزاز کا ہے۔ اتنا بڑا وکیل اور سیاستدان۔ مگر بلاول کے آگے بھیگی بلی! بلاول کا بیرا لگتا ہے اپنے مؤدبانہ رویے سے۔ یا اس کی میل آیا! شیری اور اعتزاز کے علاوہ بھی پی پی پی میں ایک سے ایک بڑھ کر نابغہ روزگار ہے مگر سب کے سب ایک بچے کے آگے خوشامدیوں کے طرح ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں۔ کتنی توہین کرتے ہیں یہ اپنے علم اور تجربے کی مگر پھر بھی بے مزہ نہیں ہوتے۔

یہی حال نون لیگ میں دیکھنےکو ملتا ہے۔ ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے سیاست میں آئی مریم جو کہ کچھ عرصے پہلے اپنے مجازی خدا صفدر کے نام سے جانی جاتی تھی اب مریم صفدر سے مریم نواز بن گئی ہے۔ آج باہر نوکری کے لئے نکلے تو میرٹ پر فون آپریٹر کی نوکری نہ ملے مگر شاہد، رانا ثنا اور احسن اقبال جیسے جن کی ساری عمر سیاست کے خاردار میدان میں گزر گئی اس بچی کی جی حضوری میں لگے رہتے ہیں۔

ملک چلانا ہیرلڈ چلانے، چیمبر چلانے یا جہاز چلانے سے کئی گنا زیادہ ذمہ داری، سمجھ بوجھ اور دانشمندی کا کام ہے جو کہ ہم نے کل کے چھوکروں اور چھوکریوں پر چھوڑ رکھا ہے۔ ہمارے ملک کی وزارت ماحولیات کی وزیر زرتاج گل کی جہالت سر آنکھوں پر۔ فرماتی ہیں کہ کووڈ 19 کے انیس پوائنٹ ہیں جو کسی بھی ملک پر اس کے حالات کے مطابق پورا اتر سکتے ہیں۔ اور جہالت کا باپ وہ اینکر ہے جو زرتاج کی جہالت پر سر ہلاتا ہے۔ جاہل منسٹر کے لئے جاہل اینکرہی بہترین ہے۔

خبروں کے ذریعے معلوم ہوا کہ صوبہ خیبر پختونخوا کا وزیر تعلیم میٹرک پاس ہے۔ اللہ کا شکر ادا کریں۔ یہ چٹا ان پڑھ بھی ہو سکتا تھا۔

کیا نون لیگ اور پی پی پی کے پاس کوئی قابل رہنما نہیں سوائے نواز کی بیٹی یا بھٹو کے نواسے کے؟ یہ سیاسی جماعتیں ہیں یا بنیے کی دکانیں؟ ان جماعتوں میں جمہوریت نام کی چیز نظر آتی ہے؟ پھر کس منہ سے ان جماعتوں سے تعلق رکھنے والے آمریت کا رونا روتے ہیں؟ نہ جماعت میں جمہوریت نہ رویے میں جمہوریت۔ راج تو صرف آمریت کا چل رہا ہے۔ خاکی آمریت یا جمہوری آمریت۔ یہی دونوں اس ملک پر مسلط ہیں۔ ایسے جب سیاستدان فوجی آمر کو کوس رہے ہوں تو اس کا یہی مطلب ہے: 'سانوں وی کھان دیو!'

Contributor

محمد شہزاد اسلام آباد میں مقیم آزاد صحافی، محقق اور شاعر ہیں۔ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں۔ طبلہ اور کلاسیکی موسیقی سیکھتے ہیں۔ کھانا پکانے کا جنون رکھتے ہیں۔ ان سے اس ای میل Yamankalyan@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔