لیاقت علی خان کے قتل کے عینی شاہد نے 70 سال بعد حقائق سے پردہ اٹھا دیا

لیاقت علی خان کے قتل کے عینی شاہد نے 70 سال بعد حقائق سے پردہ اٹھا دیا
پاکستان کے مایہ ناز ریڈیو اناؤنسر، نیوز کاسٹر اور صداکار اظہر لودھی نے سینیئر صحافی مطیع اللہ جان سے بات کرتے ہوئے یہ انکشاف کیا ہے کہ لیاقت علی خان کو جب گولی لگی تو اس وقت اظہر لودھی کمپنی باغ (جسے بعد ازاں لیاقت باغ کا نام دیا گیا)، راولپنڈی میں موجود تھے اور انہوں نے نہ صرف لیاقت علی خان کو گولی لگتے ہوئے دیکھی بلکہ جس شخص نے انہیں گولی ماری، اس کو بھی گولی لگتے دیکھی اور اسے گولی مارنے والے کو بھی اپنی آنکھوں سے دیکھا۔

اظہر لودھی کے مطابق لیاقت علی خان جس وقت سٹیج پر پہنچے تو اس وقت سٹیج پر صرف ایک کرسی، ایک میز، ایک روسٹرم اور ایک مائیک موجود تھا۔ سٹیج اس طرح سے بنایا گیا تھا کہ کوئی اور شخص تقریر کے دوران سٹیج پر موجود ہی نہ ہو۔ لیاقت علی خان اس وقت سٹیج پر بالکل تنہا تھے اور سید اکبر، ان کا قاتل، سٹیج کے بالکل سامنے بیٹھا تھا۔ بقول اظہر لودھی کے سید اکبر کچھ کھا بھی رہا تھا۔ جب لیاقت علی خان سٹیج پر آئے تو ابھی انہوں نے محض 'برادرانِ ملت' ہی کہا تھا کہ سید اکبر نے ان کو گولی مار دی۔ لوگوں نے تالیاں بجائیں۔ انہیں لگا تھا کہ شاید وزیر اعظم کے استقبال کے لئے پٹاخے چھوڑے جا رہے ہیں لیکن پھر اچانک گولیاں چلنے لگیں، باغ میں بھگدڑ مچ گئی۔ وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے لیاقت علی خان کے کوٹ میں سے دھواں اٹھتے دیکھا اور پھر وہ گر گئے۔

حیرت انگیز طور پر لیاقت علی خان نہ صرف گولی لگنے کے موقع پر سٹیج پر اکیلے تھے بلکہ اگلے آدھے گھنٹے تک کوئی ان کی لاش کے قریب بھی نہیں گیا۔ کوئی ورکر، کوئی دوسرا سیاسی لیڈر ان کے ساتھ نہیں تھا سوائے نواب صدیق علی خان کے جن کی گود میں لیاقت علی خان کا سر رکھا تھا۔ اس دوران کوئی سکیورٹی والا وہاں نہیں آیا۔ یہاں تک کہ ایمبولنس بھی وہاں موجود نہیں تھی، وہ بھی آدھے گھنٹے بعد پہنچی۔ وزیر اعظم کا جلسہ اور ایمبولنس تک موجود نہ تھی۔

اظہر لودھی بتاتے ہیں کہ جب بھگدڑ مچی تو ان کے اپنے سر میں بھی چوٹ لگی۔ وہ کشمیر روڈ تک گئے جو اس زمانے میں اتنی کشادہ نہیں تھی۔ اظہر لودھی کے بقول وہ کشمیر روڈ سے واپس آئے، ان کے سر سے خون بہہ رہا تھا اور وہ رو رہے تھے۔ اور اتنی دیر بعد جب وہ واپس باغ کے اندر داخل ہوئے تو کمپنی باغ بالکل خالی تھا، لوگوں کی ٹوپیاں اور کوٹ جا بجا پھیلے ہوئے تھے اور سٹیج پر اس وقت تک بھی لیاقت علی خان کی لاش اکیلی پڑی تھی اور کوئی سکیورٹی افسر وہاں نہیں پہنچا تھا۔

اظہر لودھی بتاتے ہیں کہ اس موقع پر انہوں نے سید اکبر کی لاش کو بھی دیکھا جو وہیں پڑی تھی۔ انہوں نے اس کو گولی لگتے ہوئے بھی دیکھا تھا۔ اظہر لودھی بتاتے ہیں کہ جب لیاقت علی خان کو گولی لگ گئی تو کچھ پیچھے سے ایک شخص نے جو سادے کپڑوں میں ملبوس تھا لیکن مجھے سرکاری افسر ہی لگتا تھا نے سید اکبر کو بھی گولی مار دی۔ ان کے مطابق لیاقت علی خان کے قتل کے پیچھے کون تھا یہ تو انہیں نہیں پتہ لیکن یقیناً یہ ایک سازش تھی جس کے تفتیش کار تک کو حادثاتی موت نے آ لیا تھا۔

یاد رہے کہ سپیشل برانچ کے سربراہ اعزاز الدین جو کہ اس کیس کے تفتیش کار تھے، جہاز حادثے میں اس وقت ہلاک ہو گئے تھے جب وہ راولپنڈی سے کراچی اس وقت کے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین سے ملنے جا رہے تھے اور ان کے پاس کیس کے حوالے سے اہم دستاویزات بھی موجود تھیں۔ یہ جہاز جہلم کے قریب اچانک فنی خرابی پیدا ہونے سے لگنے والی آگ کے باعث گر کر تباہ ہو گیا تھا اور اس میں موجود تمام مسافر اور ان کا سامان جل کر راکھ ہو گئے تھے۔

حال ہی میں نیا دور پر شائع ہونے والے عظیم بٹ کے مضمون ’پندرہ ہزار روپے دے کر وزیر اعظم قتل کروا دیا: جب بیگم رعنا لیاقت نے لیاقت علی خان کے قتل کی حقیقت بیان کی‘ میں انہوں نے بھی اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے جہاں انہوں نے حوالہ دیا کہ کتاب “گئے دنوں کے سورج” میں فارن آفس کے ایک جونیئر آفیسر جو کہ رعنا لیاقت کے ساتھ روم میں سفارتخانے میں تھرڈ سیکرٹری تھے نے بتایا کہ بیگم رعنا لیاقت علی خان ان دنوں روم میں پاکستان کی سفیر تھیں، حکومت نے خان لیاقت علی خان کے قتل کے بعد ان کے خاندان کے لئے 5 ہزار روپے وظیفہ مقرر کر دیا تھا۔ یہ رقم چونکہ تھوڑی تھی تو بیگم رعنا لیاقت کو روم میں سفیر لگا دیا گیا۔ کتاب کے مطابق بیگم رعنا لیاقت علی خان کہتی ہیں کہ ایک روز قتل کیس کی تفتیش کرنے والے اعزاز الدین (اس وقت کے آئی جی سپیشل برانچ) کراچی میرے گھر آئے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ قاتل تک پہنچ چکے ہیں۔ اگر وہ چند دن مزید رہ گئے تو یہ راز راز نہیں رہے گا۔ میں نے ان سے تفصیلات پوچھیں تو انہوں نے بتایا کہ سید اکبر جو کہ لیاقت علی خان کا قاتل تھا اس کو 15 اکتوبر کو ایک سی آئی ڈی کا اہلکار ایبٹ آباد سے راولپنڈی لایا تھا۔ ہوٹل کے رجسٹر میں اس کا نام بھی درج ہے۔ اس کو اس کام کے 15 ہزار روپے دیے گئے تھے۔ 10 ہزار اس کے گھر اور تین ہزار اس کی جیب سے برآمد ہوئے ہیں جب کہ باقی 2 ہزار کا اب تک سراغ نہیں لگایا جا سکا۔ وہ اور اس کا بیٹا سب سے پہلے پنڈال میں داخل ہوئے اور پہلی قطار میں سٹیج کے بالکل سامنے جا کر بیٹھ گئے۔ اس وقت اس سارے پنڈال کو پولیس اور سی آئی ڈی کے اہلکاروں نے گھیر رکھا تھا پھر اس مشکوک حرکت پر اس سے پوچھ پڑتال کیوں نہیں کی گئی؟ جلسہ شروع ہونے سے پہلے جب سارے پنڈال کی تلاشی لی گئی تو پولیس نے اس کی جیب سے پستول برآمد کیوں نہیں کیا؟ خان لیاقت علی خان کے قتل کے بعد جب سید اکبر کے قریب بیٹھے قصاب نے اسے دبوچ لیا تو پھرشاہ محمد اے ایس آئی نے اسے گرفتار کرنے کی بجائے اسے قتل کیوں کیا؟ مشتاق گورمانی راولپنڈی میں ہونے کے باوجود وزیر اعظم کے جلسے میں شریک کیوں نہیں ہوئے؟ غلام محمد نے گورنر جنرل بنتے ہی آئی جی پنجاب قربان علی خان کو گورنر بلوچستان کیوں بنا دیا؟ اور پھر موت ہر وقت سائے کی طرح میرا پیچھا کیوں کرتی رہتی ہے؟ روز روڈ پر میری گاڑی کا ایکسیڈنٹ کیوں ہو جاتا ہے؟ سارے سوالوں کے جواب ہیں/ بس مجھے ایک ثبوت کی تلاش ہے جو چند روز تک ہو جائے گا۔ اس کے بعد میں اپنی رپورٹ اعلیٰ حکام کی بجائے اخبارات کو پیش کروں گا تاکہ مجرموں کو سزا ملنے سے قبل ہی رپورٹ تاریخ کا حصہ بن جائے۔ اعزاز الدین سے اس ملاقات کے بعد میرے خدشات حقیقت کا روپ دھارنے لگے۔ مجھے اپنے خاوند کے قاتلوں کا یقین ہو گیا اور میں بڑی شدت سے اعزاز الدین کی رپورٹ کا انتظار کر نے لگی لیکن چند روز بعد جب اس کی رپورٹ مکمل ہو گئی تو اس طیارے کو اعزاز الدین اور اس کی رپورٹ سمیت بم سے اڑا دیا گیا۔ یوں میری آخری امید بھی دم توڑ گئی۔

بعد ازاں فروری 1958 میں مشتاق گورمانی بمقابلہ زیڈ اے سلیری کیس میں لاہور ہائی کورٹ نے لیاقت علی خان قتل کیس کی فائل کا مطالبہ کیا تو اس وقت کے اٹارنی جنرل نے 25 فروری تک یہ فائل عدالت میں پیش کرنے کا وعدہ کیا لیکن وہ پیش کرنے میں ناکام رہے اور یکم مارچ 1958 کو عدالت کو بتا دیا گیا کہ یہ فائل گم ہو چکی ہے اور اس کو ڈھونڈا جا رہا ہے۔ 8 مارچ کو سی آئی ڈی کے ایک افسر نے عدالت کو بتایا کہ فائل نہیں مل سکی لہٰذا اسے عدالت میں پیش نہیں کیا جا سکتا۔

پاکستان میں اکثر کہا جاتا ہے کہ لیاقت علی خان کی موت کی وجہ وہ تقریر تھی جس میں انہوں نے پاکستان کے تمام صوبوں کے نام انگلیوں پر گنے اور انگوٹھے کو کشمیر قرار دیتے ہوئے مکا ہوا میں لہرایا اور بھارت کو وہ مکا پسند نہ آیا۔ اظہر لودھی بھی انٹرویو میں اسی مکے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ لیکن کیسی عجیب بات ہے کہ اس قتل سے فائدہ اٹھانے والے سب پاکستانی سیاستدان اور بیوروکریٹ تھے۔ اس قتل کا تفتیش کار طیارہ حادثے کا شکار ہو گیا۔ اور فائل پاکستانی افسران سے گم ہو گئی۔ کیا یہ سب بھی بھارت کر رہا تھا؟